ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک چھوٹا سا لڑکا تھا جس کا نام تابش تھا۔ وہ کچی بستی میں اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔ کچی بستی کے باقی لوگوں کی طرح وہ بھی کچرا اٹھاتا تھا۔ تابش کو کتابیں پڑھنا بہت پسند تھا، لیکن نئی کتابیں خریدنے کے لیے اس کے پاس پیسے نہیں تھے۔
ایک دن، وہ کچرا اٹھاتے اٹھاتے ایک پرانی کتابوں کی دکان کے سامنے سے گزرا۔ وہ اپنے قدموں کو مزید بڑھا نہ پایا۔ وہاں اسے ایک بہت ہی پرانی اور پھٹی ہوئی کتاب ملی۔ کتاب کا سرورق بہت دلچسپ تھا. بس اس کا رنگ زرد پڑ چکا تھا اور اس پر عجیب سے نقش و نگار تھے۔ اس پر ایک قلعہ بنا ہوا تھا جس کے دروازے پر ایک تالا لگا ہوا تھا۔ تابش نے سارا دن کی جمع پونجی اکٹھی کر کے وہ کتاب خرید لی۔
وہ کتاب کو پاکر بہت خوش تھا۔ اس نے کتاب کو اپنے صندوق میں چھپا دیا۔ رات ہوئی تو تابش اپنے کمرے میں آیا۔ اس نے کتاب کو اٹھا کر دیکھا تو یکدم کتاب ہلنے لگی۔ اس میں سے ایک چمکدار روشنی نکلنے لگی اور ایک آواز گونجی:
”پیارے تابش! میں ایک جادوئی کتاب ہوں، بتاؤ میں تمھارے لیے کیا کر سکتی ہوں؟‘‘
پہلے تو تابش ڈر گیا۔ پھر ہمت کر کے بولا: ”پیاری کتاب! مجھے بہت سی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ کیا تم میری یہ خواہش پوری کر سکتی ہو؟‘‘
کتاب سے چمکتی ہوئی روشنی نکلی اور آواز آئی: ”کیوں نہیں؟ میں تمھیں جادوئی کتابوں کے شہر کی سیر کو لے جاتی ہوں۔‘‘
اچانک جادوئی کتاب کے سرورق پر بنے قلعے کا دروازہ کھل گیا اور تابش کو اندر آنے کو کہا گیا۔ وہ دروازہ اسے جادوئی کتابوں کے شہر کی طرف کھلتا ہوا محسوس ہوا۔ جیسے ہی وہ اس شہر میں داخل ہوا، اس نے دیکھا کہ اس شہر میں سب کچھ کتابوں سے بنا ہوا تھا۔ گھر کتابوں سے بنے ہوئے تھے اور شہر میں رہنے والے سب لوگ کتابیں ہی تھیں۔ وہ اس سے باتیں کر رہے تھے اور اسے اپنی کہانیاں سنا رہے تھے۔
سب سے پہلے اس کی ملاقات تاریخ کی کتاب سے ہوئی۔ اس نے تابش کو مختلف تہذیبوں کے بارے میں بتایا، کچھ پرانے لوگوں سے ملاقات کروائی، اور ماضی کے پرانے ادوار دکھائے۔
اگلا گھر سائنس کی کتاب کا تھا، وہاں تابش نے تجربات ہوتے دیکھے، مختلف مرکبات کا پتہ چلا، اور زمین اور ماحول سے ملاقات ہوئی۔ تابش مختلف کتابوں کے گھر کا مہمان بنا جن میں ریاضی، آرٹ، اور ادب کی کتابیں شامل تھیں۔ سب کتابوں نے اسے مختلف معلومات دیں اور وہ اس سے باتیں کر رہیں تھیں۔ تابش نے اس شہر میں بہت کچھ دیکھا اور سیکھا۔
پھر اسے خیال آیا کہ بہت دیر ہو گئی ہے اب اسے گھر واپس جانا چاہیے۔ وہ اسی روشنی پر چلتے ہوئے واپس آگیا اور اس نے کتاب کو بند کر دیا۔ تابش بہت خوش تھا کیوں کہ آج اس نے اپنی خواہش کے مطابق ہر کتاب پڑھی تھی۔ اسے پتا چلا کہ کتابیں باتیں کرتی ہیں اور یہ صرف کاغذ یا سیاہی سے مل کر نہیں بنتیں، بلکہ یہ اس دنیا کا دروازہ ہیں، جو ہمیں مختلف جگہوں سے متعارف کراتی ہیں اور کتابیں انسان کی بہت اچھی دوست ثابت ہوتی ہیں کیوں کہ ان کے ہوتے ہوئے انسان کبھی اکیلا نہیں ہوتا۔
