میرا داغستان – محمد سفی سرحدی

آج 21 فروری مادری زبان کا عالمی دن ہے میں اس بارے میں کچھ خاص شیئر کررہا ہوں اور میں چاھتا ہوں کہ آپ سب یہ ضرور پڑھیں۔
روسی مصنف حمزہ رسول نے مادری زبان کے حوالے سے اپنی کتاب ” میرا داغستان” میں ایک بہت ہی خوبصورت واقعہ لکھا ہے کہ ایک بار وہ ایک گاؤں سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ پہاڑی علاقوں میں رہنے والی دو قباںُیلی عورتیں آپس میں جھگڑا اور تکرار کر رہی ہیں اور اسی تکرار کے دوران ایک عورت نے دوسری عورت کو بد دعا دی کہ جا “اللہ تیرے بچوں کو اس انسان سے محروم کر دے جو انہیں ان کی زبان سکھانے والا ہے‘‘
اس کے بعد دوسری عورت کا بھی غصہ کافور ہو گیا اور پھر اس نے بھی وہی بد دعا دوسرے طریقے سے لوٹائی اور کہا کہ
’’اللہ کرے تیرے یہاں ایک آدمی بھی ایسا نہ بچے جو تیرے بچوں کو ان کی زبان سکھا سکے-
رسول حمزہ توف ”میرا داغستان” میں لکھتے ہیں کہ میری مادری زبان “آوار” ہے اگرچہ میں روسی میں شاعری کرتا ہوں اور ہمارے ہاں ایک گالی ایسی ہے جس پر قتل ہو جاتے ہیں کہ جا تو اپنی مادری زبان بھول جائے
بقول رسول حمزہ توف کہ صرف ستر ہزار افراد آوار زبان بولتے ہیں
حمزہ رسول توف نے اپنی اس کتاب میں مادری زبان کو بھول جانے والے ایک شخص کا واقعہ بھی بیان کیا ہے جسے پڑھ کر انکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
ایک مرتبہ میں پیرس کے ادبی میلے میں شریک ہوا وہاں میری آمد کی خبر پا کر ایک مصور مجھ سے ملنے چلا آیا اور کہنے لگا کہ میں بھی داغستان کا ہوں، میری مادری زبان آوار ہے
میں داغستان کے فلاں گاؤں کا رہنے والا ہوں لیکن شاید تیس برس ہو گئے میں یہاں فرانس میں ہوں
وہ مصور انقلاب کے کچھ ہی دن بعد وہ تعلیم کی غرض سے اٹلی چلا گیا۔ وہیں اُس نے ایک اطالوی خاتون سے شادی کرلی اور ہمیشہ کے لئے بس گیا۔ بے چارہ پہاڑی رسم ورواج کا ساختہ پرداختہ تھا اِس لئے اِس نئے وطن میں بسنے اور وہاں کے ماحول میں اپنے آپ کو ڈھالنے میں اُسے خاصی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔.خود کو اِس نئی دنیا کا عادی بنانے کے لئے اُس نے سیر وسیاحت کا سہارا لیا۔ دور دراز ملکوں کی راجدھانیوں میں دل بہلانے کی کوشش کی، مگر جہاں بھی گیا وطن کی یاد اور اپنے وطن سے جدائی کا احساس سایہ کی طرح اُس کے ساتھ رہا۔
میں نے اُس سے کچھ تصویریں دکھانے کی خواہش کی، محض یہ دیکھنے کے لئے کہ اُس مصور نے اپنے اِن جذبات اور اپنی اِن کیفیات کو رنگ کے قالب میں کس طرح ڈھالا ہے۔
اُن میں ایک تصویر نظر آئی جس کا عنوان تھا ’’وطن کی غمگین یاد‘‘۔ اُس تصویر میں ایک اطالوی عورت (مصور کی بیوی) دکھائی دی جو داغستانی عورتوں کا روایتی لباس پہنے ایک پہاڑی چشمے کے کنارے کھڑی تھی۔ اُس کے ساتھ میں چاندی کی ایک منقش صراحی تھی جس پر گوتسا تلی کے کاری گروں جیسے نقش بنے تھے۔ جن کی کاری گری دُور دُور تک مشہور ہے۔ پس منظر میں پہاڑ کی ڈھلوان پر بسا ہوا ایک سنسان سا تنہا آوار گاؤں تھا۔ گاؤں کے پتھریلے مکانات کے پس منظر میں پہاڑ تھے، جو گاؤں سے زیادہ اُداس اور بے جان لگ رہے تھے پہاڑ کی چوٹیاں کُہر میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
’’کُہر پہاڑوں کے آنسو ہیں‘‘ مصور نے وضاحت کی۔ ’’کُہر جب ڈھلوانوں پر چھا جاتی ہے تو شبنم کا روپ لے کر صاف شفاف قطروں کی صورت میں ڈھلکتی نیچے، گہرائیوں میں جاگرتی ہے۔ یہ کُہر میں ہوں۔‘‘
ایک دوسری تصویر میں ایک چڑیا دکھائی گئی تھی جوبنجر پہاڑوں پر اُگنے والی ایک خاردار جھاڑی پر بیٹھی تھی۔ چڑیا چہچہا رہی تھی اور ایک مکان کی کھڑکی میں ایک پہاڑی دوشیزہ کا افسردہ اور معصوم چہرہ نظر آرہا تھا، مجھے یہ تصویر کافی دلکش لگی، میری دلچسپی محسوس کرتے ہوئے مصور نے کہا:
’’یہ ایک پرانی آور لوک کتھا پر مبنی ہے۔‘‘
’’کون سی لوک کتھا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’کہانی یوں ہے کہ ایک بار ایک چڑیا کو پکڑ کر پنجرے میں بند کر دیا گیا۔ چڑیا پنجرے میں رات دن چلایا کرتی: میرا وطن، وطن، وطن ․․․․․․․ بالکل اِسی طرح ان تمام طویل برسوں کے دوران میں وطن، وطن کی رٹ لگائے رہا ہوں․․․․․․․. ایک دن اُس چڑیا کو پکڑنے والے نے سوچا: ’’آخر اِس چڑیا کا وطن ہے کہاں اور کس قسم کا ہے؟ یقیناً وہ کوئی خوب صورت وادی اور سرسبزو شاداب پہاڑ ہوگا جہاں خوب صورت اور قد آور درخت ہوں گے اور ایسی خوبصورت چڑیائیں ہونگیں جو فردوس میں ہی دیکھی جاسکتی ہیں۔ میں چڑیا کو آزاد کردوں گا، اِس کا پیچھا کروں گا اور یوں اُس خوبصورت وادی تک پہنچ جاؤں گا، اُس نے پنجرے کا دروازہ کھول دیا اور اُسے اڑ جانے دیا۔ چڑیا اڑ کر دس قدم گئی اور پھر ایک اجاڑ سی جھاڑی پر جا بیٹھی جو ننگی بوچی پہاڑی پر اُگی ہوئی تھی۔ اُسی جھاڑی کی کسی شاخ پر اُس کا گھونسلہ تھا..
میں بھی اپنے پنجرے کی تیلیوں سے اپنے وطن کو دیکھتا رہا ہوں۔
’’تو پھر آپ وطن کیوں نہیں لوٹنا چاہتے؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’اب بہت دیر ہو چکی ہے۔جب میں نے وطن چھوڑا تھا تو میرے پہلو میں ایک جوان دل تھا جس میں ایک جوالا بھڑک رہی تھی اور اب میں محض اپنی بوڑھی ہڈیاں لے کر اپنے وطن کس منہ سے جاؤں؟‘‘
خدا جانے میری ماں اب زندہ بھی ہوگی یا مر چکی ہوگی
رسول حمزہ توف لکھتا ہے میں نے داغستان واپسی پر اس کے عزیزوں اور ماں کو تلاش کیا اس مصور کے بارے میں اس کے خاندان کو یقین تھا کہ وہ مر چکا ہے مصور کی ماں سے یہ خبر سن کر حیرت میں مبتلا ہوئی اس کی ماں کو علم ہی نہ تھا کہ اس کا بیٹا ابھی تک زندہ ہے رسول حمزہ توف نے مصور کی ماں کو یقین دلاتے ہوئے کہا اپکا بیٹا سچ میں زندہ ہے اور وہ فرانس میں خوش و خرم ہے..
یہ سن کر اس کی ماں نے رو رو کر برا حال کر لیا۔
اس دوران مصور کے عزیز بھی افسردہ چہروں کے ساتھ گاؤں کے ایک مکان میں اس کے اردگرد جمع اپنے اس سپوت کی کہانی سننے کے لئے جمع تھے جس نے ہمیشہ کے لئے اپنا وطن چھوڑ دیا تھا ۔ مصور کے رشتہ داروں نے اس کے وطن عزیز چھوڑنے کا قصور تو معاف کر دیا تھا لیکن انہیں یہ جان کر مسرت ہوئی کہ ان کا کھویا ہوا بیٹا ابھی زندہ ہے۔
مصور کے ماں نے رسول سے پوچھا مجھے بتاؤ کہ اس کے بالوں کی رنگت کیسی ہے اس کے رخسار پر جو تِل تھا کیا اب بھی ہے، اس کے بچے کتنے ہیں
اور پھر ایکدم سے مصور کی ماں نے پوچھا ’’رسول تم نے میرے بیٹے کے ساتھ کتنا وقت گزارا؟‘‘
ہم صبح سے شام تک بیٹھے کھاتے پیتے رہے اور داغستان کی باتیں کرتے رہے، رسول نے جواب دیا‘‘۔
اچانک اُس کی ماں نے مجھ سے ایک سوال کیا ’’اُس نے تم سے بات چیت تو آوار زبان میں کی ہوگی نا؟‘‘
’’نہیں۔ ہم نے ترجمان کے ذریعے بات چیت کی۔ میں روسی بول رہا تھا اور آپ کا بیٹا فرانسیسی‘‘ وہ آوار زبان بھول چکا ہے میں نے جواب دیا
مصور کی بوڑھی ماں نے یہ سنتے ہی سر پر بندھا سیاہ رومال کھول کر اپنے چہرے پر کھینچ کر اسے روپوش کر لیا جیسے کہ پہاڑی علاقوں میں ماںُیں اپنے بیٹے کی موت کی خبر سن کر اپنے چہروں کو ڈھک لیتی ہیں۔ اسوقت اوپر چھت پر بڑی بڑی بوندیں گررہی تھیں، ہم آوارستان میں تھے، غالباً بہت دُور دنیا کے اُس سرے پر پیرس میں داغستان کا وہ بیٹا بھی جو اپنے قصور پر نادم تھا، برستے پانی کی آواز سن رہا ہوگا۔
پھر ایک طویل خاموشی کے بعد ماں نے کہا ’’ رسول تم سے غلطی ہوئی ہے میرے بیٹے کو مرے ہوئے ایک مدت بیت گئی جس سے تم ملے میرا بیٹا نہ رہا ہو گا کیونکہ میرا بیٹا اس زبان کو کبھی بھلا نہیں سکتا جو میں نے اسے سکھائی”
رسول۔۔۔ اگر وہ اپنی مادری زبان بھول چکا ہے تو میرے لئے وہ زندہ نہیں، مر چکا ہے‘‘
ذرا سوچںُیے کہ ایک ماں کیلئے اپنے بیٹے کے زندہ رہنے کی خبر زیادہ خوشخبری کا باعث نہ بنی مگر جب اس نے یہ سنا کہ اس کے بیٹے نے اپنی مادری زبان کو ترک کر دیا ہے یہ خبر اس کے لیںُے حادثے کا سبب بن گئی
سوال یہ ہے کہ اگر یہی واقعہ ہندوپاک کے خطے میں مسلمان ماؤں کے ساتھ پیش آجائے کہ اس کا بیٹا امریکہ یا انگلینڈ میں جاکر فراٹے دار انگلش بولنا شروع کر دیا ہے تو کیا اس کا بھی ردعمل ایسا ہی ہوتا شاید وہ خوش ہوکر اپنے رب کی بارگاہ میں دعا کرتی کہ اللہ تو بڑا مہربان اور کریم ہے کہ تو نے میری دعا قبول کر لی اور میرا بیٹا فر فر فر انگلش بولنے لگا ہے۔
یہ حقیقت ہے اور یہی ہماری ماؤں اور بیٹیوں کی ترجیحات اور کامیابی کا تصور بن چکا ہے جنھیں یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ کیا ہیں ,ان کا نصب العین کیا ہے اور انہیں اپنی اولادوں کو کیا بنانا ہے۔
ہمارے ہاں ایک اور المیہ بھی موجود ہے میں نے اکثر سرکاری افسران کو دیکھا ہے جنکی مادری زبان اردو تو نہیں ہوتی لیکن اپنے بچوں کے ساتھ وہ اردو یا انگلش میں باتیں کرتے ہیں جبکہ خود میاں بیوی اپنی مادری زبان میں بات کرتے ہیں۔ اردو ہماری قومی زبان ہے ہمیں اردو بولنے پر فخر ہونا چاہیئے۔ لیکن مادری زبان کو چھوڑ کر اردو بولنا فخر کی بات نہیں۔
اپنی مادری زبان بھول جانے والی اقوام کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ جو قوم اپنی مادری زبان کو فراموش کر دیتی ہیں تاریخ اُن کا نام و نشان تک یاد نہیں رکھتی!
فیصلہ اپکے ہاتھ میں ہے۔ کہ آپ اپنے بچوں سے انکی مادری زبان چھیننا چاھتے ہیں یا نہیں۔

—————————————————————————————————

رسول حمزہ توف روسی جمہوریہ داغستان کے عوامی شاعراور نثرنگار ہیں۔آپ سوویت یونین کی جمہوریہ داغستان کے آوار گاؤں سدا میں مشہور شاعر حمزہ سداسا کے گھر 28 ستمبر 1923ء پیدا ہوئے۔رسول حمزہ توف نے اپنے پہلے اشعار گیارہ سال کی عمر میں لکھے۔ ایک حیرت انگیز واقعے نے ان کی دل و دماغ کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ 1934ء میں داغستان کے اس بلند پہاڑ ی گاؤں سدا میں جہاں وہ پیدا ہوئے تھے، تاریخ میں پہلی بار ایک ہوائی جہاز اترا تھا۔ اور مشہور شاعر حمزہ سداسا کے بیٹے نے اس عجوبے کو دیکھ کر شاعری کے میدان میں پہلا قدم اتھایا۔
ہائی اسکول کی تعلیم، استادوں کی تربیت کا کالج، آوار زبان کا سفری تھیٹر، ریڈیو نامہ نگار۔ یہ تھے مرحلے ان کی جوانی کے سوانح کے۔ صحت کی حالت ایسی تھی کہ انھوں نے فوجی خدمات انجام نہیں دیں لیکن جب داغستان کی سرحد ہی پر جنگ ہورہی تھی تو شاعر کے شاعر بیٹے نے دشمن پر اپنی نظموں اور گیتوں کے وار کیے، سوویت فوج کی فتوحات سے خود وجدان حاصل کیا اور اپنے ہم وطنوں کو کانامے انجام دینے کا ہمت و حوصلہ عطا کیا۔ جنگ کے بعد انھوں نے ماسکو میں ادبیات کے انسٹی ٹیوٹ موسوم بہ گورکی سے 1950ء میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ یہیں بہت سے ادیبوں سے ان کی دوستی ہوئی، یہیں ان کی نظموں کے مجموعے یکے بعد دیگرے شائع ہوئےجنہیں سوویت یونین میں اور دنیا کے دوسرے ملکوں کے قارئین میں شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔
ان کی شاعری وطن دوستانہ اور صدیوں پرانی عوامی دانش سے مملو ہے۔ کردار کی جرات، لوگوں کے باہمی رشتوں میں دلی تعلق، بلند ترین انقلابی آدرشوں کی خاطر کارنامے انجام دینے پر آمادگی نے رسول حمزہ توف کی شاعری کو لوگوں کے لیے ضروری بنا دیا ہے۔ رسول حمزہ توف داغستانی ادیبوں کی انجمن کےچیئرمیں رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ رسول حمزہ توف نے الیکزاندر پشکن، لیرمونتوف اور مایاکوفسکی کی تخلیقات آوار زبان میں ترجمہ کیں۔رسول حمزہ توف 80 سال کی عمر میں 3 نومبر 2003ء میں ماسکو، روس میں وفات پا گئے۔
رسول حمزہ توف کی تخلیقات مندرجہ ذیل ہیں:
مجموعہ نثر:میرا داغستان (1968ء)، مجموعہ نظم:میری پیدائش کا سال، نظمیں:ماں اور بیٹا،نوکِ شمشیر،سالگرہ،نسخہ الفت
اعزازات:
1952ء – سوویت ریاستی” اسٹالن انعام” Flag of Russia.svg روس
1963ء – لینن انعام Flag of Russia.svg روس
1974ء – ہیرو آف سوشلسٹ لیبر Flag of Russia.svg روس
2003ء – آرڈر آف سینٹ اینڈریو Flag of Russia.svg روس
چیئرمین انجمن مصنفین داغستان Flag of Russia.svg روس
2014ء – رسول حمزہ توف انعام کا اجراء Flag of Russia.svg روس
داغستان کا عوامی شاعر
جواہر لال نہرو انعام Flag of India.svg بھارت
لیرمونتوف انعام
فردوسی انعام