نامور ادیب، ممتاز غزنی کی بچپن کی یادیں، ”بچپن لوٹا دو‘‘ – محمد اکبر خان اکبر

”بچپن لوٹا دو‘‘ ممتاز غزنی کی ایسی کتاب ہے جو اپنے قارئین کو ماضی کے سفر پر لے جاتی ہے. انسانی زندگی کے ادوار میں سب سے اعلٰی، پرلطف اور بہترین دور بچپن کا ہی ہوتا ہے. ایک شخص دنیا میں جتنا بھی عروج حاصل کر لے اور دنیا بھر کے پر تعیش سامان کے جس قدر چاہے انبار لگا لے، بچپن کی پرلطف یادوں کے حصار سے نکل نہیں پاتا.
”بچپن لوٹا دو‘‘ مصنف کے انہی ایام کا تذکرہ ہے جس میں ایک منفرد انداز تحریر اپناتے ہوئے مصنف نے اپنے بچپن اور اس سے وابستہ شخصیات، پھل سبزیاں، حشرات، پرندے جانور کھلونے اور دیگر اوزاروں کا لاجواب منظر نامہ تخلیق کیا ہے.
مصنف بچپن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
”بچپن کا زمانہ بڑی نایاب اور انمول شے ہے. یہ دور انسان کی وہ قیمتی متاع ہے جس کےکھو جانے کا غم انسان کو ہمیشہ ستاتا ہے.‘‘
ممتاز غزنی کی یہ کتاب پڑھنے کے لائق ہے. اس کتاب میں شامل شخصیات، جن میں مصنف کے والدین، بہن بھائی اور دیگر رشتہ داروں کے علاوہ اپنے علاقے کے ڈاکٹراور ہمسایوں کے خوب صورت خاکے، ان کی اعلٰی تحریری گرفت کے شاہکار ہیں.
مصنف نے بچپن کی خوراک اور اپنے علاقے کے کھانوں کا جو تذکرہ تحریر کیا ہے، وہ پڑھنے والے کے منہ میں پانی لانے کے لیے کافی ہے. اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اب وہ خالص غذائیت سے بھر پور کھانے یادوں میں ہی مقید ہو کر رہ گئے ہیں.
ممتاز غزنی کا اسلوبِ تحریر سادہ اور رواں ہے. وہ مشکل الفاظ، استعارے، تشبیہات اور محاورے کے چکر میں پڑے بغیر نہایت خوبی سے اپنی یادوں کے چراغ روشن کرتے چلے جاتے ہیں.
آزاد کشمیر کے ایک غیر معروف سے علاقے پھاگوعہ کی یادوں کو ایک دل آویز لڑی میں پرو کر انہوں نے بیش بہا کتاب ترتیب دی ہے اور یوں اپنی مٹی کا حق ادا کرنے کے سعی بلیغ فرمائی ہے. میرے خیال میں پہلی بار اس علاقے کی مناسبت سے کوئی کتاب مصنہ شہود پر آئی ہے. ممتاز غزنی نے ہمارے معاشرے کی ان خوب صورت روایات اور رسوم کا ذکر دردمندانہ لہجے میں کیا ہے جو اب تقریباً مٹ ہی چکی ہیں. ان کی کتاب بے شمار تصاویر سے مزین ہے. کتاب اپنے مندرجات اور تصاویر کے باعث ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے اور بجا طور پر گزرے ایام کو قاری کے سامنے لانی کی شعوری کاوش ہے.
کتاب میں کئی ایسے مقامات ہیں کہ جس کو پڑھتے وقت قاری کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں. ممتاز غزنی کم الفاظ میں بہت کچھ تحریر کرنے کے فن میں طاق دکھائی دیتے ہیں. امید ہے کہ ان کا قلم اپنی جولانیوں سے ہمیں مزید ادبی فن پارے مہیا کرتا رہے گا.


ممتازغزنی کا تعلق پھاگوعہ تھوراڑ، آزاد کشمیر سے ہے. آپ آج کل لاہور میں مقیم ہیں. آپ نے اُردو اور اسلامیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں. اب تک آپ کی چار کتب شائع ہو چکی ہیں، جن میں ”بچپن لوٹا دو‘‘‌ (خودنوشت)، ”ماں تجھے سلام‘‘، ”بکھیاں دوہریاں‘‘ اور ”دھرتی کا عظیم مزاحمت کار‘‘ شامل ہیں. آپ کی زیرِ طبع تصانیف میں ”کڑکا کُہٹ‘‘ (پہاڑی شاعری)، ”سکّھاں‘‘ (پہاڑی میں سبق آموز کہانیاں)، ”مردِ کوہستانی‘‘ اور شخصی خاکوں پر مشتمل کتاب ”اب اُنھیں ڈھونڈ‘‘ شامل ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں