نیشنل لائبریری کا قیام 1962ء میں معرضِ وجود میں آیا لیکن باقاعدہ طور پر لائبریری نے 1968ء میں کام کرنا شروع کیا. نیشنل لائبریری کے قیام کا مقصد قوم کے ادبی ورثہ کو ایک باقاعدہ قانون کے تحت محفوظ کرنا ہے. نیشنل لائبریری کے ڈائریکٹر سید غیور حسین نے کہا کہ ہر ملک کا یہ قانون ہے کہ جب بھی کوئی ادیب دنیا کے کسی موضوع پر کتاب لکھے گا تو وہ اس کی کاپیاں نیشنل لائبریری میں جمع کروائے گا. اسی طرح پاکستان میں بھی اس قانون پر عمل ہو رہا ہے. اس وقت پاکستان کی نیشنل لائبریری میں لاکھوں کی تعداد میں ادبی ورثہ محفوظ ہے. سید غیور حسین نے مزید کہا کہ نیشنل لائبریری کا یہ فرض ہے کہ قوم کے ہر فرد کو ادراک ہو کہ سالانہ بنیاد پر ملک میں کِس موضوع پر کتنی کتابیں چھپی ہیں. کیوں کہ یہیں سے قوم کے افراد کے رجحانات کا پتا چلتا ہے. علاوہ ازیں ہمارا مقصد یہ ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ان کتابوں سے استفادہ حاصل کر سکیں. انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سائنس اور تحقیق کے موضوع پر بہت ہی کم تعداد میں کتب شائع ہوتی ہیں جس کی وجہسے اس میدان میں ہم غیر ملکی کتابوں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں. اکثر ادیب مختلف اجوہات کی بنا پر اپنی کتب کا ریکارڈ جمع نہیں کروا پاتے. فکشن اور افسانوں کی کتابوں کے حوالے سے سید غیور حسین نے کہا کہ ایسی کتابوں کا معاشرے میں اپنا الگ مقام ہے اور ان کی ہی وجہ ہے نئے خیالات و تصورات جنم لیتے ہیں.
