معروف بلاگر اور کالم نگار حسنین جمال کی دوسری تصنیف، ”سوچتے ہیں“ – محمد عمران اسحاق

حسنین جمال پچھلے چند سالوں میں اُردو کے ممتاز کالم نگاروں اور بلاگرز میں سے ایک ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بھائی نے اس قدر عمدہ تحریریں اتنی تعداد میں لکھی ہیں کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایسے اچھوتے، سادہ، آسان اور اچھے کالمز یا بلاگز تحریر میں لانا بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہیں۔
میرا حسنین جمال صاحب سے تعارف سوشل میڈیا پر ہوا جب ان کی مختصر سی ویڈیوز سامنے آئی تو جناب کی شخصیت کا دیوانہ ہوگیا. بولنے کا انداز سیدھا دل پر اثر کرتا ہے. مزید کھوج لگائی تو مزے دار اور سبق آموز تحاریر پڑھنے کو ملیں. معلوم ہوا کہ ان کی دو کتابیں ”داڑھی والا“ اور ”سوچتے ہیں“ ادب کی دنیا میں دھوم مچائے ہوئے ہیں، بس پھر فوراً کتب منگوا لیں۔
پڑھنے کی ابتدا ان کی شاہکار کتاب ”سوچتے ہیں“ سے کی. جس طرح سادہ اور دیسی مزاج بولنے میں اپناتے ہیں، اس سے کہیں بڑھ کر لکھنے کا انداز براہِ راست دل اور دماغ پر اثر کرتا ہے. یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ قاری کے سامنے براجمان ہیں اور انتہائی شفقت، محبت اور پیار بھرے انداز میں قاری کو سمجھا رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں سوہنیا سوچنے کا زاویہ تبدیل کر لے، دنیا بدل جائے گی۔
حسنین جمال کے کالمز اور بلاگز ایسے دل چسپ اور سبق آموز ہوتے ہیں کہ قاری رشک کرتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کاش یہ کتاب پہلے ملی ہوتی تاکہ میں بھی کسی موضوع پر لکھ سکتا مگر مطالعے کی کمی اور الفاظ کی کم دستیابی کی بدولت اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچانے میں ناکام رہا، پھر حسنین جمال کی یہ شاہکار تصنیف میرے ہاتھوں میں آئی تو اس میں موجود تحاریر، الفاظ اور جملوں کا وافر مقدار میں ذخیرہ میرے لیے بہت مفید ثابت ہوا۔ حسنین جمال اپنی ان تحریروں کے ذریعے انسانی سوچ کو بدلنے کا ہنر رکھتے ہیں. اپنی آسان اور سادہ نثر کی بدولت وہ نہ صرف قاری کو سوچنے، سمجھنے، بولنے، لکھنے کے قابل بناتے ہیں بلکہ اس دنیا کو ایک نئے انداز سے پرکھنے پر مجبور بھی کرتے ہیں۔
لالہ حسنین جمال کی کتاب سے چند اقتباسات، جن کو پڑھ کر سوچنے کا زاویہ تبدیل ہوتا ہے:
”کسی کی عیادت کو جاتے ہوئے دو کلو آم لے جانے سے نہ اس کا فریج بھرتا ہے نہ آپ کا، لیکن کیا ہے کہ ساری زندگی اس بندے کو یاد رہتا ہے کہ آپ جب پوچھنے آئے تھے تو خالی ہاتھ نہیں تھے۔ بس اتنی سی بات ہے.“
لنڈے بازار سے کپڑوں کی خریداری پر پورا مینیو دیتے ہیں جو ہر سفید پوش کے لیے بہت مفید ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
”فیشن برانڈ کے نام پر مت جائیں، قمیصیں کہیں سے بھی لیں، کلف والی مٹ اٹھائیں، سوئٹر لیتے ہوئے صرف پہن کر دیکھیں تو لیں ورنہ تنگ نکلے گا یا کھلا.“
”کام نہ کرے تو دوسری عورتوں کی مثال سامنے ہے کہ وہ کرتی ہیں تم نہیں کرتی لیکن اگر وہ کام کرے تو یہ تو کوئی خاص بات ہی نہیں ہے سرے سے.“
”ہر سیلف میڈ کی ایک کہانی ہوتی ہے۔ اس کہانی میں کہیں جھول نہیں ہوتا۔ کچھ ایسا ہوتا تو وہ یہاں تک پہنچ پاتا جہاں وہ اب ہے؟ یہی جھول قسمت کہلاتا ہے.“
”ٹیکنالوجی غیر محسوس طریقے سے آپ کے رویوں کو بدلتی ہے، اسے ایسا کرنے دیں۔ اس سے لڑیں گے تو زیادہ سے زیادہ ایک نسل تک مزید وہ سارے اصول کھینچ کر لے جا سکیں گے جو آپ کے باپ دادا چلایا کرتے تھے.“
”زندگی میں کامیابی کے پیچھے بھاگتے رہنے کا تکلیفوں بھرا سفر ہے۔ کامیڈین کی باتوں پر ہنستے سب ہیں لیکن ہنسنے ہنسانے والا بننا کوئی نہیں چاہتا، سب کو ویسا ہیرو بننا ہے جو ہونٹ پھٹنے پہ کلائی سے لگا خون پونچھے، اسے دیکھ کر جوش میں آئے، دشمنوں کی پھینٹیاں لگائے اور اسے کامیابی نصیب ہو.“
حسنین جمال (داڑھی والا) کا یہ خاصہ ہے کہ اپنے کالموں اور بلاگز کی بدولت پڑھنے والے کو نئے علم و فہم سے متعارف کرواتے ہیں۔ علم و فہم کا یہ ذخیرہ ان کی کتاب ”سوچتے ہیں“ میں وافر مقدار میں موجود ہے جو ایک خاص انداز میں قاری کے دل و ذہن پر اثر کرتا ہے۔ ان کی نثر میں بڑی اصلاح ہے، معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کا بہترین ذریعہ ہے اور مصنف اس مقصد میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں۔
یہ کتاب پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مصنف نے قارئین کے سامنے بیٹھ کر اپنی مخصوص مسکراہٹ اور چہچہاتے انداز میں گفتگو کی ہے اور دل چسپی کا یہ عالم ہے کہ قاری کتاب سے نظریں ہٹانے کا خیال بھی ذہن میں نہیں لاتا اور کب آخری عنوان تک کتاب ہاتھ سے نہیں‌رکھتا.
حسنین جمال نے کالم نگاری کو روایتی نثر سے نکل کر نئے تجربات و مشاہدات سے روشناس کروایا ہے۔ ان کے کالموں اور بلاگز میں لغت بھی ان کی اپنی ہے. وہ بہت سے الفاظ اور جملے ایسے بھی استعمال کرتے ہیں جو ہم عام طور پر بولتے تو ضرور ہیں لیکن لکھتے نہیں۔ حسنین جمال کے لسانی تجربات، نئے موضوعات کا انتخاب اور منفرد خیالات پر ان کی سادہ اور عمدہ تحریریں ذہن پر ایسا نقش چھوڑتی ہیں کہ ہر قدم پر ان کی لکھی گئی تحریر یاد آتی ہے اور قاری اپنی زندگی میں اپنانے کی کوشش کرتا ہے. مصنف نے جس انداز اور شائستگی کے ساتھ اپنا مدعا بیان کیا وہ متاثر کن ہے۔ وہ معاشرے کے ہر پہلو پر مثبت انداز میں لکھتے ہیں، اب یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ اس پر کس قدر عمل پیرا ہوتا ہے۔
حسنین جمال نے اپنی خوب صورت اور بہترین تحریروں کا سرمایہ کتاب ”سوچتے ہیں“ کی صورت میں محفوظ کر دیا ہے۔ یہ کتاب کسی بھی ذوق کے حامل افراد کے پڑھنے کے لائق ہے کیوں کہ اسے پڑھنے کے بعد اجتماعی مثبت تبدیلی کی توقع ہے جو موجودہ حالات میں بہت ضروری ہے.