ذوالفقار چیمہ ایک انوکھے کردار میں! – عطاء الحق قاسمی

مجھے اس بات پر بڑا مان تھا کہ میں ایک غم زدہ معاشرے میں مسکراہٹیں تقسیم کرنے والوں کو تلاش کرتا ہوں۔ گل نوخیز اختر، ناصر ملک، ظہیر سید، علی رضا، ذوالفقار احسن، ابرار ندیم تو پنجاب ہی سے مل گئے۔ کراچی سے سید عارف مصطفیٰ، عارف خٹک (پشتون) سے تو آپ مانوس ہو گئے، یا متعارف ہو گئے۔ ڈاکٹر یونس بٹ تو بہت پہلے سے اپنا سکہ جمائے بیٹھے ہیں، حسین شیرازی کا نام میں اس لیے نہیں لے رہا کہ میں انہیں مزاح نگاروں میں نہیں، اب کلاسیکی میں شمار کرتا ہوں مگر وہ جو کہتے ہیں کہ بچہ بغل میں ڈھنڈورا شہر میں، تو اس حوالے سے اک ہاتھ یہ ہو گیا کہ میں اور آپ ذوالفقار چیمہ کو ایک آئیڈیل قسم کا پولیس افسر ہی سمجھتے رہے۔ وہ بدنام ترین ڈاکوؤں پہ ہاتھ ڈال کر انہیں کیفرِ کردار تک پہنچاتے رہے، یہ وہ لوگ تھے جو عرصہ دراز سے ڈکیتی، اغوا، بھتہ اور قتل کے سنگین جرائم کے مرتکب تھے مگر کرپٹ پولیس افسروں یا عدالتی سست روی کی وجہ سے قانون کی گرفت میں نہ آسکے تھے، ذوالفقار چیمہ ملک سے باہر بھاگ جانے والے ان مجرموں کو بھی ہتھکڑیاں پہنا کر پاکستان لے آئے. چنانچہ ہم چیمہ صاحب کو بس اُن کی پیشہ ورانہ صلاحیت، مہارت اور دیانت ہی کی داد دیتے رہے، اُس چیمہ سے بےخبر ہی رہے جس کی شگفتہ بیانی تو معروف تھی مگر ان کی شگفتہ تحریر سے واقف نہ تھے. مگر اب وہ ’’پسِ پردہ‘‘ کے عنوان سے اپنی کتاب مارکیٹ میں لے آئے ہیں، لہٰذا اب وہ معاشرے کے ان محسنوں میں بھی شمار ہوں گے جو چہروں پر مسکراہٹیں ہی بکھیرتے ہیں، غمزدہ آنکھوں سے آنسو پونچھتے بھی ہیں اور تحریر میں چھپی درد مندی سے آنکھیں نم بھی کر دیتے ہیں۔
دیکھیں جی ماضی اور حال میں مختلف سٹائل اختیار کرنے والے مزاح نگاروں سے میں لطف اندوز ہوتا ہوں، اب ان میں ایک رنگ ذوالفقار چیمہ نے بھی اضافہ کر دیا ہے۔ وہ اپنی تحریر میں ان لفظوں سے مزاح پیدا کرتے ہیں جو پولیس تھانوں میں سننے کو ملتے ہیں، یا مختلف تقریبات میں اعلیٰ عہدوں پر متمکن پولیس افسر اپنے عملے کو جس طرح استعمال کرتے ہیں وہ بےحد دلچسپ ہے۔ مثال کے طور پر ایک ڈی آئی جی صاحب کی کتاب شائع ہوتی ہے، اس کی تقریب رونمائی کی تیاریاں اور تقریب کے مقررین کا احوال بےحد دلچسپ ہے، مثلاً حاضرین کا بندوبست کرنا اور ہال بھرنے کا ٹاسک ایس ایس پی اپنے ذمے لے لیتے ہیں، جس کے لیے وہ ایک میٹنگ بلاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک میٹنگ میں ایس ایچ او سٹی نے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا: سر آپ اگر اجازت دیں تو ہال بھرنے کے لیے دو تین براتیں گھیر کر لے آؤں۔ ڈی ایس پی ہیڈکوارٹر نے اجازت طلب کی کہ پولیس لائن کے رنگروٹ، باورچی، مالی اور دیگر متبرک اسٹاف کو بھی ہال میں بیٹھا دوں، جواب ملا ٹھیک ہے مگر وہ پراپر ڈریس میں ہوں تاکہ معزز لگیں۔ اور ہاں برات گھیر کر لانے کی تجویز کا سب سے دلچسپ پہلو تو میں بھول ہی چلا تھا۔ ایس ایچ او سٹی کی اس تجویز کے جواب میں ایس ایس پی نے کہا نہیں، ایسے تو لوگوں کا دھیان ڈی آئی جی صاحب کی بجائے دولہنوں کی طرف رہے گا۔ ایس ایچ او نے کہا سر دونوں دولہنوں کو مینجر کے دفتر میں بٹھایا جائے گا۔ میزبان اور وارث ان کا پتہ کرنے آئیں گے تو انہیں بتایا جائے گا کہ ایک خفیہ اطلاع ملی تھی کہ برات میں کچھ دہشت گرد بھی شامل ہیں۔ چنانچہ سیکورٹی چیکنگ کے بعد ہی برات کو فارغ کیا جا سکے گا۔ ایس پی رانا کی تجویز تھی کہ سر حوالاتوں میں بند معمولی جرائم کے ملزمان کو لے آئیں گے تو یہ بھی سو ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہوں گے۔ ایک ایس ایچ او نے کہا سر اجازت ہو تو شہر کے سارے خواجہ سرا گھیر کر لے آؤں، انہیں ہال کی پچھلی قطاروں میں بیٹھا دیں گے۔
’’تقریب رونمائی‘‘ کے عنوان سے یہ سارا مضمون اسی طرح کی پھلجھڑیوں سے بھرا ہوا ہے۔ مزاح میں مبالغے کی گنجائش ہوتی ہے اور یہ ترکیب اس مضمون میں استعمال کی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف پولیس نہیں تمام صاحبانِ اختیار کے حوالے سے یہی کچھ نظر آتا ہے۔ شادی بیاہ میں تو ایمان دار افسروں کی مٹھی بھی یہ کہہ کر گرم کر دی جاتی ہے ’’بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں‘‘۔ اس کے علاوہ بیوروکریسی کی ایک بڑی تعداد کے گھروں میں دودھ، مکھن، گوشت، سبزیاں، مشروبات، موسم کے تازہ پھل اور دیگر الا بلا بھی نذرانے کی صورت میں پہنچ جاتے ہیں بلکہ یہ جو بغیر سیکورٹی کے اچانک دورے ہیں، یہ بھی ’’بغیر سیکورٹی‘‘ اور ’’اچانک‘‘ نہیں ہوتے۔ صاحبانِ اقتدار چالاک و عیار ہونے کے باوجود اس طرح کے معاملات میں اتنے بھولے ہوتے ہیں کہ وہ عوام کو بھولا سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ ذوالفقار چیمہ اور قارئین سے اس بات کی معذرت کہ میں ’’پس پردہ‘‘ کی ’’تقریب رونمائی‘‘ ہی میں الجھ کر رہ گیا اور اس کتاب کے ہر صفحہ پر بکھری کچھ مسکراہٹوں، کچھ قہقہوں اور کچھ آنسوئوں کی طرف جا ہی نہیں سکا۔ بات یہ ہے کہ میں نے آپ کو اس جہانِ دیگر کی مفت سیر کرانے کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا، بازار جائیں، اپنی جیب ڈھیلی کریں اور کتاب خریدیں۔ ادب کے قارئین سے دراصل میں گزارش یہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ مفت بھری چھوڑ دیں اور اعلیٰ برانڈ کے ملبوسات خریدنے کے علاوہ کبھی کبھار اعلیٰ برانڈ کی کوئی کتاب بھی خرید لیا کریں۔

(روزنامہ جنگ)

نوٹ: 207 صفحات کی اس کتاب کو ”بُک کارنر، جہلم نے بہت خوب صورت انداز میں شائع کیا ہے اور اس کی قیمت 600 روپے مقرر کی گئی ہے.


ذوالفقار احمد چیمہ صاحب پاکستان کے اُن افسران میں سے ہیں جن کی بہادری، فرض شناسی اور دیانتداری قابلِ تحسین بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ وہ سول سروس کے ایک رول ماڈل ہیں۔ وہ اِتنی اُجلی شخصیت کے حامل ہیں کہ اُن کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہیں۔ اُن کے بارے میں بہت درست کہا گیا ہے کہ وہ پولیس سروس کے ماتھے کا جُھومر ہیں۔ ان مضامین میں چیمہ صاحب نے ایک ایسا آئینہ فراہم کیا ہے جو ہماری سیاسی اور سماجی بدعنوانیوں اور ناہمواریوں کی بھرپور عکّا سی کرتا ہے۔ اس آئینے میں دیکھتے جائیے، یہاں کی الیکشن بازی، دھونس، رِیس کی ریس، افسروں اور وزیروں کی مہمل تقریریں۔ کینسل ہوتے ہوئے تبادلے۔ پھیپھڑے آزماتے ہوئے ٹی وی اینکر… پھلوں کے بڑے بڑے ٹوکرے… گھریلو پیکار انگیز کریلے، دھرنے، نذرانے، ماہانے، جہالت سے لبریز کتابوں کی رونمائیاں، گریڈ گردی، نمائشی تقریبات، جعلی پیروں کی مکروہ تعویذ نویسی اور نام نہاد معزّز شہریوں کے بد نُما اور کراہت انگیز چہرے … سبھی کچھ تو دکھائی دہے رہا ہے۔

(انور مسعود)

ذوالفقار احمد چیمہ کا نام قرطاس و قلم کی دُنیا میں نیا نہیں ہے۔ ایک عرصہ سے وہ قومی سطح کے پرنٹ میڈ یامیں لکھ رہے ہیں۔ اُن کے مضامین کے دو مجموعے اُردو میں اور ایک انگریزی میں شائع ہوچکے ہیں! ان کی صاف گوئی کو قوم کے ہر طبقے نے پسند کیا ہے۔ ان مضامین میں انھوں نے اپنے تجربے کو عوام کے ساتھ شیئر کیا ہے اور استعاروں کنایو ں کے بغیر، عام فہم انداز میں اس طرح شیئر کیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے ساتھ ساتھ، عام لوگ بھی لطف اٹھا سکتے ہیں۔

(محمد اظہار الحق)

ذوالفقار چیمہ پیشے کے لحاظ سے سول سرونٹ ہیں لیکن ذوق کے اعتبار سے قلم کار۔ قانون کی حکمرانی کا معاملہ ہو تو وہ تیغ بدست ہوتے ہیں لیکن جب مزاح کی طرف آتے ہیں تو خندہ بلب اورگل بداماں نظر آتے ہیں۔ سول سروس میں یہ امتزاج انوکھی مثالوں میں سے ایک ہے۔ مزاح اور مزاج کی شگفتگی ان کی شخصیت کا حصّہ ہیں۔ حِسِّ مزاح ان میں فطری ہے اور ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔ ان کی نظر میں مشاہدے کی گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی،اور اسے اظہار میں ڈھالنے کا انہیں جو ملکہ اور عبور حاصل ہے، اس میں فطری جھلک نظر آتی ہے۔

(ظفرحسن رضا)