یہ فروری 1980ء کی بات ہے۔ میں نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر/ ایڈیٹر کی حیثیت سے کراچی آفس سے ٹرانسفر ہو کر نیا نیا اسلام آباد آیا تھا۔ ان دنوں ابوالعلیٰ رضی الرحمان صاحب اس مقتدر ادارے کے مینجنگ ڈائریکٹر تھے۔ ان کے ساتھ ہونے والی پہلی میٹنگ میں یہ طے ہوا کہ جس طرح میں نے کراچی یونیورسٹی، سندھ یونیورسٹی اور بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلروں سے ملاقات کر کے ان کی جامعات کی ضروریاتِ کتب کی فہرست مرتب کی ہے۔ اسی طرح فوری طور پر پشاور جاکر وہاں کے شیخ الجامعہ سے بالمشافہ گفتگو کروں اور انہیں مختلف شعبوں کے لیے جس جس نوعیت کی کتابیں درکار ہیں، ان کی جامع فہرست مرتب کر لوں۔ چنانچہ میں نے علی صاحب کی یہ ہدایت اپنے پلے باندھی اور سیدھا نچلی منزل میں واقع جناب محمد اسلم راؤ صاحب کے پاس آگیا اور ان سے کہنے لگا:
’’ایم ڈی صاحب نے پشاور جانے کی ڈیوٹی لگا دی ہے۔‘‘
’’تو پھر چلے جائیں۔ اسی بہانے پشاور گھوم آئیں گے۔‘‘ راؤ صاحب نے میری ہمت بندھاتے ہوئے کہا.
’’مگر معاملہ رہائش کا ہے۔‘‘ میں نے انہیں بتایا۔
’’تو پھر کسی اچھے ہوٹل میں انتظام کیے دیتے ہیں۔‘‘ راؤ صاحب نے نہایت صائب مشورہ دیا۔
’’وہ تو خیر ٹھیک ہے، مگر میں ہوٹل میں ٹھہرنے سے بہت گھبراتا ہوں اور پشاور میں کوئی رشتہ دار، دوست بھی نہیں ہے۔‘‘
محمد اسلم راؤ صاحب نے نہایت اطمینان بخش لہجے میں فرمایا:
’’نو پرابلم! وہاں ہمارا ذیلی دفتر ہے، نذیر یوسف زئی اس کے انچارج ہیں۔ میں انہیں فون کر دیتا ہوں۔‘‘ اور یہ کہہ کر میرے محترم دوست راؤ صاحب نے پشاور فون کیا اور ساری حقیقتِ حال بتائی۔ پھر ریسور پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھ سے پوچھا:
’’آپ کل کس وقت جائیں گے؟‘‘
میں نے انہیں صبح آٹھ بجے روانہ ہونے کا وقت بتایا۔
چنانچہ راؤ صاحب نے نذیر یوسف زئی صاحب کو میرے پروگرام سے مطلع کر دیا۔ پھر ان کے دفتر کا محل وقوع بھی مجھے بتایا۔ نیز ، ڈرائیور کو بلوا کر یہ ہدایت بھی دے دی کہ وہ مجھے ٹھیک آٹھ بجے پیرودھائی لے جاکر پشاور والی ویگن میں بٹھا دے۔
دوسرے دن جب میں پشاور پہنچ کر یونیورسٹی کیمپس سے پہلے والے بس اسٹینڈ پر اترا تو لمبے تڑنگے سے ایک نوجوان کو دیکھا۔ وہ دونوں ہاتھوں کو اپنے سینے پر رکھے ہوئے ایک کتاب پکڑے ہوئے تھے۔ سرخ رنگ والے ٹائٹل پر مبنی یہ میرا ناول ’’کونپل‘‘ تھا (جس کا تعارف محترم فیض احمد فیض مرحوم نے لکھا تھا) ظاہر ہے، نذیر یوسف زئی کو پہچاننے میں ذرا بھی دقت نہیں ہوئی۔ پھر میں ان کا مہمان تھا اور وہ پشتو روایات کا مکمل سراپا بنے، میری آؤ بھگت میں مصروف تھے۔
جب میں رات کو ان کی رہائش گاہ کے ایک کشادہ سے کمرے میں عبادت و ریاضت میں مصروف ہوا تو ایسا محسوس ہوا کہ کمرہ بقعۂ نور بنا ہوا ہے. ایک عجیب کیف کا عالم طاری تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے پاکیزہ ارواح اپنے فیضان سے مجھ ہیچ مندان اور گنہگار شخص کو حلقہ بگوش کرنا چاہ رہی ہوں۔ جیسے وہ اس کمرے میں مقیم ایک مہمان کو میزبانی کے شرف سے مستفید کرنے کی متمنی ہوں۔ وہ ساری رات پشاور کے سٹیلائٹ ٹاؤن میں واقع نذیر یوسف زئی کے مکان میں جس راحتِ جاں، جس سکونِ قلبی اور جس طمانیت دماغی کے ساتھ بسر ہوئی، وہ میری زندگی کا سرمایۂ عظیم ہے۔ صبح جب میں فجر کی نماز کی ادائیگی کے لیے اٹھا تو عشام ِجاں پر ایک کیف آگیں اثر طاری تھا۔ بایں ہمہ، میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ نذیر یوسف زئی سے میری ملاقات کل قبل از دوپہر ہوئی تھی۔ اس وقت سے لے کر رات کے طعام تک وہ میرے ساتھ ساتھ رہے۔ اس دوران میں نے اس لمبے تڑنگے شخص میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو اس کی ’’روحانیت ‘‘ کی چغلی کھاتی ہو۔۔۔
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
ناشتے کے بعد نذیر صاحب سیدھے آفس چلے گئے تاکہ جامعہ پشاور کے شیخ الجامعہ جناب صاحبزادہ صاحب سے میرے لیے ملاقات کا وقت لے لیں۔ ان کے جانے کے بعد میں سبز و شاداب کشادہ لان میں بیٹھ کر اخبار بینی میں مصروف ہو گیا۔ نذیر صاحب کی بیگم صاحبہ اندرونِ حویلی سے ملازم کے ہاتھوں ماکولات و مشروبات مسلسل بھجواتی رہیں۔ ظاہر ہے فروری کے سرد موسم اور یخ بستہ ہواؤں میں خشک میوے اور قہوے کی گرم پیالیاں مشام جاں کو فرحت و انبساط کے ساتھ ساتھ توانائی بھی عطا کر رہی تھیں۔
ابھی میں ان لوازمات سے گرمی ٔجاں کا بندوبست کر ہی رہا تھا کہ نذیر یوسف زئی صاحب براجمان ہو گئے۔ ایک میزبان کی حیثیت سے پہلے حال احوال دریافت کیا، پھر کہنے لگے:
’’جناب صاحبزادہ صاحب سے صبح ہی صبح فون پر میری بات ہوئی، وہ پشاور سے لورا لائی جانے کے لیے نکل رہے تھے۔ وہاں ایک خصوصی پروگرام میں انہیں شرکت کرنی ہے۔ لہٰذا آج ان سے ملاقات ممکن نہیں۔ کل دس بجے دن کا وقت مقرر ہوا ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر نذیر یوسف زئی صاحب رُکے۔ پھر یوں گویا ہوئے:
’’میرا خیال ہے، سارا دن یوں بیٹھے بیٹھے آپ خاصی بوریت محسوس کریں گے۔ دفتر جاکر بیٹھنا بھی لاحاصل ہے۔ وہاں سوائے کتابوں اور فائلوں کے اور کیا ہے؟ اور آپ ان ہی چیزوں کے درمیان اپنا وقت گزارتے ہیں۔ لہٰذا میں نے سوچا ہے کہ اپنے والد محترم کو یونیورسٹی کیمپس سے بلوا لوں۔ وہ آپ ہی کے مزاج کے آدمی ہیں۔‘‘
میں نے کہا کہ ’’یہ تو اچھی بات ہے۔ آپ والد بزرگوار کو ضرور بلوا لیں۔‘‘ نذیر صاحب اسی وقت روانہ ہو گئے اور میں قہوہ کی چکسیاں لیتا ہوا اخبارات کی چھوٹی موٹی سرخیاں پڑھ رہا تھا۔ مجھے وقت کا کچھ پتہ نہ چلا۔ معاً کھڑ کھڑاہٹ سی محسوس ہوئی، نظر اٹھاکر دیکھا۔ مکان کے مین گیٹ سے ایک تانگہ اندر داخل ہو رہا تھا۔ پھر، وہ لان کے کنارے رُکا۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے ایک صاحب نیچے اترے اور میری ہی طرف بڑھے۔ میں نے دیکھا۔۔۔ وہ چھریرے بدن کے لانبے سے قد کے آدمی تھے۔ رنگت سانولی تھی۔ خش خشی داڑھی سفید و سیاہ بالوں پر مشتمل تھی۔ وہ صاحب سفید شلوار کُرتے میں ملبوس تھے۔ سر پر پشاوری کلاہ پہنے ہوئے تھے۔ قریب آتے ہی نہایت مسحور کن انداز میں موصوف نے السلام علیکم کہا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ پھر وہ مجھے ساتھ لیے ہوئے قریب رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئے۔ وہ نہایت شستہ اور رواں اُردو میں کہہ رہے تھے:
’’ کچھ ہی دیر پہلے مجھے نذیر کا پیغام ملا تھا۔ دفتر میں مصروفیت کی وجہ سے وہ ادھر نہ آسکا اور تانگہ میرے گھر بھیج دیا۔ مجھے آپ سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ موقع غنیمت سمجھا اور فوراً ہی آپ کے پاس حاضر ہو گیا ۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ رُکے اور کسی ملازم کو آواز دی۔ جب وہ قریب آیا تو حسب روایات فواکحات اور مشروبات لانے کی ہدایت کی۔ پھر موصوف سے گفتگو کا سلسلہ چل پڑا۔ دلنشیں انداز میں باتیں کرنے والے یہ صاحب یوں تو دیکھنے میں نہایت سیدھے سادے نظر آرہے تھے، مگر بہ باطن علم کا بحر ذخار تھے۔ پشتو ان کی مادری زبان تھی۔ عربی، فارسی، اُردو اور انگریزی میں یدطولیٰ رکھتے تھے ۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے ہوئے تھے۔ ریاست ٹونک کے معالج خاص حکیم برکات احمد مولانا معین الدین اجمیری کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ ان کا نام نامی تھا، مولانا محمد اسرائیل!
میں نے مولانا سے دریافت کیا:
’’ کیا آپ پشاور یونیورسٹی کیمپس میں ایک استاد کی حیثیت سے مقیم ہیں؟‘‘
’’نہیں بھائی! میں اور استاد؟ بس، ان لوگوں کے لیے ایک کام کر گیا تھا اور اس کے انعام میں حال ہی میں مجھے ایک کوارٹر مستقلاً دے دیا گیا ہے۔‘‘
’’وہ کام کس نوعیت کا تھا؟‘‘ میں اسرائیل صاحب سے پوچھ بیٹھا۔
’’دراصل جامعہ پشاور کے اربابِ حل و عقد کی دیرینہ خواہش تھی کہ علامہ شبلی نعمانی اور مولانا سلیمان ندوی کی تحریر کردہ ’’سیرۃ النبیﷺ‘‘ کی چھ جلدوں کا پشتو زبان میں ترجمہ کر دوں۔ سو، میں نے یہ کام دن رات ایک کر کے مکمل کیا اور اسی مقتدر ترجمے کی برکت ہے کہ اہلِ علم و ادب کی بستی میں براجمان ہوں۔ ورنہ میں تو نذیر ہی کے ساتھ رہتا چلا آرہا تھا۔‘‘
مولانا اتنا کہہ کر جیسے ہی رکے، میں نے فوراً ہی ایک سوال داغا:
’’ کیا آپ یہاں سامنے والے کمرے میں تو نہیں رہتے تھے؟‘‘
مولانا مسکرائے اور یوں گویا ہوئے:
’’ کیا معاملہ ہے؟ نذیر نے آپ کو کیا اسی کمرے میں ٹھہرایا ہے!‘‘
’’جی ہاں! میں اسی کمرے میں مقیم ہوں اور۔۔۔ قبلہ اپنا ہاتھ تو بڑھا دیں۔‘‘ میں نے مولانا سے درخواست کی ۔ جیسے ہی موصوف نے اپنا دست مبارک بڑھایا، میں نے اپنے دونوں گنہگار ہاتھوں سے تھاما اور اشک آلود آنکھوں سے انہیں چومنے لگا۔
’’رات کا نورانی منظر صاف بتا رہا تھا کہ آپ کسی اہم سلسلے سے وابستہ ہیں۔ اور پھر سیرۃ النبیﷺ کی چھ جلدوں کا پشتو میں ترجمہ___!‘‘ میں اتنا ہی کہہ سکا تھا کہ مولانا محمد اسرائیل نے میرے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیے، گویا کہہ رہے ہوں ؎
تُو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
صوبہ سرحد کے ایک قدیم قصبے صوابی سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد اسرائیل کی ابتدائی تعلیم مروجہ اصول کے مطابق محلے کی مسجدمیں ہوئی تھی۔ بعد ازاں، موصوف نے مولانا محمد صاحب سے عربی صرف و نحو کی کتابیں سبقاً پڑھیں۔ اسی دوران مولانا شریف اللہ صاحب سے کافیہ، شرح ملا جامی وغیرہ کا درس بھی لیا۔ چوں کہ مولانا کے والدین چاہتے تھے کہ ان کا لڑکا اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرے، اسی خیال کے پیش نظر انہیں پندرہ، سولہ برس کی عمر میں پشاور سے دہلی بھیج دیا۔
دہلی ہر زمانے میں علم و ادب کا مرکز رہی ہے۔ نوجوان مولانا محمد اسرائیل نے اس علمی دیار سے خوب خوب استفادہ کیا۔ مبدئے فیض سے انہیں سیکھنے کا جذبہ ودیعت ہوا تھا۔ پھر وہ ذہن ِرسا رکھتے تھے۔ اخذ کا مادہ بلا کا تھا۔ نیز، وہ دور ایسے کریم النفس اساتذہ کا تھا جن کی صحبت میں بیٹھ کر طالب علم زندگی کے جملہ اسرارورموز سے واقف ہو جاتا تھا۔
دہلی میں مولانا محمد اسرائیل نے مشہور زمانہ فتح پوری مدرسے میں درجۂ چہارم میں داخلہ لیا۔ ازاں بعد، خیر آبادی مکتبۂ فکر سے وابستہ ہوئے۔ مزید تعلیم کے لیے موصوف اجمیر چلے گئے اور وہاں علامہ معین الدین اجمیری کی خدمت میں رہ کر اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کی۔
دہلی، اجمیر اور دیگر مراکز ِعلم و ادب میں سالہا سال رہ کر مولانا محمد اسرائیل نے جہاں زیورِ علم سے خود کو آراستہ و پیراستہ کیا، وہاں اپنے محترم اساتذہ کے ارشاد کی تعمیل میں کلاسیکی ادب کی شرحیں بھی لکھیں۔ ان میں ’’شرح افقل المعین‘‘، ’’شرح شفاء‘‘ ،’’شرح فصوص الحکم‘‘خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا محمد اسرائیل کی عمر ہنوز بیس سال کی تھی، لیکن ان کی علمی استعداد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مولانا معین الدین اجمیری جیسے جید عالم انہیں اپنے قریب بٹھاتے اور بسا اوقات اپنے غیاب میں انہیں اپنی وضع صدارت پر رکھتے۔ علاوہ ازیں مولانا محمد اسرائیل صاحب نے بچوں کے لیے بھی متعدد کتابیں لکھیں۔
قیام پاکستان کے بعد مولانا اپنے وطن پشاور واپس آئے۔ پھر تو ان کا ہر ایک لمحہ کشت ِعلم و عرفان کی آبیاری کے لیے وقف ہو گیا۔ پہلے تو آپ نے مشہور زمانہ فلاسفر ارسطو کی نامی گرامی کتاب ’’Poetics‘‘ کا پشتو زبان میں ترجمہ کیا جسے پشتو اکیڈمی نے ’’کتابُ الشعر‘‘ کے نام سے نہایت اہتمام سے شائع کیا۔ اس کا پیش لفظ پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کرنل آفریدی صاحب نے لکھا تھا اور ترجمے کی بہت تعریف کی تھی۔
مولانا محمد اسرائیل صاحب نے جس لگن، جذبے اور علمی استعداد سے ارسطو کی اس کتاب کا پشتو میں ترجمہ کیا تھا، اس کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک عرصے سے یہ ایم اے ( پشتو ) میں داخل نصاب ہے۔ آپ نے شعبۂ پشتو کی درخواست پر مذکورہ ترجمہ (کتابُ الشعر) دو سال تک پڑھایا بھی تھا۔
مولانا محمد اسرائیل کا نہایت گراں قدر کارنامہ ’’سیرۃ النبیﷺ ‘‘ کی چھ جلدوں کا پشتو میں نہایت کامیاب اور مؤثر ترجمہ کیا ہے۔ نامور محقق، ادیب اور پشتو زبان کے فاضل پروفیسر پریشان خٹک نے پشتو اکیڈمی کے نگران کی حیثیت سے جو مندرجہ ذیل بات کہی ہے، اس کی قدر و اہمیت سے انکار ناممکن ہے، موصوف لکھتے ہیں: ’’میں پشتو اکیڈمی کے ایک نگراں کی حیثیت سے یہ کام (سیرۃ النبیﷺ، کا پشتو ترجمہ ) پشتو بولنے والی دنیا کو بطور سوغات انتہائی فخر اور خوشی سے پیش کرتا ہوں۔‘‘
افسوس کہ ایسی مقتدر شخصیت چند برس پہلے اس دنیا سے رخصت ہو کر اسی ارفع و الیٰ مقام پر پہنچ گئی جہاں علامہ شبلی نعمانیؒ اور مولانا سلیمان ندویؒ سیرت نگار کی حیثیت سے پہلے ہی پہنچ چکے ہیں۔
آج مولانا محمد اسرائیلؒ ہمارے درمیان موجود نہیں، لیکن ’’صاحبِ کتاب‘‘ کی حیثیت سے ’’روحانی صدا‘‘ کے ذریعے ہمیں بتا رہے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں قلم و قرطاس کے سہارے کیا کیا خدمات انجام دے گئے۔
اس مضمون کے مصنف ڈاکٹر محمود الرحمٰنؒ مرحوم کے بارے میں یہاں مزید پڑھا جا سکتا ہے.