روز کی طرح اُس دن بھی فیس بک لاگ اِن کیا تو سامنے اپنے محترم اور بہت پیارے فرخ سہیل گوئندی صاحب کی پوسٹ نے یک دم ایک سکوت طاری کر دیا۔ سرگودہا سکول کی کچھ عرصہ پرانی ایک فوٹو تھی جس میں فرخ سہیل گوئندی صاحب، اپنے والد، والدہ اور بھائی اعجاز گوئندی کے ساتھ کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ ساتھ لکھا تھا:
’’ میرے ابا جی چلے گئے۔My father left me!‘‘
یہ افسوس ناک پوسٹ پڑھتے ہی میں نے خود کو 2013ء میں پایا۔ 30 اکتوبر 2013ء کا سورج میرے سر سے والد کا سایہ ہٹا کر طلوع ہواتھا۔ یہی مشیت ایزدی تھی۔ میرے سامنے درویش صفت والد مرحوم و مغفور کی میت پڑی تھی اور میں نے اُن کے دونوں پاؤں اپنے دونوں ہاتھوں سے تھامے ہوئے تھے۔ میرا سر بھی والد محترم کے پاؤں پر تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ شاید دنیا ختم ہو چکی ہے۔۔۔
دوست احباب اور عزیز و اقارب، جو بھی مجھے تسلی دینے گلے لگتا، مجھے روتا ہی پاتا۔ میرے والد مرحوم میرے بہت اچھے دوست ثابت ہوئے تھے۔ آج جب میں گوئندی صاحب کی طرف دیکھتا ہوں تو وہی محبت اور عقیدت کا جذبہ سر اُٹھاتا ہے۔ گوئندی صاحب کے سر پر سائبان نہیں رہا اوربقول اُن کے، والد یعقوب گوئندی، فرخ سہیل گوئندی کے ’’بیٹے‘‘ تھے۔ درویش صفت یعقوب گوئندی صاحب کی وفات کا سن کر دلی دُکھ ہوا۔ ممکن ہے تمام تر حقیقت کے باوجود فرخ سہیل گوئندی صاحب کو یہ خبر جھوٹی لگتی ہو کہ اُن کے دوست، حقیقی خیر خوا اور والد محترم اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ والد دنیا کی واحد ہستی، جو آپ کو خود سے زیادہ کامیاب دیکھ کر خوشی اور فخر محسوس کرتی ہے۔
میں نے اپنے ہاتھ سے اپنے والد محترم کی میت کو لحد میں اتارا اور آج اس صدمہ کو چھ سال سے زائد کا عرصہ گزر نے کے باوجود ہم بھائی بہنوں کا ذہن تسلیم کرنے سے قاصر ہے کہ ہمارے والد صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ممکن ہے گوئندی صاحب کے دل کے کسی گوشے میں بھی یہ تمنا مچل رہی ہو کہ جب وہ ترکی سے پاکستان واپس جائیں، تو دروازے میں اپنے والد یعقوب گوئندی کو اپنا منتظر پائیں۔ یا کسی روز گھر کے دروازے پر دستک ہو تو آگے اُن کے والد یعقوب گوئندی مسکرا کر فرخ سہیل گوئندی کو گلے لگا لیں۔ ماں باپ کے بچھڑنے کا دُکھ اولاد کے لیے ساری زندگی کا دُکھ ہوتا ہے۔ آج بھی کبھی، زندگی کے جھمیلوں میں، کسی وقت اچانک مجھے میرے والد صاحب کی یاد آجائے تو خود بخود ایک گہرا سانس لینا مجبوری بن جاتا ہے۔
پاکستان کے نامور شاعر اور ادیب ماجد صدیقی صاحب کے ساتھ اُن کے آخری دنوں میں بہت محبت اور شفقت کا وقت گزرا۔ میرے والد صاحب کی وفات کے بعد اُن کا فون آیا تو بہت افسوس کرنے لگے۔ ماجد صدیقی صاحب کو میرے والد مرحوم سے بھی خاص محبت تھی۔ انہوں نے میرے والد محترم سے اپنی ایک ملاقات کا حال اس شعر میں یوں بیان کیا ہے:
وہ والد تھے مگر لگتے تھے ثاقب! تیرے ہمجولی،
مجھے ملنے وہ آئے تو سراپا مسکراہٹ تھے
رہا ہو عمر بھر شاید یہی طورِ حیات اُن کا،
ہر اپنے آشنا کے واسطے وہ جگمگاہٹ تھے
ایک اورروز فون پر میرا غم بانٹنے کے لیے ماجد صدیقی صاحب اپنے والد کی وفات کا ذکر کرنے لگے کہ جب ماضی میں، ماجد صدیقی صاحب کی عمر کوئی 47 سال ہو گی، تو بے نظیر بھٹو شہید ہسپتال، راولپنڈی (اُس وقت سینٹرل ہسپتال، راولپنڈی) میں اُن کے والد صاحب وفات پا گئے۔ تب جب 2015ء میں مجھ سے بات کر رہے تھے تو اُس وقت اُن کی عمرکوئی 77 سال کے لگ بھگ تھی، تب سے کچھ روز قبل انہیں اُسی ہسپتال میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں اُن سے کھڑا نہ ہوا گیا اور گھبراہٹ میں ایک جگہ بیٹھ گئے۔ کچھ دیر سستانے کے بعد ہی اُٹھنے کے قابل ہوئے۔ گویا ایک 77 سال کے عمر رسیدہ شخص کو بھی جب اپنے باپ کی وفات یاد آتی ہے تو وہ کچھ دیر کے لیے صدمے میں ضرور جاتا ہے۔ خدا ماجد صدیقی صاحب کا اگلا جہان اچھا رکھے، کہ جو ہمارے اس عظیم صدمہ میں شریک ہوئے۔
یہ محض اتفاق ہے کہ آج کا دن پوری دنیا میں ’’یومِ والد‘‘ یا ’’فادرز ڈے‘‘ کے طور پر منایا جارہا ہے اور میں کائنات کی عظیم ہستی یعنی ’’والد محترم‘‘ کے حوالے سے تاثرات ضبطِ تحریر میں لا رہا ہوں۔ باپ کا دن یا ماں کا دن، کیا صرف کوئی ایک خاص دن ہوسکتا ہے؟ اس مقدس رشتہ کے لیے صرف ایک دن مقرر کیا ہی نہیں جا سکتا۔ کم از کم مشرق میں تو واقعی نا ممکن ہے کہ ہماری صبح ہوتی ہی ماں باپ کا چہرہ دیکھ کر ہے۔
ابھی کچھ روز پہلے فرخ سہیل گوئندی نے اپنے چاہنے والوں کے لیے، ’’خوشبو سے گفتگو‘‘ کے عنوان سے خوشبو سے ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ ’’گوئندی میڈیا نیٹ ورک‘‘ کے زیرِ اہتمام ترکی اور پاکستان کے انٹرنیٹ مواصلاتی رابطے پر یعقوب گوئندی مرحوم کا انٹرویو نشر کیا گیا تھا۔ کیا پیاری مسکراہٹ کے ساتھ یعقوب گوئندی صاحب، فرخ سہیل گوئندی صاحب کے مداحوں کا دل جیت رہے تھے۔ میرے کانوں میں فرخ صاحب کے وہ الفاظ گونج رہے ہیں کہ ’’ابا جی سے اس انٹرویو کے دوران، ہمارے مابین چھ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ حائل ہے۔‘‘
مگرمیں اب دیکھتا ہوں تو یعقوب گوئندی صاحب ہم سب سے کوسوں دور چلے گئے ہیں لیکن اُتنا ہی ہمارے دلوں کے بہت قریب بھی ہیں۔ یعقوب گوئندی صاحب کرونا کے حوالے سے نہ صرف احتیاط کر رہے تھے بلکہ دوست احباب اور اپنے چاہنے والوں کے لیے بھی اس احتیاط کے متمنی تھے۔ اللہ تعالی اُن کی پاک روح کی بخشش فرمائیں اور اُن کو اگلے جہان میں بھی اُسی مسکراہٹ کے ساتھ رکھیں، جس مسکراہٹ کے ساتھ ہم اُنہیں یہاں دنیا میں دیکھا کرتے تھے، آمین۔ میں تاحال فرخ سہیل گوئندی صاحب سے فون پر تعزیت نہیں کر سکا کیوں کہ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اُن کے اس عظیم صدمہ پر اُن کو کیسے تسلی دوں، اس لیے صرف میسج پر ہی رابطہ کر سکا۔ اللہ پاک فرخ سہیل گوئندی، آپ کے تمام اہلِ خانہ اور ’’جمہوری پبلیکیشنز، لاہور‘‘ کے جملہ رفقائے کار کو اس بڑے صدمے کو برداشت کرنے کی ہمت اور حوصلہ عطا فرمائیں، آمین
والسلام