رشید حسرت کی سخن دانی ’’اپسرا ادا کی بات‘‘ کے تناظر میں – محمد اکبر خان اکبر

رشید حسرت بلوچستان کی سنگلاخ دھرتی کا وہ سخنور ہے جس کے رگ و پے میں شعری شعور کا بحر بیکراں موجزن ہے. وہ اس خداداد صلاحیت کا حامل بھی ہے اور خدائے لم یزل کی اس عنایت پر نازاں بھی. مٹھڑی کے ایک مذہبی گھرانے میں کھلنے والے اس پھول کی خوشبو آج ان کے مجموعہ ہائے کلام میں رچی بسی ہے اور جابجا خوب پھیل رہی ہے. ان کی شاعری ہے کیا؟ ان کی اپنی زبانی سنیں تو خاک آلود تمنائیں، خواب بے لباس، آرزوئیں بے نقاب اور تخیل کے ارتعاش سے سابقہ پڑتا ہے. وہ زمانے کی ناہموار پگڈنڈیوں پر چلنا اور سنبھلنا خوب جانتے ہیں، منزل پر پہنچنے کو بے تاب بھی ہیں گو کہ ان کا راستہ ظلمتوں میں کھویا ہوا ہے مگر انہوں نے امید و رجائیت کا دامن ہنوز تھام رکھا ہے:

افکار ماہ و انجم، دیوان کہکشاں ہے
اب ظلمتوں میں شاید مل جائے راستہ سا
افکار ماہ و انجم، دیوان کہکشاں ہے
اب ظلمتوں میں شاید مل جائے راستہ سا

شاعری میں یکسانیت کی خزاں کے بجائے تنوع کی بہاروں کے رنگ دکھائی دیتے ہیں، پھر بھی شاعر کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے بار ہا کہتے ہیں کہ
کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر
شاعر راہ محبت کا مسافر ہے، عشق اس کا مقصد حیات ہے اور جمالیات اس کا اوڑھنا بچھونا ہے. اس مجموعہ کلام میں شامل اشعار دیکھ لیں آپ بھی میرے خیالات سے متفق ہو جائیں گے:

آج برسات ہے بادل ہے فضائیں مہکی
گیت ہوں پیار کا ہونٹوں پہ سجا لو مجھ کو

ایک اور شعر ملاحظہ ہو:

کسی وجود کا آنکھوں نے جب احاطہ کیا
تو اعتراف، سبھی رنگ کائنات کے ہیں

ایک اور مقام پر کہتے ہیں کہ:

پڑھی تھی مشق محبت کی ایک بار کبھی
پھر اس کے بعد اسی درس کا اعادہ رہا

رشید حسرت سے مجھے کئی بار ملنے کا موقع ملا ہے اور کئی مشاعروں میں ان کا کلام سنا ہے. ان سے ملنے والے کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ شخص کیا کچھ اپنے سینے میں لیے بیٹھا ہے اور ان کی مسکراہٹوں کے پس منظر میں کیا کیا صعوبتیں پنہاں ہیں.
ان کا یہ مجموعہ کلام ان کیفیات سے بھی آگاہی فراہم کرتا ہے جس سے وہ ہر لمحہ نبرد آزما رہے ہیں. ان کی شاعری میں جہاں خوشی اور مسرت کی موجیں اپنا رنگ جماتی محسوس ہوتی ہیں وہیں سوز و گداز، رنج و الم، کرب، ناقدری، تلخ تجربات و پر عزم خیالات کی فراوانی بھی دکھائی دیتی ہے.

یقین آتا نہیں دل کا شہر اجڑا ہے
یہ اور بات کہ آثار کھنڈرات کے ہیں
گلوں کی چاہتوں میں ایک دن کیا بچھایا ہوگا
کہ ہم نے کانٹوں سے اپنا دامن بھر لیا

ان کا یہ مجموعہ کلام ان کی شاعرانہ مہارت، بلند خیالی، ندرت اظہار کا منہ بولتا ثبوت ہے. رشید حسرت کے کلام میں غنائیت، ترنم اور تسلسل ہے. ان کی شاعری دل کو بڑھانے والی جملہ خصوصیات سے لبریز ہے. ان کی غزلیں شعری احساس کی ترجمان ہیں کہ وہ الفاظ کا بر محل استعمال اور تراکیب کو برتنا خوب جانتے ہیں.
رشید حسرت سے پہلی شناسائی انجمن دبستان بولان، کوئٹہ کے ایک مشاعرے میں ہوئی. انجمن نے کراچی سے تشریف لائے ہوئے معروف شاعر آفتاب مضطر کے مجموعہ کلام کی تقریب رونمائی اور ان کے اعزاز میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا تھا، وہیں رشید حسرت کو پہلی بار سننے کا موقع ملا. اس کے بعد رفتہ رفتہ شناسائی بڑھی تو ان کی سخن دانی کے مزید جوہر کھلتے چلے گئے.
معلوم ہوا کے رشید صاحب کے کئی مجموعہ ہائے کلام شایع ہو چکے ہیں. اس کے بعد گاہے گاہے ان سے کسی نہ کسی مشاعرے میں ملاقات ہونے لگی. وہ سادہ منش انسان ہیں، عاجزی اور انکساری ان کی شخصیت کا اہم پہلو ہے. ان کی شاعری میں بھی یہی خصوصیات بدرجہ اتم دکھائی دیتی ہیں. اپنی قادر الکلامی کے باعث رشید حسرت کا شمار بلوچستان کے اعلٰی شاعروں میں ہوتا ہے ہے. رشید حسرت کے لہجے میں جو ملائمت اور لطافت ہے وہی ان کی شاعری میں بھی منعکس ہوتی محسوس کی جاسکتی ہے.
سر زمینِ بلوچستان کے ادیبوں اور شعراء نے اردو مراکز سے دور ہونے کے باوجود جس طرح اردو ادب کی خدمت کی ہے، وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے. اردو ادب کی خدمت کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے جس میں رشید حسرت پیش پیش ہیں. ان کا یہ مجموعہ کلام شاعری سے شغف رکھنے والوں کے لیے ایک عمدہ اور لاجواب ارمغانِ ادب ہے.