ٹریفک حادثے میں بال بال بچا
آج صبح صبح چہل قدمی کی غرض سے گھر سے باہر نکلا۔ میں تو اپنی ترنگ میں فٹ پاتھ پر چل رہا تھا۔ مجھے سڑک عبور کر کے سڑک کے دوسری جانب پارک میں داخل ہونا تھا۔ میں برسوں سے سڑک کے بائیں جانب چلنے والی ٹریفک کا عادی تھا اس لیے بائیں جانب ہی دیکھ کر جب مطمئن ہو کر سڑک عبور کرنے لگا تو اچانک ٹائروں کی چرچراہٹ کی آواز سنائی دی اور میرے دائیں جانب سے آنے والی تیز رفتار گاڑی میرے قدموں کے قریب آن رکی۔ دو چار لمحے تو مجھے یوں لگا جیسا کہ گاڑی میری ٹانگوں میں جا لگی ہے اور میری ٹانگیں بے جان ہو گئی ہیں۔ میں ساکت و جامد بد حواسی میں اپنے دائیں بائیں دیکھنے لگا تو احساس ہوا کہ غلطی میری تھی۔ یہاں ٹریفک سڑک کے دائیں ہاتھ چلتی ہے جب کہ میں محض بائیں جانب یعنی مخالف سمت دیکھ کر سڑک عبور کرنا چاہ رہا تھا۔
جب حواس اپنی جگہ قائم ہوئے تو کار کی ڈرائیونگ سیٹ کی جانب دیکھا جس پر ایک سیاہ چشمہ پہنے امریکی عورت مسکرا رہی تھی۔ مجھے یہ دوسری حیرت ہوئی کہ اس نے گاڑی کا دروازہ کھول کر نہ تو مغلظات بکے اور نہ ہی بیس بال بیٹ میرے سر میں دے مارا۔ ہمارے ہاں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس نے مجھے سڑک عبور کرنے کا اشارہ کیا۔ میں تہہ دل سے اس کا شکرگزار ہوا۔ اس کی مسکراہٹ کا جواب تبسم سے دیا۔ اپنا دایاں انگوٹھا فضا میں بلند کیا اور اس بار سڑک کے دونوں اطراف اچھی طرح سے دیکھ بھال کر سڑک عبور کی۔
سڑک کے دوسری جانب پہنچ کر مجھے بہت سے خیال آئے؛ مثال کے طور پر سڑک کے دائیں جانب کیوں چلتے ہیں یا بائیں جانب ہی کیوں؟ سڑک کے بیچوں بیچوں لائن کب اور کیوں لگائی گئیں؟ ٹریفک کے بنیادی اصول کب، کیوں اور کیسے بنائے گئے تو مجھے ان سوالوں کے جواب کے لیے تاریخ کے ابواب کی صفحہ گردانی کرنا پڑی اور درج ذیل چشم کشا حقائق سامنے آئے:
سڑک پر نشان لگانے کی روایت ہمیں قدیم تاریخ میں نظر آتی ہے۔ سب سے پہلے نشان لگانے کا طریقہ ہمیں روم میں ملتا ہے۔ جب لوگوں کا زیادہ آنا جانا ہوا تو راستے پر لکیر لگائی گئی۔ البتہ یہ سمت کے لیے نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ پیدل لوگ ایک طرف چلیں اور سوار دوسری طرف۔ سن 1600ء میں رنگ دار پتھروں سے نشان لگانے کا طریقہ ہمیں کئی جگہوں پر، خاص طور پر پُل پر دکھائی دیتا ہے۔
کس طرف چلنا ہے؟ اس پر بھی کسی قسم کا معیار بناتے ہوئے وقت لگا۔ انیسویں صدی میں بڑے علاقوں میں اس کا کوئی نہ کوئی معیار آ چکا تھا۔ اگرچہ یہ عالمی متفقہ معیار نہیں تھا اور نہ کبھی بنا۔ قدیم دور میں ٹریفک بائیں طرف چلا کرتا تھا۔ خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ تلوار یا ہتھیار والا دائیاں ہاتھ سڑک کی طرف رہے۔ امریکا میں اس کی روایت اٹھارہویں صدی میں طے ہوئی جو دائیں طرف ٹریفک چلنے کی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بڑی زرعی ویگن کو کنٹرول کرنے والا گھوڑوں کی ٹیم میں اپنا گھوڑا بائیں طرف جوتتا تھا۔ تا کہ دائیں ہاتھ سے چابک کے ذریعے گھوڑوں کو کنٹرول کر سکے۔ اس صورت میں ڈرائیور کے لیے آگے ٹریفک دیکھنا اس وقت آسان تھا جب ٹریفک اس کے بائیں طرف سے گزر رہا ہو۔ فرانس اور امریکا میں ”دائیں طرف رہو‘‘ کے قوانین 1792ء میں منظور ہوئے۔
برطانیہ نے بائیں طرف ٹریفک کے چلنے کی قدیم روایت جاری رکھی اور یہ ہائی وے ایکٹ کا 1835ء میں حصہ بن گیا۔ برطانوی کالونی بننے والی دنیا میں یہ روایت ابھی بھی تقریباً تمام ممالک میں ہے۔ لیکن ابھی تک ٹریفک لین کی نشاندہی کا طریقہ نہیں آیا تھا۔ اس کی ضرورت اس وقت تک نہیں پڑی جب تک تیزرفتار آٹوموبائل کی آمد نہیں ہوئی۔
سب سے پہلی بار روڈ سیفٹی کے ماہر ایڈورڈ ہائنز نے مشی گن میں سڑک پر 1916ء میں نشان لگائے۔ یہ خیال انہیں ایک دودھ کا ٹرک دیکھ کر آیا تھا۔ اس کے ٹینک میں سے دودھ لیک ہو رہا تھا جس کی وجہ سے سڑک پر نشان پڑ رہا تھا۔ سڑک پر نشان کا آئیڈیا اب روڈ سیفٹی کا ایک مرکزی خیال ہے لیکن اس کو اپناتے ہوئے وقت لگا۔ ڈاکٹر جون مک کیرول 1917ء میں اپنی گاڑی پر جا رہی تھیں کہ سامنے سے آنے والے ایک ٹرک کی وجہ سے انہیں گاڑی سڑک سے اتارنا پڑی۔ یہ وہ وقت تھا جب انہیں خیال آیا کہ ہائی وے کے درمیان لکیر ہونا ضروری ہے۔
جب مقامی چیمبر آف کامرس نے ان کے خیال میں دلچسپی ظاہر نہیں کی تو انہوں نے سڑک کے اس حصے کو خود ہی رنگ کر لیا اور اس کے بعد خطوط لکھنے کی مہم شروع کی تا کہ ریاستی حکومت کو اس کے سٹینڈرڈ بنانے پر قائل کیا جا سکے۔ بالآخر، اس تحریک کے نتیجے میں نومبر 1924ء میں پہلی بار حکومتی فنڈ سے یہ کام کیا گیا۔
لیکن لکیر کیسے لگانی ہے؟ اس کے سٹینڈرڈ ابھی نہیں تھے۔ اس پر اتفاق 1930ء میں ہوا اور پہلا مینوئل جاری ہوا جس میں سڑک پر نشانوں کا معیار مقرر کیا گیا تھا۔ کن سڑکوں پر لکیر لگانی ضروری ہے۔ اس کی موٹائی چار انچ طے ہوئی۔ اس کا رنگ زرد یا سفید طے ہوا۔
مسلسل لکیر جس کو کراس نہیں کیا جا سکتا۔ ٹوٹی ہوئی لکیر جس میں اوورٹیک کیا جا سکتا ہے۔ یہ معیار 1948ء میں بنا۔ ٹوٹی ہوئی لکیر کا ایک مقصد رنگ کا خرچ بچانا تھا۔ ٹوٹی ہوئی لکیروں کے درمیان کا فاصلہ کتنا ہونا ہے؟ یہ معیار 1978ء میں بنا۔
دنیا کے دوسرے ممالک میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد گاڑیاں زیادہ مقبول ہونا شروع ہوئیں۔ 1950ء کی دہائی تک دنیا بھر کے بڑے شہروں میں پٹرول انجن ٹرانسپورٹ کا بڑا ذریعہ بن چکے تھے۔ اسی دہائی میں ہر جگہ پر جلد ہی سڑکوں پر لکیروں والا سسٹم اسی طریقے سے اپنا لیا گیا جس سے ہم آج واقف ہیں۔ آج دنیا میں کہیں پر بھی چلے جائیں، روڈ سیفٹی کا یہ طریقہ ویسے ہی ملے گا۔
نئی ٹیکنالوجی آنے کے بعد اس کے بحفاظت استعمال کے قوانین بننے میں وقت لیتے ہیں اور جب بن جائیں۔۔۔ تو پھر لگتا ایسا ہے کہ بھلا کیا کبھی دنیا ان کے بغیر بھی ہوا کرتی تھی۔ وہ جو واضح ہے، اپنے واضح ہونے میں وقت لیتا ہے۔