شمع خالد کی وجہ شہرت تو افسانہ نگاری ہے. جب وہ ساتویں جماعت کی طالبہ تھیں، اس وقت ان کا پہلا افسانہ راولپنڈی سے شایع ہونے والے ”روزنامہ تعمیر‘‘ میں طبع ہوا تھا.
انھوں نے اردو کے افسانوی ادب کو بے مثل آبدار موتیوں سے مالا مال کیاہے. ان کی تصانیف میں ”پتھریلے چہرے‘‘، ”گیان کا لمحہ‘‘، ”بے چہرہ شناسائی‘‘، ”تلاش‘‘، ”خزان میں لندن‘‘، ”بند ہونٹوں پہ دھری کہانیاں‘‘، ”گم شدہ لمحوں کی تلاش‘‘ کے علاوہ دو اور منفرد کتابیں ایسی ہیں جو نہایت عمدہ دلچسپ اور پڑھنے کے لائق ہیں. یہ دو کتابیں ”اوراق گم گشتہ‘‘ اور ”داستان ہونے کے بعد‘‘ ہیں.
اول الذکر میں انھوں نے اپنے والد محترم، اپنے زمانے کے معروف معالج اور شاعر محمد صلاح الدین المعروف ڈاکٹر ڈین کے بارے میں اپنی یادوں اور تاثرات کو درج کیا ہے. ثانی الزکر کتاب ”داستان ہونے کے بعد’ میں اپنی والدہ ماجدہ کے بارے میں اپنی یادوں، تاثرات، جذبات و احساسات کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے.
کتاب کے آغاز میں وہ لکھتی ہیں کہ ”جب ان کا بکس کھولا گیا تو بہت سارے سامان کے ساتھ ڈائری کے آدھے ورق غائب تھے. اس ڈائری میں صرف مجھے مخاطب کیا گیا تھا اور وصیت کی تھی کہ میں ان کی کہانی لکھوں. اس کہانی میں بہت جھول ہوں گے، فنی محاسن کی بھی کمی ہوگی لیکن اسے ایک ماں کی وصیت اور بیٹی کی کاوش سمجھ کر قبول کیجیے.‘‘
ایک کہنہ مشق فکشن نگار جب اپنی یادوں کو تحریر کا روپ دیتا ہے تو اس میں جاذبیت، کشش اور ادبی حسن قدرتی طور پر زیادہ ہوتا ہے. یہی وجہ ہے کہ قاری اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہی اس کے مندرجات میں اس قدر غرق ہوجاتاہے کہ بسا اوقات اس کی حیثیت ایک قاری سے بڑھ کر براہِ راست مشاہدہ کرنے والے کی یا اس کتاب کے کسی کردار جیسی ہو جاتی ہے. ان کی یہ داستان 2020ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئی اور 9 مارچ 2021ء کو انھوں نے داعی اجل کی پکار پر لبیک کہا. یوں یہ ان کی آخری تصنیف کہلائی. انھوں نے اسے پہلی قسط قرار دیا تھا مگر انھیں اس داستان کی دیگر اقساط لکھنے کی مہلت ہی نہ مل سکی. کرونا جیسی ہلاکت خیز بلا کو تو انھوں نے پچھاڑ کر فتح حاصل کرلی تھی مگر بعد ازاں دیگر طبی مسائل کے باعث انھیں اللہ کے حضور پیش ہونا پڑا. انھوں نے خاکسار کو یہ کتاب نومبر 2020ء میں بجھوائی جو میری کسل مندی اور کاہلی کے باعث کتابوں کے ہجوم میں سالوں پڑی رہی. ان کی رحلت کا سن کر کتاب کا ایک بار پھر خیال آیا مگر کئی پیشہ ورانہ اور نجی مصروفیات کے باعث اس کا مطالعہ نہ ہوسکا. چند روز قبل اسے پڑھنا شروع کیا تو کتاب نے جکڑ لیا اور کوئیٹہ کی شدید سرد راتیں بھی مجھے اس سے دور نہ کرسکیں. اس بات پر افسوس بھی ہو نے لگا کہ اسے پہلے کیوں نہ پڑھ سکا.
یوں تو پوری کتاب ہی دلچسپ واقعات سے لبریز ہے البتہ چند ایک نہایت دلچسپ واقعات کا مختصر تذکرہ کرنا چاہوں گا.
ایک مقام پر مجسٹریٹ انکل کے اکلوتے کم عمر بیٹے کی ناگہانی موت کا واقعہ نہایت درد انگیزی سے لکھا گیا ہے جس کے بعد مجسٹریٹ صاحب بھی چھت سے گر کر راہی ملک عدم ہوئے.
اپنے والد کی ہومیوپیتھک پریکٹس کے بارے میں نہایت دلچسپ واقعات لکھے ہیں. وہ راولپنڈی کے پہلے ہومیوپیتھک ڈاکٹر تھے. ان کی شہر میں بہت شہرت تھی. صدر ایوب خان کے اہلِ خانہ بھی ان سے علاج کرواتے. ڈاکٹر صاحب مریض کی نبض دیکھ کر اس قدر تفصیل بتاتے کہ لوگوں نے انھیں جنوں والا ڈاکٹر کہنا شروع کر دیا تھا. اس کتاب میں مصنفہ نے کچھ مافوق الفطرت واقعات بھی لکھے ہیں.
کتاب کے صفحہ نمبر 47 پر لکھتی ہیں کہ:
”ایک رات ابی جان لیٹ نائٹ شو دیکھنے گئے تھے. ہم ہم سب بہن بھائی بڑے کمرے میں لیٹے تھے. مجھے اندھیرے میں ڈر لگا. امی نے اٹھ کر لائٹ جلا دی اور سونے کا کہہ کر اپنی چارپائی پر چلی گئیں. میں ابی جان کے کمرے کی طرف دیکھ رہی تھی. اندھیرے میں مجھے تین کالے کالے بھالو نظر آئے. میں نے اپنا ڈر دور کرنے کے لیے دل ہی دل میں انہیں کہا؛ مجھے ڈرانا چاہتے ہو تو روشنی میں آؤ. ایک بڑا سا کالا بھالو اندھیرے سے نکل کر میرے بستر کے پاس آگیا. میں نے چیخ ماری اور بے ہوش ہو گئی. ہوش آیا تو امی نے گود میں لٹایا ہوا تھا.‘‘
اسی طرح اپنی امی کے خواب میں رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت اور پھر برسوں بعد سعودی عرب میں مسجد قبا اور اسی خواب کے واقعات کا حقیقی طور پر دیکھنا کتاب کا نہایت ہی متوجہ کرنے والا حصہ ہے. الغرض یہ کتاب نہایت ہی شاندار ہے جس کے مطالعے کا لطف ایک مدت تک فراموش نہیں ہوسکے گا.
نوٹ: نامور ادیب، سفرنامہ نویس اور تبصرہ نگار محمد اکبر خان اکبر کی اس تحریر کے بعد ”کتاب نامہ‘‘ میں شائع ہونے والے تبصرہ ہائے کتب کی تعداد ایک سو ہو گئی ہے. ادارہ ”کتاب نامہ‘‘ اس کامیابی پر جناب اکبر خان اکبر کو شکریہ کے ساتھ مبارکباد پیش کرتا ہے اور مستقبل کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہے. (ایڈیٹر)