دنیائے حمد و نعت، میدانِ صحافت اور جہانِ شعر و ادب کی پُر کشش شخصیت شاعر علی شاعر کا اصل نام شاعر علی ہے۔ اُنھوں نے میرتقی میراورانشاء اللہ خان انشاء کی طرح اپنے اصل نام ”شاعر‘‘ کو تخلص کے مرتبہ پر فائز کیا ہے۔ اب اُن کا نام شاعرعلی شاعر ہی اُن کی ذات کے وجدان، علم و ادب کے فیضان اور شعر و سخن کی پہچان کا سبب ہے۔
پاکستان میں ”مدینتہ الاولیاء‘‘ کہلانے والی مقدس سر زمین ”ملتان‘‘ میں اُن کی پیدائش 20 جون 1966ء میں ہوئی۔ پرائمری کی تعلیم (گورنمنٹ شاہ گردیز پرائمری اسکول) اور میٹرک کی تعلیم (گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری اسکول)، نواں شہرملتان سے حاصل کی۔ انٹر، بی اے، ایم اے (اُردو)، بی ایڈ اور ایم ایڈ (سائیکالوجی) اورایم اے (پریویس) اسلامیات کی تمام تعلیم عروس البلاد، روشنیوں کے شہر کراچی میں مکمل کی۔
1980ء میں اپنے بچپن کے دوست اور ہم جماعت حافظ غلام فرید کی مسلسل تحریک پر ابتدائی شاعری کا آغاز کیا۔ اُردو ادب کے اُستاد اور شاعر جناب مہر سعید ملتانی کی رفاقت و حوصلہ افزائی سے شاعری کا ذوق و شوق پروان چڑھا۔ کراچی آنے کے بعد شاعری کے رموز اور اُردو عروض کی شُدبد کے لیے جناب شفیع بسمل (کراچی) کے سامنے زانوئے ادب تہ کیے۔ اُن سے تشفی نہ ہونے کے باعث جناب منصور ملتانی سے مشورئہ سخن کیا۔ منصورملتانی کی زندگی نے وفا نہ کی۔ آج کل جناب سہیل غازی پوری سے مشاورت کرتے ہیں۔
اپنے وقت کے نامی گرامی اور قادر الکلام، شعرائے کرام کے ساتھ اُنھیں مشاعرے پڑھنے کا افتخار و اعزاز حاصل ہے۔ شعر و ادب کے حوالے سے مشہور و معروف ادبی مراکز سے اُن کے دیرینہ روابط قائم ہیں۔ تمام اہم اخبارات اور علمی و ادبی رسائل و جرائد میں آئے دن اُن کا کلام اور مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔
مختلف ادبی اداروں اور تنظیموں کی جانب سے شاعر علی شاعر کی حمدیہ، نعتیہ اور ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے نمایاں ایوارڈز، اعزازی شیلڈز اور تعریفی اسناد کا تسلسل جاری ہے۔ پذیرائی و حوصلہ افزائی کا یہ مستقل سفر شاعر علی شاعر کے روشن مستقبل اور تاب ناک ماضی کا آئینہ دار ہے۔
شاعر علی شاعر کا ذریعۂ معاش ملازمت ہے۔ اِس کے باوجود دیگر علمی و ادبی سرگرمیوں کو نہ صرف جاری رکھا ہے بلکہ اُن میں نمایاں ترین خدمات انجام دینے کا سہرا بھی اُن کے سر ہے۔ چند سال قبل اُنھوں نے اپنے وارث اور ہونہار بیٹے محمد (شیرازی شاعر) کو “رنگِ ادب پبلیکیشنز‘‘ کے نام سے کراچی میں ایک اشاعتی ادارہ قائم کرکے دیا ہے، جو روز و شب اُردوادب کے فروغ اور اُردوزبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروفِ عمل ہے اور متعدد کارہائے نمایاں سرانجام دے چکا ہے، جن میں پاک و ہندکے نام ور شعرائے کرام کے شعری کلّیات اور مجموعے شامل ہیں۔
فکشن اور تنقیدی کتابوں کاسلسلہ اِس کے علاوہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج رنگِ ادب پبلیکیشنز، کراچی کی ساکھ بن گئی ہے اور پوری دنیا میں رنگِ ادب کا کام قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہاہے۔ اِس سبب سے رنگِ ادب اور شاعرعلی شاعر ایک دوسرے کی پہچان بن چکے ہیں۔
نارتھ کراچی، کراچی میں اُن کا مستقل قیام ہے۔ علم و ادب کے دل دادہ ہیں۔ اُن کے اوراقِ ہستی حمدیہ، نعتیہ اور ادبی خدمات سے عبارت ہیں۔ یہاں اُن کی نمایاں خدمات کا اجمالی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
بہ حیثیت ترتیب کار و مؤلف:
شاعر علی شاعر بہ حیثیت ترتیب کار و مؤلف اپنی نمایاں پہچان رکھتے ہیں۔ وہ مختلف مو ضو عا ت پر متعدد کُتب تالیف کرتے رہنے کی مسلسل روایت پرگام زن ہیں۔ اکثر اُن کے مرتب کردہ حمد و مناجات اور نعتیہ و منقبتیہ انتخاب میری نظروں سے گُزرے ہیں۔ جیبی انداز میں اُن کے مرتب کردہ انتخابِ نعت ومناقب وسلام ”نور کی برسات‘‘، ”نوروالا‘‘، ”نُورِ مجسم‘‘، ”مدینہ پھر مدینہ ہے‘‘، ”مناقبِ عطار‘‘، ”یامصطفی…یامصطفی‘‘ اور”مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ زیادہ مشہور ہیں۔ اپنے ذاتی نعتیہ کلام پر مشتمل چھ عدد جیبی انداز میں مجموعہ ہائے نعت ”حضورِ انور‘‘، ”دل ہے یا مدینہ‘‘، ”رحمتِ تمام‘‘، ”انوارِ حرم‘‘، ”دل کا چین مدینہ‘‘ اور”عقیدت‘‘ بھی طبع ہو چکے ہیں۔
”سفیرانِ سخن‘‘ (مارچ2005ء):
”سفیرانِ سخن” کراچی کے 19 معروف و غیر معروف شعراء کے حالات و مُنتخب کلام پر مشتمل ہے۔” سفیرانِ سخن” کے ترتیب کار و مؤلف شاعر علی شاعرہیں۔ مارچ 2005 ء میں یہ انتخاب انجمن شائقینِ اُردوادب کراچی کے زیرِ اہتمام شائع ہوا۔
”سفیرانِ سخن” شعبۂ غزل پر کام کرنے والوں کے لیے کافی اہمیت کی حامل ہے۔ اِس کتاب کو معلوماتی انداز میں مُرتب کیا ہے۔ اِس انتخاب میں کُل19 شعرائے کرام شامل ہیں۔ ہر شاعر کی دس غزلیں’ اجمالی تعارف اور رابطہ کا حوالہ بھی موجود ہے۔
کتاب کی پُشت کے سرِورق پر 18 شُعراء کی رنگین تصاویر بھی موجود ہیں۔ غرض یہ کہ مکمل انتخاب ایک معلوماتی اور قیمتی دستاویز ہے۔ واضح رہے کہ سفیرانِ سخن کی یہ پہلی جلد ہے۔ اِس سلسلے کی مزید تین جلدیں طبع ہوچکی ہیں۔ اِس کتاب کے ترتیب کارومؤلف سے یہ توقع ہے کہ مستقبل قریب میں سفیرانِ سخن کی یہ کہکشاں یوںہی جگمگاتے ہوئے زیورِ طباعت سے آراستہ ہوتی رہے گی۔
سخن ور بلاشبہ علم و ادب اور شعروسخن کے سفیر ہوتے ہیں۔ سخن ور معروف ہو یا غیر معروف مگر اُس کا تعلق شعبۂ ادب سے برقرار رہتا ہے۔ شاعر علی شاعر نے کہنہ مشق اور معروف شُعراء کی شفقت کے سائے میں کم معروف مگر باصلاحیت شُعراء کو بھی شامل کیا ہے۔ معروف شاعر تو ہر جگہ اور ہر مقام پر نظر آجاتے ہیں۔ زیادہ مسرّت اور خوشی اُس وقت محسوس ہوتی ہے کہ جب غیر معروف اور اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے شعُراء کو بھی مناسب نمایندگی دی جائے۔
آج ہم اور ہمارا معاشرہ جسے غیر اہم اور غیرمعروف شاعر سمجھ رہا ہے وہ آیندہ آنے والے وقتوں کا اہم’ معروف، کہنہ مشق اور قادرالکلام شاعر ہے۔ تجربہ’ مشاہدہ’مشقِ شعر وسخن’ ریاضتِ فکر و فن اور زندگی کے ماہ و سال اُس کی شاعری میں پختگی اور شہرت و مقبولیت کے سارے رنگ بھر دیتے ہیں۔
سفیرانِ سخن کا انتساب شاعر علی شاعر نے ”اُن سینئر شُعراء کے نام جو جونئیر شُعراء سے مستقبل کی روشن اُمیدیں وابستہ رکھ کر خلوص دل سے شفقت فرماتے ہیں۔‘‘ کے نام معنون کیا ہے۔ اِس کا دیباچہ منصور ملتانی نے تحریر کیا ہے۔
سفیرانِ سخن میں کراچی کے جن 19 شعراء کا مُنتخب کلام شائع کیا گیا ہے۔ اُن کے اسمائے گرامی بالترتیب ملاحظہ کیجیے۔ رئیس باغی’ اسلم فریدی’تنویر پُھول ‘ حامد علی سیّد’ نجیب قاصر’ نشاط غوری’ شاعر علی شاعر’ معراج رضاوی’ آسی سُلطانی’ ریحان کراچوی’ مہدی عباس’ شیرافگن جوہر’ کامی شاہ’ خادم عظیم آبادی’ محمدطہور خان پارس’ مقبول سہارن پوری’ زاہد علی سیّد’ محمد افضل شاہ’ نثار علی اُجاگر۔ 224 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 200 روپے ہے.
”سفیرانِ سخن‘‘ (جلد دوم) ۔ (2008ء):
”سفیرانِ سخن‘‘ جلد دوم شاعر علی شاعر کی سخنوروں سے قلبی عقیدت کا اظہار ہے۔ اِس میں اُنہوں نے کراچی سے تعلق رکھنے والے چوبیس نام ور شعراء کا تعارف مع تصاویر کے پیش کیا ہے۔ ہر شاعر کی دس نمایندہ غزلیں اور پندرہ منتخب اشعار کی ترتیب سے کتاب کو مرتب کیا ہے ۔ واضح رہے کہ شاعر علی شاعر سفیرانِ سخن کو ایک مرکز پر لانے کے جذبے سے سرشار ہیں۔ یہ اِسی سلسلے کی دوسری کڑی ہے۔ جسے بہت خوب صورت انداز میں مزید اضافوں کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
کتاب کے ترتیب کا رسے گُزارش ہے کہ وہ اگر ایک شاعر کی دس غزلوں کی جگہ پانچ غزلیں انتخاب کریں تو مزید اتنے اور شاعر اِس کتاب میں سما سکتے ہیں۔ ایک شاعر کا رنگِ سخن دیکھنے کے لیے تواتر سے پانچ غزلیں کافی ہیں۔ اِس میں ہر شاعر کی شاعری کا معیاراوررنگِ سخن بہ آسانی متعےّن کیا جاسکتا ہے۔
اِسی سلسلے کی دو مزید کتابیں جلد نمبر3 اور جلد نمبر4بھی شایع ہو چکی ہیں ۔شاعرعلی شاعر نے اب تک اِن چارجلدوں میں سو سے زیادہ کراچی سے تعلق رکھنے والے شعراکو شامل کرلیاہے۔
اِس کے علاوہ شاعرعلی شاعر نے فیض عالم بابر کے تعاون سے ”اُردو غزل کا عالمی انتخاب” بھی ترتیب دیا ہے۔ جس میں 750 شعرا کی 1500 غزلیں یک جا کی گئی ہیں، جو اپنی نوعیت کا انوکھا اور منفرد کام ہے۔اِس قدر محبت احمد ندیم قاسمی کے رسالے فنون غزل نمبر میں دیکھنے میں آئی تھی یا پھر اُردو غزل کے عالمی انتخاب میں۔
”بجھے چراغوں کی روشنی‘‘ (جنوری 2007ء):
”بجھے چراغوں کی روشنی‘‘ شاعر علی شاعر کا مرتب کردہ ایک اہم انتخاب ہے۔ جس میں مرحوم نعت گو شعراء کا منتخب کلام بہ طور خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ بجھے چراغوں کی روشنی میں بہ طور خاص اِس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ قیا مِ پاکستان سے تاحال جو شعرائے کرام پاکستان میں وفات پاچکے ہیں اُن کی مشہور و معروف نعتوں سے اِس انتخاب ِ نعت کو سجایا جائے۔ اتنے اہتمام اور اِس قدر دل جمعی کے ساتھ کوئی دوسرا کام ہمارے سامنے موجود نہیں۔
شعبۂ حمد و نعت پر یوں تو بہت سارے کام ہورہے ہیں۔ مگر اُن کاموں کی بات بالکل جُدا ہے جو کسی مخصوص فکر کے ساتھ معلوماتی و تحقیقی انداز میں ترتیب دیئے جاتے ہیں ۔وہ کام ہمیشہ یاد گار رہتے ہیں اور جگہ جگہ حوالہ بنتے ہیں۔ ہمارے ممدوح محترم شاعر علی شاعر کی فکرِ جدّت پسند نے اِس راہِ دشوار کا انتخاب کیا ہے۔ اِس کام کی ترتیب وتدوین میں اُنہیں مشکل حالات کا بھی سامنا رہا، مگر اِس کے باوجود وہ ثابت قدم رہے۔
”بُجھے چراغوں کی روشنی‘‘ کی اشاعت اخلاص پر مبنی ہے جس کا اندازہ مرتب کی فکر سے ہوتا ہے۔ وگرنہ زندہ حضرات پر صلہ و ستائش کے لیے بہت سارے کام کیے جاسکتے ہیں۔اِس اہم اور خوب صورت انتخابِ نعت کو حروفِ تہجی کی نہج پر ترتیب دیا گیا ہے۔
” بجھے چراغوں کی روشنی”کی ترتیب ‘تالیف اور تحقیق و جستجو مؤلف کے اخلاص اور قلبی تعلق کی آئینہ دار ہے۔ موصوف نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ شعرائے کرام کا نعتیہ کلام صحت و سند کے ساتھ شائع ہو سکے۔ وہ بہت صبر آزما لمحات سے گز رے ‘ اُنھیں محنت کے ساتھ ساتھ دقت طلبی کا سامنا بھی رہا۔ وہ تھکا دینے والی تحقیق کے نشیب وفراز بہ آسانی طے کر تے رہے۔ کم آمدنی اور محدود وسائل کے باوجود وہ کام کر گزر ے جو کسی انجمن یا ادارے کو کرنا چاہیے تھا۔
شاعر علی شاعر کی سوچ کی وسعت اور فکر کی ندرت پر قربان جائیے کہ اُنھوں نے اِس کام کو بہت اہتمام اور عمدگی سے پایۂ تکمیل کو پہنچا یا۔ حضرت حفیظ تائب رحمتہ اﷲ علیہ نے 1990ء میں ”بہارِ نعت‘‘ کے نام سے منتخب نعتوں پر مشتمل 193 زندہ پاکستانی شعراء کا کلام پیش کیا تھا۔ اِس انتخابِ نعت کو اُس دور میں بہت سراہا گیا۔ یہ کام اتنا اہم ہے کہ اِسے ہر دور میں پذیرائی نصیب ہوگی۔
الحمد ﷲ! اب ہمارے ممدوحِ محترم شاعرعلی شاعر نے پاکستان میں بسنے والے اور قیامِ پاکستان سے تا حال وفات پانے والے 205’شعرا و شاعرات کی نعتوں پر مشتمل ایک مثالی یاد گار اور نمائندہ انتخابِ نعت ”بجھے چراغوں کی روشنی‘‘ پیش کر کے اُس سلسلۂ نعت کو دوام بخشا ہے کہ جس کا آغاز ”بہارِ نعت‘‘ کی صورت میں حضرت حفیظ تائب مرحوم نے کیا تھا۔
متفرق موضوعات پر کتب:
کام یاب مُرتب اور ترتیب کار کی پہچان یہ ہے کہ اُس کی تالیف کردہ کُتب کو پذیرائی حاصل ہو۔ شاعر علی شاعراِس سلسلے میں بُہت خوش نصیب ہیں کہ اُن کی تالیف کردہ کُتب کو عوام النّاس میں پسند کیا جاتا ہے۔ متفرق موضوعات پر کتابیں مُرتب کرکے اُنہوں نے اپنا مقام بنالیا ہے۔اُن کی ترتیب و تالیف کردہ معروف کتب میںمندرجہ ذیل شامل ہیں:
آہنگ (منتخب شاعری) (اسرارالحق مجاز)
مجھ کو سمجھے خدا کرے کوئی (کلیاتِ امیرالاسلام ہاشمی)
درد چھپا کر رکھا ہے (سعید الظفر صدیقی کی منتخب غزلیں)
محبت سنبھال کر رکھنا (سعید الظفر صدیقی کی رومانی غزلیں)
آپ کے لیے (فضا اعظمی کی منتخب غزلیں)
محبت عروج پر ہے (فضا اعظمی کی رومانی غزلیں)
تجدیدِ محبت (رفیع الدین راز کی رومانی غزلیں)
کوئی تجھ سا کہاں (انتخابِ غزل)
3000 بہترین اشعار (انتخابِ شعر)
5000 بہترین اشعار (منتخب اشعار، حروف تہجی کے تحت)
سفیرانِ سخن۔1 (کراچی کے سخن وروں کاتذکرہ و منتخب کلام)
سفیرانِ سخن۔2 (کراچی کے سخن وروں کاتذکرہ و منتخب کلام)
سفیرانِ سخن۔3 (کراچی کے سخن وروں کاتذکرہ و منتخب کلام)
سفیرانِ سخن۔4 (کراچی کے سخن وروں کاتذکرہ و منتخب کلام)
ہنستی آنکھیں (منتخب اشعار)
بہادر شاہ ظفر سے سعید الظفر تک (اُردو غزل کا عالمی انتخاب)
عہدِ بہادر شاہ ظفر سے عہدِ سعید الظفر تک ( اُردو غزل کا عالمی انتخاب)
( 3جلدوں اور1600صفحات پر مشتمل)
بیس کتابیں (منتخب اشعار)
بیس کتابیں (منتخب اشعار) پاکٹ سائز
بیس کتابیں (منتخب غزلیں)
بیس کتابیں (منتخب غزلیں) پاکٹ سائز
نغماتِ پاکستان(تنویر پھول) (ملّی نغمات) (صدارتی ایوارڈ یافتہ)
خوشبو بھینی بھینی (کلّیاتِ تنویر پھول) (بچوں کی نظمیں)
منٹوکے متنازعہ افسانے (تین ایڈیشن)
تیسراآدم (قیصرسلیم کا افسانوی کلّیات)
نیا اُردوافسانہ (ناقدین کے مضامین)
اُردوافسانے کا مستقبل (ناقدین کے مضامین) غیر مطبوعہ
عام بَہاریہ شاعری کے موضوع پر شاعر علی شاعر بہت زیادہ کُتب مرتب کرچکے ہیں۔ اُن کی مُرتب کردہ کُتب پسندیدگی کے مقام پر فائز ہیں جن کی تعداد بلامبالغہ ایک سو دس سے تجاوز کر گئی ہیں۔ ”پانچ ہزار بہترین اشعار‘‘، ”یہ دل تیرے نام‘‘ اور ”کوئی تجھ سا کہاں‘‘ بَہاریہ موضوع پر عمدہ کُتب ہیں۔ اِن کے مطالعہ سے مُرتب کے کام کی فکر کا اندازا لگایا جاسکتا ہے۔ آج کل ”کراچی کے سو نام ور شعرا‘‘ اور ”سو پاکستان کے نمایندہ غزل گوشعرا‘‘ ترتیب دے رہے ہیں جو عن قریب منظرِعام پر آجائیں گی۔
چند نثری کتب:
موصوف نے کچھ نثری کتب بھی مرتب کی ہیں جن کی تفصیل یوں ہے:
برجوں کا انسائیکلو پیڈیا (برجوں کی سب سے بڑی کتاب)
منظور حسین شور (تنقید و منتخب کلام)
شعورِ تنگ نظر (نثر، اخی بیگ)
شعورِ تنگ نظر (نظم، اخی بیگ)
کچھ بولیں تو (مضامین،اخی بیگ)
بھیّا کون ہو (مضامین،اخی بیگ)
رونقِ چمن (مضامین،اخی بیگ)
” بہ حیثیت بچوں کا ادیب و شاعر‘‘:
شاعر علی شاعربچوں کے ادب کے لیے انتہائی سنجیدگی اور خلوص و متانت سے قلمی جہاد میں مصروف ہیں۔ وہ بچوں کے حوالے سے ”بہترین شاعر‘‘ کے تین ایوارڈز بھی حاصل کرچکے ہیں۔ اُنہیں بچوں کے موضوع پر مسلسل کام کرتے رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
بچوں کے لیے شاعر علی شاعر نے جو طرزِ نگارش اختیار کی ہے وہ سادہ اور عام فہم زبان کا استعمال ہے۔ اُنہوں نے بچوں کی علمی سطح اور ذہنی عمر کو ملحوظ رکھتے ہوئے چھوٹے، بامعنی اور سادہ جملوں میں اپنی بات مکمل کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے اپنی علمی استعداد کے مطابق اُن کُتب کو دل چسپی اور ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ بچوں کے لیے بامعنی اور اصلاحی ادب تخلیق کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ شاعر علی شاعراِس راہ سے بھی آسانی کے ساتھ گُزرے ہیں۔
”کاغذ، قلم، کتاب” کے نام سے شاعر علی شاعر نے بچوں کی خوب صورت اور پُر اثر نظمیں کہی ہیں۔ تمام نظمیں دل چسپ مختلف عنوانات کے تحت نظم کی گئی ہیں۔ یہ نظمیں فی زمانہ بچوں کے لیے دل چسپ اور سبق آموز ہیں۔بعد ازاں شاعرعلی شاعرکی بچوں کے ادب پر مندرجہ ذیل کتب شائع ہوئی ہیں:
جنت کی تلاش ناول 2006ء
کاغذ، قلم، کتاب. اشاعتِ اوّل (نظمیں) 2010ء
مہکتی کلیاں (گیت، نظمیں) 2012ء
کھلتے گلاب (ترانے، نظمیں) 2012ء
انوکھی کہانیاں (کہانیاں) 2012ء
دل چسپ کہانیاں (کہانیاں) 2012ء
دادی اماں کہانی سنائیں (اصلاحی کہانیاں) 2012ء
پیارا وطن (ملّی نغمے) 2012ء
بچوں کی کہانیاں (25 کہانیاں) 2012ء
کاغذ، قلم، کتاب – اشاعتِ دوم (کلّیات) 2012ء
”چڑیا، تتلی، پُھول” کے نام سے بچوں کی نظموں کا انتخاب مرتب کرچکے ہیں۔
”نغماتِ پاکستان” کے حوالے سے بھی بچوں کے لیے نظمیں مرتب کرچکے ہیں۔
”جنت کی تلاش” کے عنوان سے بچوں کے ادبی ذوق و شوق کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ایک ناول بھی لکھ چکے ہیں۔
”اسلامی ادب‘‘:
اسلامی ادب کے حوالے سے بھی کئی کُتب شاعر علی شاعر کی میری نظر سے گزری ہیں۔ یہ دیکھ کر یک گونہ مسرّت ہوئی کہ وہ اسلامی ادب میں شاعر القادری کے نام سے لکھتے رہے ہیں۔
”حفاظت النبی”صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فروری 2003 ء میں مکتبۂ غوثیہ، سبزی منڈی، کراچی سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب اپنے موضوع اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد ہے۔ کتاب حفاظت النبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،میں شاعر علی شاعر نے ایسے واقعات جو قرآن و حدیث اور دیگر کُتبِ سیرتِ پاک سے ثابت ہیں، اُن کو یک جا کیا ہے۔ موضوع اتنا اہم اور اچھوتا ہے کہ پڑھتے رہنے کو دل چاہتا ہے۔
کتاب حفاظت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اُن سچّے اور سبق آموز واقعات پر مشتمل ہے جو سرکارِ دو عالم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، کی حفاظت کے لیے اللہ رب العز ّت نے مقرر کیے تھے۔ کتاب کا ہر واقعہ ایمان کو جِلا بخشتا ہے۔ حفاظتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،کے حوالے سے یہ نادر و نایاب تحفہ عوام النّاس میں مقبولِ عام ہونا چاہیے تاکہ ”محبتِ مصطفی‘‘ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوری کی جو آندھیاں چل رہی ہیں اُن کا تدارک کیا جاسکے۔
شاعر علی شاعر نے اسلامی موضوعات پر اور بہت سی کُتب تالیف کیں۔ ”اربعینِ شدّت‘‘، ”خلفائے راشدین کے اقوال‘‘ میرے پیشِ نظر ہیں۔ دونوں کُتب اپنے موضوعات کے تناظر میں دل چسپ اور قابلِ توجّہ ہیں۔ جب کہ اسلامی ادب کے حوالے سے ہی ”پہلی نظر سے میلی نظر تک‘‘ اور ”محبت کا جائزہ‘‘ تصفیف اور”مدنی تحفہ‘‘ اور ”وظائف کا مجموعہ‘‘ ترتیب دے چکے ہیں۔
شاعرعلی شاعر بنیادی طور سے اسلامی واصلاحی فکر کے حامل ہیں۔ اُن کی تصنیف و تالیف کردہ زیادہ تر کُتب کا تعلق دینِ اسلام اور پیغمبر ِاسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے۔ مگر وہ کبھی کبھی اپنے ذوق کو مہمیز دینے کے لیے دیگر موضوعات پر بھی خوشہ چینی کرتے نظر آتے ہیں۔
”بہ حیثیت افسانہ نگار‘‘:
شاعرعلی شاعربہ حیثیت افسانہ نگار بھی اپنی شُہرت کا لوہا منواچکے ہیں۔ افسانہ نگاری کے والے سے اُن کی سات کُتب شائع ہوچکی ہیں جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
گہرا زخم اشاعتِ اوّل (رومانی ناول) 2009ء
چہرہ چہرہ کہانی (افسانے) 2010ء
پانچ ناولٹ (ناولٹ) 2010ء
لال کبوتر (افسانے) 2011ء
جدید افسانے – اشاعتِ اوّل (56 افسانے) 2011ء
جدید افسانے افسانوی کلّیات 2012ء
گہرا زخم (اشاعتِ دوم) کلّیات(ناول و ناولٹ) 2012ء
ایک چہرہ ایک کہانی افسانوی انتخاب
نیا اُردو افسانہ فکشن پر منتخب مضامین
تیسرا آدم افسانوی کلّیات (قیصر سلیم)
منٹو اور اُس کے متنازع افسانے (50 سے زائد منتخب افسانے)
موصوف نے مختلف موضوعات پر اپنی فن کاری کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ افسانہ نگاری بھی اُن کی شخصیت کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ مختلف النّوع موضوعات پر کام کرتے رہنے کی وجہ سے اِس موضوع پر کماحقہ’ توجّہ نہیں ہے۔ وگرنہ افسانہ نگاری کے موضوع پر بھی وہ بہت سی کُتب تالیف کر سکتے تھے۔
”بہ حیثیت ناول نگار‘‘
شاعر علی شاعر ہمہ رنگ لکھنے والے ہیں ۔ وہ ہر موضوع پر ایسے لکھ رہے ہوتے ہیں کہ اُن کی بھر پور توجہ صرف اِسی موضوع پر مرکوز ہے۔ تقریباً وہ ہر موضوع کا حق ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ بہ حیثیت ناول نگار بھی اپنی شناخت کرواچکے ہیں ۔ اُن کی ناول اور ناولٹ نگاری کے لیے ”گہرازخم‘‘ اور ”پانچ ناولٹ‘‘ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ دونوں کتب اپنے موضوعات کا حق ادا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
اِن کے علاوہ شاعرعلی شاعر نے ایک ناول ”خواب گاہ‘‘ بھی لکھ رکھاہے جو منتظرِ اشاعت ہے۔ جس کی انفرادیت یہ ہے کہ اُس میں ایک جن زادے کی زبانی جنّات کے بارے میں تمام معلومات یک جا کر دی گئی ہیں۔ یہ معلومات قرآن و حدیث کی روشنی میں درست معلوم ہو تی ہیں۔ اِس طرح ”خواب گاہ‘‘ ایک ناول بھی ہے اور معلوماتِ جنّات پر مشتمل مفصّل کتاب بھی۔
شاعرعلی شاعر کبھی بھی خود کو فراغت میں نہیں رکھتے۔ آج کل بھی وہ ایک ناول ”نئی زندگی‘‘ کے نام سے لکھ رہے ہیں جو ماہ نامہ ”دیباج‘‘ ڈائجسٹ، کراچی میں قسط وار شایع ہو رہا ہے۔ قارئین کے خطوط سے محسوس ہوتا ہے کہ شاعرعلی شاعر کا یہ ناول سب سے زیادہ پڑھا اور پسند کیا جا رہاہے کیوں کہ یہ ایک نومسلم عورت کی کہانی ہے جو ناروے میں مسلمان ہوکر کراچی آتی ہے اور دنگ رہ جاتی ہے۔
کچھ سال قبل شاعرعلی شاعر کے ناول اور ناولٹ پر مشتمل کلّیات بھی شایع ہوا ہے۔ جس میں اُن کا معروف ناول ”گہرا زخم‘‘ اور تمام ناولٹ یک جا کر دیے گئے ہیں۔شاعرعلی شاعر کی یہ بات اچھی ہے کہ وہ اپنا تمام ادبی سرمایہ اپنی زندگی میں خود کتابی صورت میں محفوظ کرتے آرہے ہیں ورنہ مرنے کے بعد کون کس کو پوچھتاہے۔
”بہ حیثیت غزل گو شاعر‘‘:
اُن کی اصل پہچان شاعری ہے اور اُن کی وجہِ شہرت بھی شاعری کو گردانا گیاہے۔اِس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اُن کے سب سے زیادہ شعری مجموعے شایع ہوئے ہیں اور اُنھوں نے سب سے زیادہ شعری انتخاب تالیف و مرتب کیے ہیں ۔یہاں تک کہ اپنے معروف اشاعتی ادارے رنگِ ادب پبلیکیشنز، کراچی سے بھی شعری کتابیں سب سے زیادہ شایع کی ہیں۔ اُن کی شعری کتابوں کا اجمالی جائزہ لیا جاتا ہے:
”بہارو! اب تو آجاؤ ”(یکم جنوری 2004ء):
بہارو! اب تو آجائو شاعر علی شاعر کا سب سے پہلا بَہاریہ مجموعۂ کلام ہے۔جسے موصوف نے اپنی رہائش گاہ سے یکم جنوری2004 ء میں شائع کیا۔ اِس مجموعۂ کلام میں شاعر نے اپنی شاعری کے عطر کو کشید کیا ہے۔ جسے آپ شاعر علی شاعر کی شاعری کا نچوڑ اور ماحصل کہہ سکتے ہیں۔ اِس کتاب میں شاعر علی شاعر کی سو بہترین غزلیں شائع ہوئی ہیں۔
”بہارو! اب تو آجائو” کا فلیپ مہروجدانی اور ایم الیاس نے تحریر کیا ہے۔ سرِورق کی پشت پر انڈیا کے بزرگ شاعر جناب گلزار دہلوی کے ساتھ شاعر علی شاعر کی عالمی مشاعر ہ میں لی گئی ایک یادگار تصویر شائع کی گئی ہے۔
کتاب کا انتساب موصوف نے اپنی” شریک ِحیات”کے نام کیا ہے۔ نسیم نیازی نے ”تعارفِ کتاب” تنویر پُھول نے ” آسمانِ سخن پر اُبھرتا ہوا ستارہ” اور اشرف علی شرف نے ”تعارفِ شاعر” قلم بند کیا ہے۔
شاعر علی شاعرکی بَہاریہ شاعری میں معاشرے کی اصلاح کا پہلو کارفرما ہے۔ اُن کی شاعری کا بنیادی وصف یہ بھی ہے کہ اُس میں مایوسی اور یاسیت کا گُزر نہیں۔ اُن کی شاعری میں جگہ جگہ معاشرے کے بگڑنے کا حوالہ ملتا ہے۔ مگر وہ کہیں پر بھی یاس و مایوسی کا شکار نظر نہیں آتے۔ وہ اپنی ہر بات کو اصلاحِ احوال کے حوالے سے پیش کرتے ہیں۔ شاعری میں اُن کا لہجہ تازہ اور توانا ہے۔
178 صفحات کی اس مُجلّد کتاب کی قیمت 120/= روپے ہے۔ نقشِ اوّل ”بہارو! اب تو آجائو” کو دیکھ کر شاعر علی شاعر کی فنّی اور فکری صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف کی شاعری بہ تدریج ارتقائی مراحل طے کررہی ہے۔اِن شاء اللہ وہ دن دور نہیں کہ شاعر علی شاعراپنے ہم عمر اور ہم عصر شعراء میں ممتاز دکھائی دیں گے۔
”وہ چاند جیسا شخص”
جیسا کہ میں نے عر ض کیا ہے کہ شاعر علی شاعر پورے انہماک سے شعبۂ غزل میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔اپنا سب سے پہلا مجموعۂ کلام ”بہارو!اب توآجائو”کے بعد دوسری کاوش ”وہ چاند جیسا شخص”جو طبع ہوچکی ہے جس میں شاعرِ موصوف کی 100سے زائد غزلیں شامل ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ شاعرِ محترم کا یہ دوسرا مجموعۂ غزل ”وہ چاند جیسا شخص ”بھی دنیائے شعر وادب میں توجہ کا مستحق ٹھہرے گا۔ اِس مجموعہ کی شاعری سے آپ شاعرِ محترم کے فکری و فنی ارتقا کے سفر کو ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
اِن کتب کے بعد تو شاعرعلی شاعر کے یکے بعد دیگرے شعری مجموعے شایع ہوتے رہے ہیں جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
بہارو! اب تو آجائو غزل 2006ء
وہ چاند جیسا شخص غزل 2008ء
تروینیاں(اوّلین مجموعہ) تروینی 2009ء
ترے پہلو میں رومانی غزلیں 2011ء
غزل پہلی محبت ہے طویل غزلیں 2011ء
اعلانِ محبت رومانی غزلیں 2012ء
ہم کلامی مختصر غزلیں 2012ء
1بحر100غزلیں تجرباتی غزلیں 2014ء
تقلید(احمد فراز کی زمینوں میں غزلیں)شاعری 2015ء
تروینیاں (اُردو ) 2009ء (پہلا ایڈیشن)
تروینیاں (پنجابی ترجمہ) 2010ء (دوسراایڈیشن)
تروینیاں (سرائیکی ترجمہ) 2017ء (تیسراایڈیشن)
تروینیاں(فارسی ترجمہ) 2017ء (غیرمطبوعہ)
تروینیاں(انگریزی ترجمہ) 2017ء (غیرمطبوعہ)
”بہ حیثیت حمدونعت گو شاعر‘‘:
غزلیہ شاعری کے بعد شاعرعلی شاعر کی سب سے زیادہ تخلیقات حمدونعت گوئی پر مشتمل ہیں: ذیل میں اُن کا اجمالی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے:
”ارمغانِ حمد‘‘ (2005ء):
”ارمغانِ حمد‘‘ شاعر علی شاعر کا حمدیہ مجموعۂ کلام ہے۔ اِس مجموعۂ حمد میں لفظ ”اللہ‘‘ کے 66 اعداد کے حوالے سے 66 حمدیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کے 99 صفاتی ناموں کی مناسبت سے 99 حمدیہ ہائیکو شامل ہیں۔
شاعر علی شاعر”جوان شعرائ” کی صف میں وہ خوش نصیب شاعر ہیں کہ جنہیں اُردو کے حمدیہ ادب میں ایک، دوحمدونعت نہیں بلکہ ایک منفرد حمدیہ مجموعۂ کلام پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔
اُردو کا حمدیہ ادب بلاشبہ ارتقاء پذیر ہے۔ شعبۂ حمد میں ہر نئی حمدیہ کاوش خوش آیند اور خصوصی توّجہ کی مستحق ٹھہرتی ہے۔ یقینا شاعر علی شاعر کا یہ ” اَرمغانِ حمد” بھی حمدیہ ارتقائی منازل میں معاون ثابت ہوگا۔
”ارمغانِ حمد‘‘ کا فلیپ طاہر سلطانی اور تنویر پُھول کی تحریر سے مزیّن ہے ۔ جب کہ ”عرضِ شاعر‘‘ کے حوالے سے شاعر علی شاعرنے اپنی دلی کیفیات بیان کی ہیں۔ ”شاعر علی شاعر کی حمدیہ شاعری‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی نے اپنی بھرپور اور صائب رائے کا برملا اظہار کیا ہے۔ جس کی مدد سے شاعر علی شاعر کی حمدیہ شاعر ی کی تفہیم آسان ہوجاتی ہے۔
”ارمغانِ حمد‘‘ کی حمدیہ شاعری ‘شاعر علی شاعر کے حمدیہ اعتقادات و رجحانات کی عکاس ہے۔ وہ جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت وقدرت اور بڑائی وبزرگی کا اظہار بہت رواں اور سہل انداز سے کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ بڑی سے بڑی بات کو سادہ انداز میں کہنے کے فن سے بہ خوبی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی حمدیہ شاعری اثر پذیر ہے۔
”ارمغانِ حمد‘‘ کے سرِورق کی لوح پر شاعر علی شاعر نے جس سخن وری کی دولتِ لازوال کا اظہار کیا ہے۔ اُس سے آپ حضرات بھی محظوظ ہوں:
ہر سانس پہ لکھوں میں حمدِ جنابِ باری
رحمت سے اپنی مجھ کو ایسی سخن وری دے
192 صفحات کی یہ کتاب 2005 ء میں شائع ہوئی۔ جب کہ تنویر پُھول نے اپنے قطعۂ تاریخ 2004ء میں تحریر کیا ہے۔ اِس کتاب کا ہدیہ200/= روپے ہے۔ ”ارمغانِ حمد‘‘ کو شاعرِ موصوف کے پتے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ارمغانِ حمد کی اشاعت پر شاعر علی شاعرکو ”فروغِ حمد ایوارڈ‘‘ بہ یادِ صبا اکبر آبادی، بزمِ جہانِ حمد، کراچی (طاہر سلطانی) کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔
”صاحبِ خیرِ کثیر ۖ ‘‘ (مارچ2005ء)
”صاحب ِخیرِ کثیر‘‘ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، شاعر علی شاعر کا پہلا نعتیہ مجموعۂ کلام ہے۔ جسے شمع بک ایجنسی اُردو بازار، کراچی نے مارچ 2005ء میں مُجلّد شائع کیا ہے۔ اِس میں کُل 52 نعتیں اور 25 نعتیہ ہائیکو شامل ہیں۔
شاعر علی شاعر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ”ارمغانِ حمد‘‘ (2005) (حمدیہ مجموعۂ کلام) پیش کرنے کے بعد اب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، کی بارگاہِ بے کس پناہ میں ”صاحب خیرِ کثیر‘‘ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، کے عنوانِ جلی سے اپنا ارمغانِ نعتیہ لیے حاضر ہیں۔
”صاحبِ خیرِ کثیر‘‘ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، کے حضور شاعر علی شاعر کا نذرانۂ نعت، عقیدت و محبت کا مُرقّع ہے۔ شاعر علی شاعر نے اپنے دلی جذبات و احساسات کو نعتیہ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ وہ بلا تفریق ہر حلقے کے نعتیہ مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں ۔ اُن کی مشاعروں میں یہ مسلسل شرکت و حاضری باعثِ سعادت و باعثِ ریاضتِ فکروفن ہے۔
شاعرِ موصوف عام فہم انداز میں نہایت سادگی اور روانی سے رواں ،چھوٹی اور مترنّم بحروں میں نعتیں کہتے ہیں۔ سادگی و روانی کا یہ جوہر اُن کی شاعری میں جذب و اثر کانور بھر دیتا ہے۔ اُن کی تمام نعتوں میں جذب و اثر کی کارفرمائی موجود ہے۔
کتاب کے سرِورق صاحبِ خیرِ کثیر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر، پیکرِ انوارصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور اپنے نعتیہ مجموعۂ کلام کی غرض و غایت اِس شعر میں بیان کی ہے:
پیکرِ انوار کی مدحت کے چُن چُن کر گُلاب
مغفرت کے واسطے میں لکھ رہا ہوں یہ کتاب
سرِورق کی پشت پر ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی’ شاعر صدیقی’ شبنم صدیقی’ منصور ملتانی’ سرور جاوید’ طاہرسُلطانی اور نثار علی اُجاگر کی آراء موجود ہیں۔ کتاب کے فلیپ پر شارق بلیاوی اور تنویر پُھول کی تحریر یں موجود ہیں۔ شاعر نے کتاب کا انتساب ازواجِ مطہرات کے نام سے منسوب کیا ہے۔ شاعر علی شاعر کی نعت گوئی / شارق بلیاوی۔ مدحتِ رسول/ منصور ملتانی۔ پیغامِ رب زبانِ شفیع الامم میں ہے/طاہر سلطانی۔ تعارف ِشاعر/ نثار علی اُجاگر نے تحریر کیاہے۔
128 صفحات کی اِس مُجلّد کتاب کی قیمت 150/= روپے ہے۔ یہ کتاب بھی شاعر محترم سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ شاعر علی شاعر بہت تیزی سے شعر کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی نعتیہ شاعری پر مشتمل دوسرا نعتیہ مجموعۂ کلام بھی زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکا ہے ۔
”اِلہام کی بارش‘‘ (2008ء):
”اِلہام کی بارش‘‘ شاعر علی شاعر کا دوسرا نعتیہ مجموعۂ کلام ہے جس میں اُن کی نئی کہی گئی نعتیں شامل ہیں۔ شاعر علی شاعر کا شمار مستقل حمد ونعت کہنے والے شعراء کی صف میں ہوتا ہے ۔ یہ تواتر کے ساتھ نئے انداز و آہنگ میں نعتیں کہہ رہے ہیں۔ اُن کی نئی نعتوں کے مطالعے سے اُن کی فکر کی وسعت اور مضامین کی ندرت کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔
”نور سے نور تک‘‘ (کلیاتِ حمد و نعت):
”نور سے نور تک‘‘ (کلیاتِ حمد و نعت) شاعر علی شاعر کے مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ہے جس میں حمد، نعت، منقبت، مناجات، سلام اور متفرقات شامل ہیں۔ فروری 2012ء راحیل پبلی کیشنز، اُردو بازار، کراچی سے طبع ہوئی۔ 816 صفحات پر محیط اِس کتاب کی قیمت 750/- روپے ہے۔
”نور سے نور تک‘‘ شاعر علی شاعر کی کلیات میں مطبوعہ و غیر مطبوعہ دس مجموعہ ہائے کلام حمد و نعت، مناقب و متفرقات شامل ہیں۔ ارمغانِ حمد، قادرِ مطلق، صاحبِ خیرِ کثیر، الہام کی بارش، قاسمِ دو جہاں، شاخِ نسبت، دل ہے یا مدینہ، دل کا چین مدینہ، انوارِ حرم، عقیدت۔
نور سے نور تک میں لکھنے والے قلم کار میاں راحیل، شاعر علی شاعر، ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی، شاہد بخاری، عشرت رومانی، وقار یوسف عظیمی، طاہر سلطانی، تنویر پھول، پروفیسر آفاق صدیقی، شارق بلیاوی، محمد یوسف ورک، عارف منصور، ڈاکٹر سید صابر علی ہاشمی، پروفیسر رئیس فاطمہ، ڈاکٹر عاصی کرنالی، احمد صغیر صدیقی، مفتی عبدالواحد مسافر، جان کاشمیری، ڈاکٹرشہزاد احمد، ڈاکٹر بشیر عابد، پروفیسر یونس حسن، نسیم انجم، گوہر ملسیانی، جاوید رسول جوہر اشرفی۔
شاعر علی شاعر ہمارے عہد کے ایک متحرک اور فعال نعت کے خدمت گزار ہیں۔ شعبۂ نعت کے لیے آپ روز و شب گزارتے ہیں۔ مشقِ شعر و سخن اور ریاضتِ فکر و فن سے نبرد آزما ہیں۔ وہ دن دور نہیں کہ آپ کا شمار پختہ شعر کہنے والوں میں ہونے لگے گا۔
اہم کتب حمد و نعت و دیگر:
شاعرعلی شاعر کی یکے بعد دیگرے مندرجہ ذیل حمدیہ و نعتیہ کتب زیورِ طباعت سے نہ صرف آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آئی ہیں بلکہ قارئینِ شعروسخن،ناقدینِ فن و ہنراور مشاہیرِ اُردوادب نے پسند کی نظر سے بھی دیکھا ہے۔ملاحظہ ہو:
ارمغانِ حمد (اشاعتِ اوّل) حمد 2005ء
صاحبِ خیرِ کثیر(اشاعتِ اوّل) نعت 2005ء
دل ہے یا مدینہ(اشاعتِ اوّل) نعت 2006ء
انوارِ حرم(اشاعتِ اوّل) نعت 2007ء
عقیدت(اشاعتِ اوّل) منقبت 2007ء
الہام کی بارش(اشاعتِ اوّل) نعت 2008ء
دل کا چین مدینہ(اشاعتِ اوّل) نعت 2008ء
ارمغانِ حمد(اشاعتِ دوم) حمد 2012ء
صاحبِ خیرِ کثیر(اشاعتِ دوم) نعت 2012ء
الہام کی بارش (اشاعتِ دوم) نعت 2012ء
دل ہے یا مدینہ(اشاعتِ دوم) نعت 2012ء
دل کا چین مدینہ(اشاعتِ دوم) نعت 2012ء
انوارِ حرم(اشاعتِ دوم) نعت 2012ء
عقیدت(اشاعتِ دوم) منقبت 2012ء
قادرِ مطلق حمد 2012ء
قاسمِ دو جہاں نعت 2012ء
نور سے نور تک کلیاتِ حمد و نعت 2012ء
بجھے چراغوں کی روشنی (مرحوم نعت گو شعراء کا منتخب نعتیہ کلام)
نعتِ مصطفی (انتخابِ نعت)
نورِ مصطفی (منتخب نعتیں)
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام (سلام کا مجموعہ)
نور کی برسات (انتخابِ نعت)
مناقبِ عطار (انتخابِ منقبت)
اربعینِ شدّت (40 احادیث)
اقوالِ حضرت علی (فرموداتِ علی)
”بہ حیثیت صحافی‘‘:
آپ نے رنگِ ادب پبلی کیشنز،کراچی کا اشاعتی ادارہ بنانے سے پہلے”رنگِ ادب ”کے نام سے ایک کتابی سلسلہ شروع کیاتھا جو ہنوز اپنی آب وتاب سے شایع ہو رہاہے۔ اِس رسالے نے کافی نشیب و فراز دیکھے مگر شاعرعلی شاعر نے ہمت نہیں ہاری اور آج اُن کی محنت کا ثمر ایک تناور شجر کی صورت اُن کے سامنے ہے۔رنگِ ادب کا جائزہ پیشِ خدمت ہے:
کتابی سلسلہ ”رنگِ ادب‘‘ کراچی
سہ ماہی ”رنگِ ادب” کراچی بھی شاعر علی شاعرکی ادبی و شعری خدمات کا بہترین حوالہ ہے۔ سہ ماہی رنگِ ادب میں منتخب واہم ادبی تحریروں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ ادبی دنیا میں رنگِ ادب کی حیثیت بالکل جداگانہ و منفرد ہے۔ اِس میں بہ یک وقت تمام اصنافِ نظم و نثر کو شائع کیا جاتا ہے۔
رنگِ ادب ،کراچی اپنے دامن میں مختلف رنگوں کی دنیا کو سمیٹے ہوئے ہے۔ جس کی وجہ سے یہ کتابی سلسلہ توّجہ کا مستحق ہے ۔سہ ماہی رنگِ ادب ،رنگِ ادب پبلی کیشنز کراچی کے زیرِ اہتمام شائع کیا جاتا ہے۔شاعر علی شاعر مدیرِ رنگِ ادب ہو نے کے ساتھ ساتھ رنگِ ادب پبلی کیشنز کے منیجنگ ڈائر یکٹر بھی ہیں۔ جو رنگِ ادب پبلی کیشنز کے پلیٹ فارم سے کئی کتب شائع کر چکے ہیں۔
شاعر علی شاعرنے معروف شاعر تنویر پُھول کی شراکت و معاونت میں رنگِ ادب کا کتابی سلسلہ شروع کیا۔ تنویر پُھول کا وسیع تجربہ اور شاعر علی شاعرکی شبانہ روز کی محنتِ شاقہ نے رنگِ ادب میں مختلف النّوع رنگ بھرے ہیں۔ رنگِ ادب کا ہر شمارہ شعروادب کی رنگین دنیا کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
جناب تنویر پھول کے مستقل امریکا چلے جانے کی وجہ سے تنویر پھول نے رنگِ ادب کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ جس کے بعد جناب منصورملتانی مدیرِ اعلیٰ ہوئے، چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر منصور ملتانی کو رنگِ ادب سے لاتعلق کیا گیا جس کے بعد ڈاکٹر اختر ہاشمی اِس کے مدیرِ اعلیٰ ہوئے،جب کہ فضا اعظمی سرپرستِ اعلیٰ اور سعیدالظفر صدیقی سرپرست رہے،کچھ غلط فہمیوں کی بنا پر رنگِ ادب کی اشاعت ملتوی کرنا پڑی مگر بہت جلد شاعرعلی شاعر نے سنبھالا لیا اورتمام نام ور شخصیات کو ایک طرف کرکے اِسے تنِ تنہا اپنے بل بوتے پر ازسرِنو ترتیب دے کر شایع کرنا شروع کیا جو آج تک کام یابی سے جاری و ساری ہے۔
سہ ماہی رنگِ ادب، کراچی کے اب تک 45 شمارے شائع ہوچکے ہیں۔ ہرشمارہ انفرادی شان کا مالک ہے۔ آپ پورے شمارے کا مطالعہ کیجیے’ آپ کو کہیں بھی بے کیفی کا احساس نہیں ہوگا۔
رنگِ ادب کا حُسنِ آغازا للہ اور اُس کے رسولِ پاک، صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمد و ثناء سے ہوتا ہے۔ اِس کے بعد غزل گوئی ‘ افسانہ نگاری’ ڈراما’سفرنامے’دیگرزبانوں سے اُردوتراجم’انشائیے،تنقیدی و تحقیقی مضامین، ادبی جرائداور کتابوں کا تعارف’ ادبی خبریں’ مختلف شُعراء کی غزلیں اور دیگر بہت سے موضوعات سے متعلق مفید معلومات اِس کتابی سلسلہ کا لازمہ و خاصہ ہیں۔ رنگِ ادب، کراچی کے شائع شدہ 10 خصوصی شمارے ایک نظر میں ملاحظہ کیجیے:
رنگِ ادب (نعت نمبر۔ مدینہ ردیف میں نعتیں)
رنگِ ادب (غزل نمبر)
رنگِ ادب (شاعر صدیقی نمبر)
رنگِ ادب (پروفیسرڈاکٹر طاہر سعید ہارون نمبر)
رنگِ ادب (عارف شفیق نمبر)
رنگِ ادب (رفیع الدین رازنمبر)
رنگِ ادب (مولانا اقبال سہیل نمبر)
رنگِ ادب (فلسفۂ خوشی نمبر)(پہلا ایڈیشن)
رنگِ ادب (فلسفۂ خوشی نمبر)(دوسراایڈیشن)
رنگِ ادب (پروفیسرجاذب قریشی نمبر)
تیاری کے مراحل میں
رنگِ ادب (غالب نمبر)
رنگِ ادب (نسائی ادب نمبر)
رنگِ ادب، کراچی کا سلسلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ رنگِ ادب ‘ادبی دنیا میں مختلف رنگ بھرتا رہے گا۔
رنگِ ادب، کراچی کا غزل نمبر اہمیت کا حامل ہے۔ کم صفحات کے باوجود غزل نمبر کی انفرادیت اپنی جگہ مُسلّم ہے۔ سابقہ غزل نمبر کی روایت میں ایک اور غزل نمبر کا بہترین اضافہ ہے۔
رنگِ ادب، کراچی کا ”شاعر صدیقی نمبر‘‘ جناب شاعر صدیقی کی ادبی خدمات و تعارف کا جان دار حوالہ ہے ۔ جس میں شاعر صدیقی کی شخصیت اور خدمات پر مختلف اہلِ علم کے سیر حاصل مضامین شامل ہیںجب کہ ”پروفیسر ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نمبر‘‘ بھی رنگِ ادب کا یاد گار حوالہ ہے۔
اِن کے علاوہ رفیع الدین راز نمبر، نعت نمبر، مولانا اقبال سہیل نمبر، فلسفۂ خوشی نمبر (پہلا ایڈیشن)، فلسفۂ خوشی نمبر (دوسرا ایڈیشن) اور پروفیسرجاذب قریشی نمبراپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔
شاعرعلی شاعر نے رنگِ ادب کے تازہ شمارے میں اعلانات شایع کیے ہیں جن میں رنگِ ادب غالب نمبر اور نسائی ادب نمبر کی تیاری کی نوید سنائی ہے۔ عن قریب رنگِ ادب کا غالب نمبر شائع کیا جا رہاہے جو اُردو ادب کی تاریخ میں اضافہ ہوگا اور اُردو ادب کے دامن کو مالا مال کرے گا۔
”خدمات کا اعتراف‘‘:
ادبی تنظیم انجمن شائقینِ اُردو ادب، کراچی نے شاعر علی شاعر کی ادبی خدمات کے اعتراف میں اُنہیں ”شاعرِ رنگین نوا‘‘ کے خطاب سے نوازا ہے۔ کئی نام ور شعرا نے اُن کی عمدہ شاعری اورشاعرانہ صلاحتوں کو دیکھتے ہوئے اُنھیں مختلف خطابات”شاعرِ جمالیات”اور شاعرِحسن” عطا کیے ہیں، مگر شاعرعلی شاعر نے آج تک اپنے قلم سے اِن خطابات کو لکھا نہیں ہے۔ یہ اُن کا عجزوانکسارہے۔ اِس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اُن کو نام و نموداور نمائش کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ وہ کام ، محنت اوردیانت دارانہ تخلیق پر توجہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کا کام روز و شب سامنے آرہا ہے اور پسند کیا جا رہاہے ۔ مختلف تنظیموں اوراداروں کی جانب سے شاعرعلی شاعر کی ادبی اور حمدیہ ونعتیہ خدمات کے حوالے سے اُنہیں ایوارڈز اورشیلڈز سے بھی نوازا جاتارہاہے ۔ ادبی خدمات کے ضمن میںوہ اب تک آٹھ ایوارڈز حاصل کرچکے ہیں:
1۔ حلقۂ دانش، کراچی ایوارڈ برائے حسُن کارکردگی
2۔ قومی تعلیمی تحریک، پاکستان اعزازی شیلڈ
3۔ بزمِ جہان حمد، کراچی فروغِ حمد ایوارڈ
4۔ ماہنامہ ساتھی، کراچی بہترین شاعرکا ایوارڈ 2004ء
5 ۔ بزمِ شمیم ادب، کراچی اعزازی شیلڈ
6 ۔ ماہنامہ ساتھی، کراچی بہترین شاعر کا ایوارڈ 2006ء
7۔ ماہنامہ ساتھی، کراچی بہترین شاعرکا ایوارڈ 2007ء
8۔ انجمن عندلیبانِ ریاضِ رسول پہلا طرحی نعتیہ مشاعرہ (یادگاری شیلڈ) 2014ء
شعبۂ حمد ونعت اورادبی کاوشوںمیں منہمک اوربے چین رہنے والے شاعر علی شاعر کے لیے ابھی بہت سارے ایوارڈز منتظر ہیں۔ اِن شعبہ جات میںکام کرنے والوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اہلِ دل حضرات دست یاب ہوجاتے ہیں ۔ جوکام کرنے والوں کی ہرطرح سے حوصلہ افزائی ومسلسل پذیرائی کرتے رہتے ہیں۔
”شاعرعلی شاعرپر تحقیقی و تجزیاتی کام‘‘:
جب شاعرعلی شاعر نے اُردو ادب کی اِس قدر خدمت کی ہے تو لازمی ہے کہ اُن کے فن اور شخصیت پر بھی قلم اُٹھایا جانا چاہیے تھا۔ لہٰذا اُن کے فن اور شخصیت پر دو کام پایہ تکمیل تک پہنچ کر کتابی صورت میں بھی شائع ہو چکے ہیں اور تین تحقیقی کام ہو رہے ہیں۔جو دو کام ہو چکے ہیں اُن کی تفصیل ملاحظہ ہو:
١۔ شاعر علی شاعر کی افسانہ نگاری مقالہ برائے ایم اے (اُردو+ بی ایڈ)
مقالہ نگار: کنیز فاطمہ
نگرانِ مقالہ: پروفیسر ڈاکٹر عبدالکریم خالد(صدر شعبۂ اُردو)
یونی ورسٹی: یونی ورسٹی آف ایجوکیشن، لاہور
سیشن: 2009ء …2012ء
٢۔ شاعر علی شاعر کی تخلیقی جہتیں غیر رسمی مقالہ
مقالہ نگار : شفیق الرحمن الہ آبادی (میلسی)
مشیرِمقالہ : پروفیسر شاہدہ فیاض
پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، میلسی
سنِ اشاعت :2013ء
تین کام جو جاری ہیں اُن میں سے ایک ”شاعرعلی شاعر بہ حیثیت افسانہ نگار‘‘ مقالہ برائے ایم فل (اُردو) ہے۔ جو محترمہ ماریہ خیرالدین ایک پرائیویٹ یونی ورسٹی، ملتان سے کر رہی ہیں، دوسراتحقیقی مقالہ برائے ایم فل (اُردو) بہ عنوان ”رنگِ ادب کی ادبی خدمات‘‘ فیصل آباد یونی ورسٹی سے محمد سلیمان کر رہے ہیں اورتیسرا تحقیقی کام ایم فِل (اُردو) جناب ڈاکٹر طارق ہاشمی، جی سی یونی ورسٹی،فیصل آباد سے بہ عنوان ”شاعرعلی شاعر کی شعری جہتیں‘‘ کرا رہے ہیں۔ یہ ریسرچ ورک جیسے ہی پایہ تکمیل کو پہنچے اور طالبِ علموں کو ڈگریاں ایوارڈز ہوئیں ویسے ہی کتابی صورت میں شائع ہو جائیں گے۔
”بہ حیثیت اعلیٰ عہدے دار‘‘:
شاعرعلی شاعر کی بہ حیثیت صحافی بھی ایک شناخت ہے۔ اُنھوں نے اب تک جن عہدوں پر کام کیا ہے وہ بھی پیش ہیں اور جن پر عہدِ موجود میں کا م کر رہے ہیں اُن کی تفصیل بھی پیشِ خدمت ہے ملاحظہ ہو:
سابقہ عہدے:
(١) فن کدہ اکیڈمی (پاکستان) اعزازی وائس پرنسپل
(٢) روزنامہ دیانت، کراچی انچارج ادبی صفحہ
(٣) مبصر ماہ نامہ، دنیائے ادب،کراچی
(٤) مبصرِ بیلاگ سہ ماہی بیلاگ، کراچی
موجودہ عہدے:
(١) بزمِ رنگِ اَدب (پاکستان) بانی وصدر
(٢) کتابی سلسلہ،عالمی رنگِ اَدب، کراچی مدیر(اعزازی)
(٣) رنگِ اَدب پبلی کیشنز،کراچی منیجنگ ڈائریکٹر
”بہ حیثیت نصاب ساز‘‘
شاعر علی شاعر نے بچو ں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی کافی کام کیا ہے جن سے آج بھی نونہالانِ وطن مستفید ہو رہے ہیں اور آنے والی نسلیں بھی استفادہ کرتی رہیں گی۔اِن کتب میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
معلوماتِ علامہ اقبال سوالاً جواباً 2008ء
معلوماتِ عامہ سوالاً جواباً(مختلف موضوعات پر10کتابیں) 2010ء
معلومات ہی معلومات سوالاً جواباً (مختلف موضوعات پرجامع کتاب) 2011ء
باغبانِ اُردو اُردو لازمی چھٹی جماعت کے لیے 2013ء
باغبانِ اُردو اُردو لازمی ساتویں جماعت کے لیے 2013ء
باغبانِ اُردو اُردو لازمی آٹھویں جماعت کے لیے زیرِ تصنیف
مزید معلومات اور اشاعتی کام:
یہاں میں شاعر صاحب کے حوالے سے یہ بات بھی کہنا چاہوں گا کہ وہ شعبۂ حمد و نعت کے لیے بہت مُخلص ہیں۔ حمد و نعت کے فروغ کے لیے بہت اچھے جذبات رکھتے ہیں۔ شعبۂ نعت پر دیگر کام کرنے والوں کے درمیان ایک اچھے اور سلجھے ہوئے کام کرنے والے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ وہ مستقبل قریب میں ”نعت پر بہت سا کام کرنا چاہتے ہیں۔اِس کے علاوہ بھی اپنے کام ہوں یاپرائے وہ مزید مختلف حمدیہ ونعتیہ کام کے سلسلے میں بے چین وبے قرار رہتے ہیں کہ اُن کی اشاعت کو کس طرح سے ممکن بنایا جاسکے ۔یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے”نعت انسائیکلوپیڈیا‘‘ (انتخابِ نعت) کتاب شائع کرنے کے بعد ”ایک سو ایک پاکستانی نعت گو شعراء‘‘ (تذکرہ و انتخاب) کو کتابی شکل میں شایع کیا۔
آج کل جناب منظر عارفی سے ”مناقبِ خلفائے راشدین‘‘ پر کام کروارہے ہیں جو عن قریب کتابی شکل میں سامنے آنے والا ہے۔نعت کے سو رنگ پر پنجاب کے ایک ریسرچ اسکالرجناب زاہد ہمایوں رنگِ ادب پبلی کیشنز،کراچی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ایک سو ایک پاکستانی نعت گو شعرا کی دوسری اور تیسری جلد پر بھی کام کروانا چاہتے ہیں۔ اِن کے علاوہ راجا رشید محمود صاحب کی کلیاتِ حمد شائع کی ہے جو دنیائے اُردو ادب میں اوّلین کلیاتِ حمد کا اعزاز حاصل کرنے والی کتاب بن گئی ہے۔ رفیع الدین راز اور اعجاز رحمانی کے نعتیہ مجموعے اور کلیات بھی شائع کر رہے ہیں۔
شاعر علی شاعر حمدیہ و نعتیہ کتب کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی خوشہ چینی میں مصروف رہتے ہیں ۔جناب سہیل غازی پوری ”شعری خزانہ‘‘ کے نام سے 15000اشعار پرمشتمل ایک انتخاب تیار کر رہے ہیں جس کی تین جلدیں 5000 + 5000 + 5000 اشعار کا احاطہ کریں گی۔ اعجاز بابوخان رنگِ ادب پبلیکیشنزکے لیے اُردو اہلِ قلم کا تذکرہ لکھ رہے ہیں جس کی کئی جلدیں شائع ہوں گی۔حال ہی میں ”سومشہورنعتیں‘‘ کے نام سے یوسف راہی چاٹگامی کا ایک نعتیہ انتخاب شائع کیا ہے اورمقصود حسین نوشاہی کی مرتب کردہ کتاب ”سومشہورحمدیں‘‘ بھی تیاری کے مراحل میں ہے۔ ایسے ایمان افروز اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، سے پُر کاموں کو دیکھ کر شاعر علی شاعر کی درازیِ عمر اور بلند اقبالی کے لیے دل سے ڈھیروں دعائیں نکلتی ہیں ۔
اﷲ رحیم(جل جلالہ’)…نبی کریم ( صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم)…کی نعتِ عظیم… …کے طفیل…شاعر علی شاعر … کو دنیا جہان میں سرخ رُو کرے۔ آمین۔