’’چراغ آخر شب‘‘ کے لیے مختصر الفاظ میں کچھ کہنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ سب کچھ جو ہمارے دل میں تھا، وہ بڑی محبت اور محنت سے سجائے گئے ’’رودادِ پاکستان‘‘ نام کے اس تھیٹر میں ایک ایک کر کے پردہ اٹھا کر سامنے آنے والے کرداروں نے کبھی کلام اور کبھی خود کلامی میں خود ہی کہہ دیا۔
یہ رُوداد ہے رفعت ناہید سجاد کے ناول ’’چراغِ آخرِ شب‘‘ کی۔۔۔ تاریخ کا ایسا تکلیف دہ سفر، جس کا آغاز ’’شاہجہانی روزن‘‘ تلاش کرنے کی خواہش میں کنویں کی تہہ سے جا ملنے والی جون آف آرک نے نہایت دل دہلا دینے والے انداز میں کیا تھا، مگر جس کی صلیب بعد میں آنے والی نسل کی ہر جون آف آرک نے اپنے اپنے انداز میں اٹھائی۔ ’’چراغِ آخرِ شب‘‘ کی یہ جون آف آرک کون ہے جو ہر بار شعلوں میں جل کر نیا جنم لیتی رہی؟ عطن، نائلہ مہدی، تنویر عباس، پروین وسایا اورعبیر۔ تین نسلوں کی عورتیں۔ تاریخ کے تین مختلف دَور۔ جیسے بال آئے آئینہ میں ایک ہی چہرے کے کئی روپ نظر آتے ہیں۔ ٹکڑیوں میں تقسیم، شکستہ چہرے۔ طبقے الگ، تعلیم الگ، پس منظر اور ماحول جدا، زمانہ مختلف، لیکن سفر کی منزل ایک۔۔۔ کمزور مگر اپنی طاقت کا شعور رکھنے والی عورتیں۔
تین نسلوں کا سفر۔۔۔ جو تاحال جاری ہے۔۔۔1947ء سے پہلے آغاز ہونے والا سفر، ہم بھی انہی کرداروں کے قافلے میں اونٹوں، بیل گاڑیوں اور خون سے لتھڑی ٹرینوں میں سوار ہو کر پاکستان کا ماضی، حال اور مستقبل دیکھتے رہے۔ ان کے ساتھ روتے اور ہنستے رہے، ان کی آنکھ سے اپنے پاکستان کو عوامی اور غیر عوامی کہلانے والے حکمرانوں کے ہاتھوں کبھی مذہب اور کبھی قومی مفاد کے نام پر ہر مہینے الگ الگ انداز سے لٹتے، بکھرتے اور مزید بگاڑ کی طرف جاتا دیکھتے رہے۔
’’ چراغ آخر شب‘‘ ہمارے پاکستان کی کہانی ہے ، جس کے ماضی کی رُوداد لکھی جا چکی ہے، جس کے حال کے پاس اب کھونے کے لیے کچھ نہیں بچا اور جس کے مستقبل میں ستارے ٹانکنے کے لیے ماؤں کوراتیں جاگ جاگ کر، ضرورت پڑنے پر شاید دوپٹوں کے پلو پھاڑ کر کڑوے تیل کے دیئے روشن کرنے کو ہاتھوں سے روئی کی بتیاں بنانی پڑیں گی، پرانے چراغوں کو بجھنے سے بچانے کے لیے خونِ دل سے نئے چراغ روشن کرنے ہوں گے۔
پنجاب یونیورسٹی میں سجائے عبیر عباس کے اس تھیٹر کا ہر چھوٹا، بڑا، مرکزی اور ثانوی کردار میرا پسندیدہ کردار ہے۔ وہ عطن بی ہوں، ایڑی والی جوتی پہنے گھومتی کریم بی، یا کہانی کا سب سے نیک دل شہزادہ شہریار۔۔۔ کردار، جن کی اپنی کہانیوں کا کوئی انجام نہیں ہوتا، مگر جو اندھیری رات میں چلنے والی ٹرین کے ان مسافر وں کی طرح ہیں، جن کے اترے اور چڑھے بغیر سفر کی منزل کبھی آہی نہیں سکتی۔
1960ء کی دہائی میں عوامی تحریک میں شامل ہونے والے، شاہی قلعے کے عقوبت خانوں میں مستقبل کے لیے روشنیاں کھوجتے سر عباس اور 1971ء میں ملک کے دولخت ہونے کا عمر بھر پر محیط کرب ڈھوتے ان کے دوست، میں ان دونوں سے مرعوب ہوں، اتنی کہ ان سے ریلیٹ کرنے میں مشکل محسوس کر رہی ہوں۔ پاکستان کی ایک پوری نسل جس نے وطن کے روشن مستقبل کی چاہ میں اور اپنے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو سے عشق میں جیلیں کاٹیں، عقوبت سہی، خودسوزیاں کیں، جلاوطن ہوئی، دربدر ہوئی۔۔۔ وہ پوری ایک نسل جسے ضیادور نہ کھا جاتا تو اس ملک کا مستقبل کس قدر مختلف ہوتا۔۔۔ ’’چراغِ آخرِ شب‘‘ نوحہ ہے اُسی پوری ایک نسل کا، وہ سیاسی کارکن، نوجوان، دہقان، محنت کش، اساتذہ، شاعر، ادیب، طلبا، جن کی دربدری کا ذکر بھی اب کوئی نہیں کرتا۔ محبت ہو یا نفرت، اختلاف یا اتفاق، مگر جس طرح پھانسی چڑھ جانے والے اس لیڈر کے ذکر کے بغیر ہمارے وطن کی تاریخ نامکمل ہے، اسی طرح پاکستان کی اس دربدر نسل سے بھی نگاہ نہیں چرائی جاسکتی۔ وہ لکھتی ہیں:
’’ہم کتنے غیر اہم لوگ ہیں، ہمارے جیسے اور بھی کتنے پیدا ہوئے اور مرگئے۔ حالاں کہ ہم خود کو کتنا ضروری تصور کرتے ہیں، جیسے ہم ہیں اور رہیں گے۔
آخر ہماری پیدائش کا مقصد کیا ہے؟
ہم لوگ تو اس عہد میں جی رہے ہیں جہاں ہم پیدا ہی مرے ہوئے ہوئے تھے۔ موت صرف جسم کو نہیں آتی، کبھی جذبوں کو آ جاتی ہے۔ کبھی ہمارے سست پڑتے عمل کو آ جاتی ہے۔ اس آخری اور فائنل موت سے پہلے بھی ہم کئی بار مر چکے ہوتے ہیں۔ حالاں کہ ہم سب مُردہ لوگوں نے جینے کی بڑی خواہش کی تھی۔
ہر زمانے میں ہر عہد کے لوگ شاید اسی طرح جدوجہد کرتے ہیں اور اسی طرح ناکام ہوتے ہیں، پھر نئے سرے سے جُت جاتے ہیں۔ ہر صبح ایک نئی امید، نئی زندگی کا آغاز کر کے، ہر شام اس دن کی موت کے بعد پھر ایک نئی روح کے ساتھ۔
سفر جاری ہے۔ سفر جاری رہتا ہے۔۔۔‘‘
سفر جاری ہے۔۔۔ میں تنویر عباس کی نسل سے ہوں جو غلطیاں کرتی ہے، پھر ان کی قیمت چکاتی ہے۔ مگر یہ جانتی ہے کہ یہ وہ کرکٹ میچ ہے، جس کے کھلاڑی اگر ٹھان لیں، تو ٹوٹے بازو کے ساتھ آخری گیند تک مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں بھیڑ نہیں، قوم بننا ہے۔ محض فالوورز نہیں، لیڈر بننا ہے۔ ہاں مگر جو پھر بھی کسی خضر راہ کی تلاش میں ہیں۔
کیا پاکستان پر اس سے برا وقت کبھی آسکتا ہے۔ ہم اکثر اپنے آپ سے یہ سوال کرتے ہیں، پھر خود ہی سر جھٹک کر اپنی اپنی غرض کی دنیا میں واپس لوٹ جاتے ہیں۔ ہم اپنے اپنے طور پر کیا کر سکتے ہیں؟ اپنے اپنے گھروں میں سر عباس کے گھرانے کا کوئی ایک فرد تو پیدا کر سکتے ہیں۔ ہم جو مائیں بھی ہیں، باپ بھی ہیں، نوجوان بھی ہیں۔ پاکستان بھی ہیں۔
رفعت ناہید سجاد کہتی ہیں کہ یہ کہانی کسی نظریے کے پرچار کے لیے نہیں لکھی گئی، اس لیے اس پر کسی سیاسی سوچ کے فروغ کا الزام خود اپنے آپ کو اس امید بھرے خواب سے دور کرنا ہے جو اندھیری راتوں میں ہمارے راستے روشن کر سکتا ہے۔
میں سمجھتی ہوں کہ تاریخ کے بیان میں فرق ہو سکتا ہے، لکھنے والے کے انداز اور نکتہ نظر میں فرق ہو سکتا ہے، واقعات کی جمع تفریق میں نہیں۔ وہ زمانے گزر گئے، جب رعایا کی آنکھوں پر پٹیاں اور کانوں میں روئی ٹھونس کر بادشاہِ وقت اپنی پسند کی تاریخ لکھوانے اور پڑھانے پر اصرار کرتے تھے، جب حکم عدولی کرنے پر کاتبوں کی انگلیاں کاٹ دی جاتی تھیں۔ اب تاریخ کو دھوکا دینا آسان نہیں رہا کیوں کہ حکمران نام کے گھگھو گھوڑے اطلاع اور معلومات کی رسائی پر اپنا اختیار کھو چکے ہیں۔
پھر بھی ہماری اصل تاریخ کیا ہے اور یہ فیصلہ کرنا کیسے ممکن ہے کہ لکھنے والے کے اپنے نکتہ نظر اور واقعات کے قدرتی بہاؤ میں فرق کیسے کیا جائے، یہ ہماری اور ہم سے اگلی نسل کو شدت سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
شاید یہ کہنا بالکل ضروری نہیں کہ ’’چراغ آخر شب‘‘ جیسے شاہکار روز روز لکھے نہیں جاتے۔ جو کہانی لکھنے والے کے ذہن میں سترہ سال کی عمر سے پک رہی ہو، جسے لکھنے و الے کے دماغ سے صفحہ قرطاس تک آنے میں چار دہائیاں لگی ہوں، اس کے لیے فیض احمد فیض کے الفاظ میں یہ کہنا کہ لکھنے والے نے خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں اپنی۔۔۔ قطعاً جائز اور واجب معلوم ہوتا ہے۔
ہماری نسل خوش قسمت ہے کہ اس نے اپنے ملک کی تاریخ کے رفعت ناہید سجاد کے ہاتھوں لکھے جانے والے اس باب کو خود اپنی آنکھوں سے پڑھا، اور جس کا نظر ثانی شدہ ایڈیشن، کتابی شکل میں آپ کے ہاتھوں میں ہے، اورجو خود یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ رفعت ناہید سجاد کے ہاتھ سے لکھے جانے والی رودادِ پاکستان میں سچ کی کتنی واضح اور بھاری مقدار موجود ہے۔
رفعت ناہید سجاد کے افسانے پڑھ کر میں اس شہر لاہور کی محبت میں مبتلا ہوئی تھی، جس میں مَیں رہتی تھی۔ ’’چراغ آخر شب‘‘ کی کہانی مجھ جیسے تارکین وطن کو، جو ہروقت اپنے پاکستانی ہونے پر معذرت خواہ، نہ ہونے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں، روشنی کی وہ لکیر فراہم کر رہی ہے، جس کا سرا پکڑ کر ایک دن ہم اپنے اپنے گھر واپس لوٹیں گے۔ تو مجھ جیسے لوگوں اور ان کی آئندہ نسل کے لیے، جن کے دل اپنی زمین سے اکھڑنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں، ’’چراغ آخر شب‘‘کا کتابی شکل میں آنا بے حد ضروری تھا، تاکہ ہم اپنے اپنے گھروں میں اس کہانی کے کرداروں جیسے بے غرض پاکستانی نہیں، تو کم از کم چھوٹے موٹے فرض شناس انسان ہی پیدا کر لیں ۔۔۔
اور ’’چراغِ آخرِ شب‘‘ میں سب سے خاصے کی چیز ہے، اس کا پیش لفظ جو پاکستان کی معروف ناول نگار محترمہ الطاف فاطمہ نے تحریر کیا ہے۔۔۔ وہ لکھتی ہیں، ’’ اس ناول کی ایک عجیب بات ہے، اس میں بے شمار اَن گنت کردار ہیں، ہجرت کرنے والے خاندانوں کے افراد، بوڑھے، بچے، نوخیز و نوجوان نسل کے درمیان، ادھیڑ عمر اور عمررسیدہ خواتین جو عموماً خاموش Observers اور Moderators کے کردار ادا کرنے کے باوجود جب بھی کچھ کہتی ہیں، وہ بھی صرفِ نظر کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ان کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں بھی باقاعدہ ایک اقتباس کا تقاضا کرتی ہیں۔ ان کے علاوہ یونیورسٹی کے وہ معصوم محب وطن، پُرجوش، جیالے کردار بھی ہیں جن کا مقدر ہرآغاز کے بعد ایک مایوس کن ملال پر انجام پذیر ہوتا ہے۔ ان کے ہر کردار کو خلوص اور صداقت کے جواب میں ایک دھوکا اور مسلسل فریب سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
ناول کی مصنفہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف صاحبِ علم و نظر ہے بلکہ ایک دانشور اور خاموش مبصر بھی ہے جس نے اپنے وطن کے نومولود اور بے سروسامان تعمیر ِنو کے عرصہ ٔحیات کے ایک ایک پَل کا حساب رکھا ہے، ہرہر واقعہ اور واردات کی نہ صرف شاہد ہے بلکہ اس تمام واردات کی امین ہے۔ مصنفہ کے جذبے اور مشاہدات کی سچائی اتنی شدید ہے کہ جس کی گرمی اور تمازت سے کسی فن پارے کی تخلیق کے سانچے کو، تکنیک اور فارم کے تقاضوں کی نزاکتوں اور نفاستوں کو، مربوط تسلسل کے ساتھ قائم رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ جذبہ ٔ صادق اور جوہر اندیشہ کی حدت تو وہ چیز ہے کہ غالبؔ جیسا قادر الکلام بھی کہہ اٹھتا ہے: عرض کیجئے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں۔۔۔‘‘
584 صفحات پر مشتمل اس ناول کی قیمت 1400 روپے ہے اور اسے جمہوری پبلیکیشنز، 2ایوانِ تجارت روڈ، لاہور 0333-4463121 سے براہِ راست منگوایا جا سکتا ہے. (مدیر)
رفعت ناہید سجاد افسانہ نگار، ناول نگار اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ 10 نومبر 1954ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ بچپن لاہور ہی میں گزرا اور ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے ابلاغِ عامہ میں ایم اے کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد رفعت ناہید سجاد شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوئیں. آپ پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں۔ اور کالج پرنسپل کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئیں۔
رفعت ناہید سجاد، قیام پاکستان کے چند برس بعد آنکھ کھولنے والی اُس نسل کی نمائندہ ہیں، جس نے پاکستان میں ایوب خان کے مارشل لاء کے دس سال پورے ہونے پراس قوم کو آمریت کا دس سالہ جشن برپا کرتے دیکھا اور اسی ملک میں آمرانہ حکومت کے خلاف احتجاج کرتے اپنی نسل کے پُرجوش نوجوانوں کو بھی۔ 1971ء میں ملک کے دو لخت ہونے کا غم مناتی قوم کے لیے مساوات اور برابری پر مبنی ایک نئے پاکستان کے مسحور کن خواب دیکھنے والی پاکستان کی نوجوان نسل، جس کا آئیڈیل ازم سلطانئ جمہور کے دل خوش کن نعروں میں پروان چڑھااور جس نے اپنے قلم کی طاقت کو اپنے غیرمساوی معاشرے کی بے ترتیب بد دیانتی کا حصہ بننے کی کبھی اجازت نہ دی۔ معاشرے کو سنوارنے کے جو خواب رفعت نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ وصحافت میں اپنے دورِطالب علمی میں دیکھے تھے، شفاف رویوں والے ان دیانت دار کرداروں میں نظر آتے ہیں، جن سے ہم اور آپ اُن کی تحریر شدہ کہانیوں میں مل کر کئی بار سر دُھن چکے ہیں۔ رفعت ناہید سجاد ایک طویل عرصے سے ناول اور افسانے لکھ رہی ہیں جو مختلف ڈائجسٹوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کی کہانیوں کا ہر اچھا برا کردار ہمارے ارد گرد موجود ہے لیکن دکھائی تبھی دیتا ہے جب ہم رفعت کی کہانی کی منڈیر پر کھڑے ہو کر اُسے دیکھتے ہیں۔ آپ کی کہانیوں کے بنیادی موضوعات طبقاتی فرق، عدم مساوات اور ملکی حالات و تاریخ رہے ہیں۔
رفعت ناہید سجاد کا پہلا افسانہ سیارہ ڈائجسٹ میں ’’پرایا دھن‘‘ کے نام سے لکھا۔ فنون کے لیے باقاعدگی سے لکھتی رہیں۔ انہوں نے 1970ء کی دہائی میں اُس وقت ٹی وی ڈرامہ لکھا ،جب پی ٹی وی ڈرامہ کو اردو زبان اور تہذیب کا معیار سمجھا جاتا تھا۔ رفعت ناہید سجاد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہیں اشفاق احمد سے ڈرامہ سکرپٹ تحریر کرنا سیکھنے کا موقع ملا۔
’’چراغ آخر شب‘‘ کے علاوہ رفعت ناہید سجاد کے دیگر دو ناول ’’اک موسم دل کی بستی کا‘‘ اور ’’چاند کے تمنائی‘‘ بھی شائع ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کے چھے ناولٹس کا مجموعہ ”ریت پر تیرتے جزیرے‘‘ کے عنوان سے بھی ”جمہوری پبلیکیشنز، لاہور‘‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکا ہے.
رفعت ناہید سجاد شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں اور انہیں تعلیم کے شعبے میں خدمات کے عوض 2011ء میں حکومت پنجاب، پاکستان کی جانب سے بہترین پرنسپل کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔