داستان سفرِ کوہستان (دوسرا حصہ) – زین العابدین شیخ

دوسرے دن کا اغاز ایک روشن چمک دار صبح کے ساتھ ہوا۔ آسمان پر بادل کی ایک ٹکڑی بھی نہیں تھی. رات کو ہونے والی بارش نے سب کچھ دھو کر پہلے سے بھی زیادہ نکھار دیا تھا۔

اسی فلک سے اترتا ہے یہ اندھیرا بھی
یہ روشنی بھی اسی آسماں سے آتی ہے

کل کے سفر کی تھکاوٹ بالکل ختم ہوچکی تھی اور دوست تروتازہ اور آگے کی جانب جانے کے لیے تیار تھے۔ سورج نکلنے کے بعد ہم کمرے سے نکل آئے۔ سورج کی تمازت اچھی لگ رہی تھی حالاں کہ ایک دن پہلے… صرف ایک دن پہلے سورج کا پارا دیکھ کر ہمارا پارا بھی بڑھ جاتا تھا. میزبان نے ناشتہ بہت ہی الگ اور بہت ہی شاندار کروایا۔ خدا اُن کے رزق میں اضافہ کرے۔ پراٹھے اور جنگلی شہد وہ بھی بالکل خالص حالت میں موم سمیت دیا گیا۔کچھ تو ڈرتے ہوئے زیادہ نہیں کھا رہے تھے کہ کہیں شہد زیادہ کھانے سے پیٹ کی خرابی نہ ہوجائے اور پھر جگہ جگہ رکتے رہیں اور…
مگر فلیجل ہو ساتھ تو کیا غم!
اس لیے میں نے تو کھایا بلکہ گنجائش سے بھی زیادہ کھایا کیوں کہ ایسی چیز دوبارہ پتا نہیں کب قسمت میں ملے۔ ناشتہ کرتے ہی مورو کی طرف مارچ کیا گیا۔ نقارہ بجایا اور مورو کی خوب صورت چراہ گاہ کی طرف نکل پڑے۔ مورو کا ٹریک چڑھائی در چڑھائی سے بھرا ہوا ہے اور چڑھائی چڑھنا تو دور کی بات، چڑھائی کا سُن کر ہی سانس اکھڑنا شروع ہوجاتی ہے. مگر کیا کریں مورو تک جانے کے لیے یہ سب کرنا اور سہنا تو پڑتا ہی ہے۔ صبح کے وقت جب ٹریک شروع کیا جائے تو جسم چلنے کا عادی نہیں ہوتا. اس وقت ٹریک کرنا مشکل لگتا ہے. سانس کا پھُولنا بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے مگر کچھ دیر بعد یہ نارمل ہوجاتا ہے۔ (ویسے یہ نارمل تو نہیں مگر کم ضرور ہوجاتا ہے.)
نورالہادی اور مبین پالس بھائی ہمارے ساتھ تھے۔ مورو تک کا ٹریک بہت خوب صورت ہے۔ ٹریک کے شروع میں ہی گھنا جنگل آجاتا ہے جس میں جا بجا نغمے سناتے چشمے چلتے ہیں۔ دیار کے قدآوار درخت، جو کہ کئی جگہ پر اتنے گھنے ہوجاتے ہیں، مانو جیسے اوپر چھت بنا دی ہو، جو سورج کی روشنی کو روکے رکھے۔ جب کسی مقام پر ہوا کا گزر ہوتا ہے تو ہوا کے چلنے سے سیٹیاں بج اٹھتی ہے۔

جنگل کی دھوپ چھاؤں ہی جنگل کا حسن ہے
سایوں کو بھی قبول کرو روشنی کے ساتھ

خاموش اور پرسکون جنگل کا سکوت ہماری آوازوں سے ٹوٹتا تھا۔ قدم اوپر کو اٹھتے جارہے تھے. کسی موڑ ہر برپارو گاؤں کی خوب صورت آبادی نظر آجاتی، جو کہ ہم سے دور ہوتی جارہی تھی. مگر جامعہ مسجد کی لوہے کی چادر سے بنی نارنجی رنگ کی چھت دور سے بھی نظر آتی تھی. پھر ایک موڑ مڑتے ہی جنگل اپنی خاموشیوں میں لے جاتا۔ ہم گم ہوجاتے، جنگل کی خاموشیوں میں کھوجاتے. پھر ایک موڑ پر پرندے ایسے چہچہاتے کہ جیسے ہمیں خوش آمدید کہتے ہوں۔ جابجا بکھرے پتے ماحول کو رومانیت سے بھر رہے تھے۔ جنگل اتنا خاموش کہ سرگوشی بھی سنی جاسکے۔ کسی مقام پر اتنی خاموشی ہوتی کہ خشک پتوں پر قدم پڑنے سے آنے والی آواز بھی محسوس ہوتی تھی۔ فراز اور میں ایک ساتھ تھے، باقی سب آگے تھے۔ فراز بھائی نے احساس دلایا کہ ہم جنگل میں اکیلے رہ گئے ہیں:

ارے کیوں ڈر رہے ہو جنگل سے
یہ کوئی آدمی کی بستی ہے؟

ہم دونوں نے باقی سب کو کچھ ہی دیر میں ایک بہتے چشمے کے پاس پکڑ لیا اور پھر ایک ساتھ بجانب مورو چل پڑے۔ تقریباً آدھے راستے میں ایک جگہ معین کی گئی ہے جو کہ ایک چھوٹا سا میدان ہے۔ جنگل سے گزرتے ہوئے اچانک سے یہ میدان آجاتا ہے۔ جہاں رکنے اور سستانے کے لیے لکڑی کو کاٹ کر اس کے ”صوفہ سیٹ‘‘ لگائے گئے ہیں. یہاں کچھ دیر آرام کرکے مسافر اوپر مورو کی طرف جاتے ہیں۔ یہاں رک کر دور سے مانند لکیر بہتے پالس نالے اور پالس پار پٹن کے پہاڑوں کا خوب صورت نظارہ کرنا بھی ضروری ہے. ایک طرف جنگل نظر آتا ہے۔ ایک طرف بہادر سر اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے، جس کی چوٹی پر پڑی برف ایسے چمکتی ہے جیسے ہیرا تراش کر رکھا گیا ہو۔

میری نگاہِ شوق بھی کچھ کم نہیں مگر
پھر بھی ترا شباب، ترا ہی شباب ہے

یہاں رک کر پینے کا بندوست کیا گیا۔ (پینے سے مراد پانی اور انرجائل ہی لیا جائے.)
”پی کر‘‘ انرجی ریفل کی گئی اور سفر دوبارہ شروع کردیا گیا۔ کچھ ہی دیر میں پھر سے جنگل شروع ہوگیا۔ میں اور فراز بھائی ایک ساتھ تھے. مجھے راستے کا علم تھا اس لیے پیچھے رہ جانے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ہم دونوں رُکتے رکاتے، تصاویر کھینچتے ہوئے مورو کی طرف جارہے تھے۔ اچانک ایک جگہ پر مبین بھائی ہمارے انتظار میں پریشان بیٹھے نظر آئے۔ میرے پاس آتے ہی مبین بھائی نے پریشانی بھرے لہجے میں بتایا کہ آفتاب گم ہوگیا ہے!!! انہوں نے بتایا کہ وہ ان سے آگے تھا. باقی سب آرام کے لیے رکے تو آفتاب کو بہت ڈھونڈا مگر وہ مل نہیں رہا اور اس کا فون بھی بند ہے۔
یہ بات بہت زیادہ پریشان کن تھی. کیوں کہ پہاڑوں میں اور جنگلوں میں بھٹک جانا خطرناک ترین بات ہے۔ مبین بھائی جتنے پریشان تھے اس سے کہیں زیادہ ہم بھی تھے. مبین بھائی نے راستے میں آنی والی آبادیوں میں کافی لوگوں سے رابطہ کیا مگر بے سود۔۔۔ بہت وقت اسی پریشانی میں گزرا اور پھر اچانک مبین پالس کو فون آیا۔ میں بالکل پاس ہی تھا. سکرین پر نام تھا ”آفتاب، لاہور‘‘ یہ نام پڑھ کر حوصلہ بندھا۔ بات ہوئی تو یہ پتا لگا کہ وہ ہم سے آگے کہیں جنگل میں ہی ہے مگر کس جگہ یہ معلوم نہی ہوپایا۔ یہ ایک نئی پریشانی تھی. بقول ایک خاص دوست ”اے نوا کٹا کھُل گیا اے.‘‘
کیوں کہ اس راستے پر کوئی بندہ نہی تھا اور آفتاب صاحب اکیلے جنگل میں شاید جناب یہ سوچ کر گئے تھے کہ کوئی لیلیٰ اُن کے لیے یہ شعر کہتی ہوئی آئے گی:

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی مل بیٹھیں گے دیوانے دو

جنابِ آفتاب سے گزارش کی گئی کہ ”تسی اپنے پیراں دی مٹی نہیں چھڈنی، اسی تہانوں لبھ لواں گے.‘‘‌(آپ نے اپنے پاؤن کی مٹی نہیں‌چھوڑنی، ہم کود آپ کو ڈھونڈ لیں گے.) مبین صاحب کی قیادت میں مشن ”آفتاب کی تلاش‘‘ شروع کیا گیا۔ کچھ دیر کی محنت ومشقت کے بعد ابھی ہم کسی clue تک بھی نہیں پہنچے تھے کہ مبین بھائی کے فون پر کسی نامعلوم نمبر سے کال آئی اور بتایا گیا:
”آپ کا ساتھی ہمیں مل گیا ہے. آپ آگے والی آبادی تک آئیں، ہم آپ کے ساتھی کو لے کر وہیں پہنچتے ہیں۔‘‘
ٹھیک دس منٹ بعد ہم مقررہ مقام پر پہنچ گئے اور اب آفتاب کا انتظار تھا۔ کچھ ہی دیر بعد درختوں کے جھنڈ سے آفتاب صاحب فلمی انداز میں نمودار ہوئے۔ دو آدمی بندوق لیے جناب کے آگے اور دو پیچھے، خود درمیان میں جناب کچھ کچھ پریشان سے چلتے آرہے تھے اور ان پانچوں کے پیچھے بھی چار پانچ لوگ آرہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی سیاستدان ریلی کی صورت میں آرہا ہو۔
ہم سب کو دیکھ کر اُن کو کچھ اطمینان ہوا اور ہماری بھی جان میں جان آئی. مسجد میں ہمارے پاس تقریباً پورا گاؤں ہی تھا پہلے لسی پلائی گئی اور چائے پلانے کی بھی پوری کوشش کی گئی جو کہ بہت مشکل سے ناکام کی گئی. مسجد کے صحن سے نظارہ بہت پیارا تھا. بہادر سر یہاں سے بھی پوری آب و تاب سے نظر آرہا تھا۔ ہم کافی دیر یہاں رکے رہے۔ بندوق کے ساتھ مختلف پوز بنا بنا کر سب نے تصاویر بنائیں۔ مقامی لوگ یہ سب دیکھ کر یقینا ہمیں بے وقوف ہی سمجھتے ہوں گے، جو اسلحہ کے ساتھ ویڈیوز اور تصاویر کے لیے اتنا وقت لگا رہے ہیں.
اس مقام سے مورو زیادہ دور نہیں ہے. بیگ پہنے گئے اور پھر سے چلنا شروع کردیا گیا۔ راستے میں ایک جگہ دو نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جو ایک کٹے ہوئے بڑے درخت کو رسیوں کی مدد سے کھینچ کر نیچے لے جا رہے تھے۔ ہم ان کی محنت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے جو یہ وزنی لکڑی نیچے لے جانے کے لیے کررہے تھے۔ ان کی ہمت دیکھ کر سانوں تھوڑی جئی شرم آئی اور اب ہم نے سپیڈ پکڑی جو کافی دیر تک بنی رہی اور تقریباً دوپہر کے وقت ہم مورو کے بالکل قریب پہنچ گئے۔ اتنے قریب کہ بس ایک چھوٹی سی چڑھائی چڑھیں اور مورو کے خوب صورت جنت نظیر میدان میں پہنچ جائیں۔ یہاں ایک آخری بار بریک کی گئی اور اس وقفہ کے بعد اگلا پڑاؤ ہمارا مورو میدان ہی تھا۔
مورو مالی جس کا میدان گھاس کی چادر سے ڈھکا ہوا ہے اور اس گھاس میں رنگ برنگے پھول ہیں. اس کی گھاس و پھولوں کی دعوت اڑاتے خوش و خرم جانور جو اپنی گردن اٹھا کر نئے آنے والے مہمان پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور پھر سے اپنی گردن جھکا کر کھانے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ ان کے چھوٹے بچے اپنے جھنڈ کے پاس ہی اٹکھیلیاں کرتے رہتے ہیں۔ اطراف میں موجود گلیشئر کی برف پگھل کر اس کے میدان سیراب کرتی ہے. تین طرف موجود جنگل گلے میں پڑے ہار کی طرح نظر آتا ہے اور ایک طرف سر اٹھائے بہادر سر کا خوب صورت پہاڑ نظارے کو تقویت بخشتا ہے۔

ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن
زباں میں آنکھ نہیں آنکھ میں زبان نہیں

مورو میں ایک ٹورنامنٹ ہورہا ہے اور ہم وہیں چلتے ہیں، سب ممبران نے فیصلہ سنایا۔ میں بھی یہی سوچ رہا تھا کیوں کہ میں بھی ٹورنامنٹ دیکھنا چاہتا تھا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ جب ہرے میدانوں میں پہاڑوں کے سائے تلے گیند باز بھاگتا ہوا گیند پھینکتا ہے تو کیا منظر تخلیق ہوتا ہے۔ یا جب کوئی بلے باز اپنی زور دار شاٹ سے گیند کو باؤنڈری سے باہر پھیکنتا ہے تو تماشائی مورو کا سکوت توڑتے ہوئے اسے کیسے داد دیتے ہوں گے۔ جب گیند باز دوڑ رہا ہوتا ہے تو اس کے پیچھے بہادر سر کا پہاڑ کیا منظر دیتا ہے اور بہادر سر کے آگے گیند باز کتنا چھوٹا نظر آتا ہوگا۔
کرکٹ میلہ ہم سے کافی دور تھا اور اب تھکاوٹ بھی حاوی تھی. دماغ آرام کرنے کو کہہ رہا تھا مگر دل کہتا تھا یہ سب تمہارے لیے ہی تو سجا ہے، قسمت میں دوبارہ یہ آئے یا نا آئے۔ موقع بھی ہے، دستور بھی ہے۔ دل و دماغ کی کشمکش میں دل کی آواز کو ہی لبیک کہہ کر ٹورنامنٹ کی راہ پر چل دیے۔ آسمان جو کچھ دیر پہلے صاف تھا، اب بادلوں کے ساتھ ہمارا استقبال کررہا تھا اور ارادے بھی خطرناک لگ رہے تھے:

بدلے ہوئے سے لگتے ہیں اب موسموں کے رنگ
پڑتا ہے آسمان کا سایا زمین پر

اس دن کی قیام گاہ یہاں سے دور تھی تو رفتار پکڑی اور میچ کی جگہ کی طرف چل دیے۔ ابھی آدھے راستے پر ہی پہنچے تھے کہ مبین بھائی بر پارو والے مل گئے. (مبین بھائی کے گھر پچھلے سال ہم دو تین دن ٹھہرے تھے.)
مبین بھائی بہت مزے دار آدمی ہیں۔ خوش اخلاق، خوش مزاج اور بہت محبت کرنے والے۔ یہاں ان سے ملنا حیران کن تھا. مجھے امید نہی تھی، مجھے یہی پتا لگا تھا کہہ یہ مانسہرہ میں ہیں مگر یہ ہنستے مسکراتے ہمارے سامنے کھڑے تھے۔ ہم نے ملتے ہی انہیں گلہ کیا کہ جناب آپ کی برپارو میں غیر موجودگی ہمیں مہنگی پڑ گئی. آپ وہاں ہوتے تو ہم آپ کے حجرے میں ایک رات ٹھہرتے اور پرانی یادوں کو تازہ کرتے، مگر یہ نہی ہوسکا۔ مبین بھائی کو روکنے کا من تھا مگر شام سے پہلے ان کا نیچے پہنچنا ضروری تھا۔ تو ان کو تکلیف نہی دی اور انہیں الوداع کرتے ہوئے ہم میچ کی جگہ کی طرف چل دیے۔ کرکٹ گراؤنڈ تک پہنچتے پہنچتے موسم بدل گیا اور بادل برسنے کو تیار لگے اور پھر ہوا بھی ایسا ہی. ابھی ایک اوور بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ بارش برس پڑی۔ ہم نےمیچ کو الوداع کیا بلکہ ہم سے پہلے تماشائیوں نے الوداع کیا۔ کھلاڑی شاید میچ روکنے کے موڈ میں نہیں تھے، وہ کھیلتے رہے مگر ہم چل دیے۔
نورالہادی بھائی یہاں سے واپس جانا چاہ رہے تھے اور ہم انہیں آگے لے کر جانا چاہ رہے تھے مگر ان کا واپسی پر اصرار تھا تو انہیں الوداع کیا۔ (بعد میں ایک دوست سے پتا لگا کہ ہادی بھائی نے شہر جانا تھا مگر ہمارے لیے وہ آج نہیں گئے. خدا ان کو خوش رکھے۔)
بھیگتے ہوئے، بھاگتے ہوئے ہم اپنی آج کی قیام گاہ تک پہنچ گئے۔ بارش رک گئی اور بادل چھٹ گئے۔ کرکٹ ٹورنامنٹ کی وجہ سے یہاں کچھ چہل پہل زیادہ تھی. کافی مہمان نظر آرہے تھے تو ہم نے مقامی میزبان کو تنگ کرنے کی بجائے اپنا کیمپ کھولنے کا فیصلہ کیا اور مسجد کے برآمدے میں اپنا کیمپ لگا لیا۔ (اس بات پر کافی بحث ہوئی مگر ہم کیمپ کے لیے بضد رہے.)
فرحان اور میں دونوں sunset lovers ہیں تو ہم نے شام کی رنگینیاں دیکھنے کے لیے مسجد کے صحن میں ڈیرا لگا لیا۔ ڈوبتے سورج کے رنگوں سے نہایا ہوا مورو دیکھا. اُفق پر پھیلی لالی نے منظر کو حسین سے حسین تر کر دیا تھا۔ تاریکی ہونے تک ہم وہیں بیٹھے رہے۔

تیسرے دن کی شروعات بھیگی بھیگی سی ہوئی. رات کی پرسکون نیند سے سب دوست خود کو تروتازہ محسوس کررہے تھے مگر اٹھتے ہی سب سے پہلے جس چیز نے استقبال کیا وہ بارش تھی۔ اس دن مورو میدان سے اوپر جلکھن خیل گلی کو پار کرکے جھیلوں تک یا جھیلوں کے پاس کسی مقام تک کیمپ کا ارادہ تھا مگر دن کے آغاز میں ہی بارش شروع ہوگئی اور بارش رکتی نظر نہیں آرہی تھی۔ جوں جوں بارش کا دورانیہ بڑھتا جاتا، یوں یوں ہمارے پروگرام پر بے یقینی کے سائے منڈلاتے ہوئے نظر آتے۔ (ویسے بارش کی وجہ سے سامنے والا پہاڑ نظر نہیں آرہا تھا.) بارش کی وجہ سے ہم تو مسجد کی چھت کے نیچے سے نہیں نکل پارہے تھے، آگے کہاں رکتے.

ستایا آج مناسب جگہ پہ بارش نے
اسی بہانے ٹھہر جائیں اس کا گھر ہے یہاں

اسی وقت ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جس کی صدارت فرحان صاحب کی۔ کیوں کہ کل رات سے یہی وہ واحد آدمی تھے جو ملنے والے ہر آدمی سے راستہ اور راستے میں آنے والے ہر مقام کا پوچھتے پائے گئے۔ باقی سب تو اپنی دنیا میں مگن تھے۔ جناب کل شام کو دوربین سے ایسے راستہ کھوجتے پائے گئے تھے کہ جیسے ہم کل کلائمبنگ کرنے والے ہوں. مورو میدان میں ہونے والے کرکٹ ٹورنامنٹ کی وجہ سے ہمیں یہ محسوس ہورہا تھا کہ آگے جانے کے لیے کوئی بندہ دستیاب نہیں ہوگا۔ فرحان بھائی راستہ دیکھ کر اسے سمجھنے کی کوشش میں تھے اور ہم گائیڈ کے ساتھ جانے کی امید میں پرسکون بیٹھے انجوائے کررہے تھے۔ بادلوں کے تیور دیکھ کر مجھے یہی لگ رہا تھا کہ آج کا دن یہیں گزر جائے گا۔ لگتا ہے بادلوں کو حکم یہی تھا:

اے ابرِ کرم! آج اتنا برس کہ یہ مسافر جا نہ سکیں۔۔۔

ویسے یہاں رکنے میں بھی قباحت کویہ نا تھی. خوب صورت جگہ، پیارا موسم، ٹھنڈی ہوا اور پرسکون ماحول سب کچھ تو تھا۔ دو تین گھنٹے تک جاری موسلا دھار بارش اچانک سے رکی اور ایک دو منٹ میں ہی سورج کی روشنی پہاڑوں پر چھا گئی. چند لمحات پہلے جو پہاڑ نظر نہی آتے تھے، اب ایسے تھے جیسے ہاتھ بڑھاؤ اور چھُو لو۔ میدان دھل کر اور نکھری ہوئی لگ رہی تھی۔

نظر اور وسعت نظر معلوم
اتنی محدود کائنات نہیں

دھوپ ایسی تھی جیسے جنوری کے مہینے میں بارش کے بعد ہمیں میدانی علاقے میں ملتی ہے۔ روشنی تیز اور گرماہٹ بہت مزےدار۔ مالٹے اور نمک کی خواہش جاگ اٹھی تھی حالاں کہ سیزن آم کا تھا۔ دھوپ کے نکلتے ہی پہلے خود کو پھر سامان کو دھوپ لگوائی گئی اور پھر اگلا کام وہی کیا جو صبح اٹھتے ہی کرنا ہوتا ہے مگر بارش نے کرنے نہیں دیا تھا۔ پانی کا بندوست کیا اور ضروری حاجب سے فراغت پائی. ہاتھ منہ دھو کر کپڑے بدلے اور اگلے پڑاؤ کی تیاری شروع کی۔ مبین بھائی صبح سے نظر نہیں آرہے تھے جب کہ ان کا نظر آنا بہت ضروری تھا کیوں کہ انہیں یا تو خود ہمارے ساتھ جانا تھا یا کوئی بندہ ہمارے ساتھ بھیجنا تھا، جو ہمیں گلی پار چھوڑ آتا۔ بچوں کے ہاتھ پیغام بھی بھجوایا مگر مبین بھائی غائب تھے اور غائب ہی رہے۔ کافی دیر کے بعد مبین بھائی ہاتھ میں ناشتہ پکڑے ہماری طرف آتے ہوئے نظر آئے تو یاد آیا کہ ہم نے تو ناشتہ بھی نہی کیا ہوا. ناشتہ میں انڈے، پراٹھے، مکھن روٹی اور چائے تھی اور لسی بھی آپشن میں تھی جو اس لیے نہیں پی کہ حلال نشہ کرکے جھومتے ہوئے جانا مناسب نہیں۔
مسجد کے ساتھ ہی بیاک (گاؤں کے لوگوں کے مل بیٹھنے کی جگہ) ہے۔ بیاک میں کافی رش تھا. بہت سے لوگ میچ دیکھنے کی غرض سے آئے ہوئے تھے۔ وہ جگہ جہاں چند ہی لوگ ہوتے ہیں، وہاں بیٹھنے کی جگہ بھی کم تھی۔ ہمیں دیکھ کر لوگوں نے ہمارے بیٹھنے کے لیے جگہ خالی کی اور ہمیں اپنے درمیان میں بٹھایا۔ بیاک مجھے ایک سال پیچھے لے گیا۔ یہی اسی جگہ پر پہنچتے ہوئے پچھلی بار بھی بارش ہوگئی تھی. بیاک میں قدم رکھتے ساتھ ہی بارش ختم ہوئی تھی اور قوس و قزح کے رنگ بکھر گئے تھے. ایسا لگا کہ جیسے ابھی سورج غروب ہورہا ہو اور میں غروب ہوتے سورج کی روشنیوں کو اپنے اندر اترتے محسوس کرتا ہوا اسی جگہ، اسی پل میں جی رہا ہوں۔
مبین کی آواز مجھے ان یادوں سے نکال کر آج کے دن میں لے آئی۔ زین بھائی ساتھ جانے کے لیے کوئی بندہ نہی مل رہا. مبین نے آتے ہی یہ بری خبر سنائی اور ساتھ دو آپشنز بھی دیں۔
زین بھائی اس طرح کریں کہ آپ کو راستہ سمجھا دیتے ہیں اور اگلے گاؤں میں فون کردیتے ہیں. وہاں سے آپ کو ایک بندہ آگے تک لے جائے گا۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ آپ آج یہیں انتظار کریں، کل تک کوئی نا کوئی بندہ مل ہی جائے گا۔ جب کبھی امتحانات کے دوران جواب نا آتا ہو تو میں پہلے آپشن کو چنتا ہوں جو کبھی غلط اور کبھی ٹھیک ہوہی جاتا ہے۔ اسی مسلمہ اصول کے تحت یہاں بھی پہلی آپشن چنی اور بیگز پہن کر تیار ہوگئے۔ مورو واسیوں کو ہم نے تو بیاک میں ہی الوداع کہا مگر ان میں سے کچھ لوگ ہمیں الوداع کرنے کافی دور تلک ہمارے ساتھ چلے آئے۔
مبین بھائی نے ہمیں یہاں سے روانہ کیا اور ہمیں ہونا ہی تھا، سو ہم ہو گئے. سیدھا سیدھا راستہ ایک دم سے اوپر کو اٹھنے لگا اور مورو کا سبزہ زار نیچے ہوتا گیا۔ بیگ میں موجود بہت سارے وزن کے ساتھ چڑھائی چڑھنا مشکل ہورہا تھا اور یہ مسلسل چڑھائی تھی جو ہمیں چڑھنا ہی تھی۔ جیسے جیسے ہم بلندی کی طرف جاتے رہے تھے ویسے ویسے نظارے بھی بدلتے جاتے تھے۔ مورو میدان کچھ چڑھائی کے بعد ایک الگ منظر پیش کرتا اور بہادر سر پہاڑ بالکل پاس محسوس ہورہا تھا۔ گلی کو ٹارگٹ بنا کر چل رہے تھے. اتنی چڑھائی چڑھنے کے بعد مورو میدان تو ہم سے دور ہوگیا تھا مگر گلی نزدیک نہی آئی تھی۔ وہ ابھی بھی ہمیں دور ہی لگتی تھی۔

دیکھوں ہوں تجھ کو دور سے بیٹھا ہزار کوس
عینک نہ چاہئے نہ یہاں دوربین مجھے

کچھ دیر بعد ایک چھوٹا سا، بہت چھوٹا سا میدان آیا جس میں ایک بڑا درخت تھا، جس کا تنا بہت ہی بڑا تھا۔ کچھ دنبے گھومتے پھررہے تھے جو ہمیں آنکھیں نکال کر ایسے دیکھ رہے تھے کہ جیسے ہمارے ساتھ کوئی پرانی مخاصمت ہو۔ یہاں سے آگے صرف پتھر ہی پتھر تھے. ایسے کہ جیسے پتھروں کا سیلاب اُمڈ آیا ہو۔ ان پتھروں پر پاؤں ٹکاتے ہوئے، پھولے ہوئے سانس کے ساتھ اوپر کی طرف دیکھا تو ایسے لگا کہ جیسے گلی ہم پر ہنس کر یہ کہہ رہی ہو کہ۔۔۔

اوکھے ہوندیاں پتھریلیاں راواں عشق دیاں

اتنی دیر میں اوپر سے پتھروں کے سرکنے کی زوردار آواز آئی اور ایک تیز رفتار پتھر سیدھا مجھے اپنی طرف آتا دکھائی دیا اور ساتھ ہی فرحان کی چیختی ہوئی آواز آئی:
زین!!! بچ!!!
میرے پاس بچنے کے لیے وقت اور نا ہٹنے کے لیے جگہ تھی۔ ایک لمحے میں سب کچھ ایک فلم کی طرح دماغ میں چلا. بہت کچھ آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی مانند گزر گیا۔

ایک لمحے میں سمٹ آیا صدیوں کا سفر
زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے

میری طرف بڑھتے پتھر نے اچانک سے وسیم اکرم کی آؤٹ سوئنگ کی طرح سمت بدلی اور میرے پاس سے، بہت پاس سے کوئی نقصان پہنچائے بغیر گزر گیا. سانس اور حواس بحال ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ایک حادثے سے بچا لیا ورنہ شاید آپ کا بھائی وہاں زخمی ہوکر ریٹائرڈ ہرٹ بھی ہوسکتا تھا۔

خدا اک ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے

سارے مجھ سے کچھ دور ہی بیٹھے یہ سب دیکھ رہے تھے اور جب وہ پتھر گزرا تو کسی نے نیچے آکر حال بھی نہیں پتا کیا بلکہ مجھے کہتے اوپر آکر ہمیں اپنی حالت سے اگاہ کر ہم نیچے آکر واپس جانے کے متحمل نہی ہوسکتے. میں پانچ منٹ میں ان کے پاس پہنچ گیا اور ان کے پاس بیٹھ کر پانی اور انرجائل وغیرہ پیا۔

گلہ بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی
وہ بات اپنی جگہ ہے، یہ بات اپنی جگہ

بیس منٹ کی چڑھائی کے بعد ایک چشمہ سامنے آیا. وہاں کچھ دیر رکے. پانی وغیرہ پی کر آگے بڑھ گئے. انجان راستوں کی طرف، انجان منزل کی طرف. مزید آدھے گھنٹے کی سخت چڑھائی کے بعد ہم ٹاپ کے پاس پہنچ گئے۔ اتنی میں نیچے سے ایک شخص آیا اور اس نے سلام دعا کرتے ہی مجھے پہنچان لیا. یہ دلبر بھائی تھے، پچھلے سال ان کے پاس ایک رات کا قیام کیا تھا۔ اب ہمیں کچھ تسلی تھی کہ کوئی مقامی بندہ ساتھ ہے اور ایسا کہ جسے پہلے سے ہی جانتے ہیں۔ دلبر بھائی کو بھی سانس چڑھا ہوا تھا اور وہ بھی تھکے ہوئے تھے اور انہیں اس حالت میں دیکھ کر ”کمینی‘‘ سی خوشی ہوئی کہ ہم اکیلے ہی ایسی ہانپتی کانپتی حالت میں نہیں ہیں. دس منٹ کے بعد ہم گلی میں موجود جلکھن خیل گاؤں میں پہنچ گئے۔ گاؤں ٹاپ سے کچھ نیچے ہے ہمیں دیکھتے ہی کئی لوگ آ گئے اور ہمارے بیگ لے کر اور ہمیں ساتھ لیے گاؤں کی طرف چل دیے۔ جلکھن خیل گلی میں چھوٹی سی آبادی ہے جس میں بمشکل دس بارہ گھر ہوں گے. یہیں ایک حجرے میں ہمیں بٹھایا گیا۔ کچھ لوگ اور ڈھیر سارے بچے ہمیں ملنے کو آ گئے. بچوں کو ہماری زبان اور ہمیں ان کی زبان سے واقفیت نہیں تھی تو بات تو کچھ نا ہو سکی. مگر وہ ہمیں دیکھ کر ایسے ہنس رہے تھے کہ ہمیں شک ہوگیا کہ شاید ہم کچھ عجیب حالت میں ہیں۔ مٹی اور لکڑی کے امتزاج سے بنے سادہ سے کمرے میں ہمیں دوپہر کے کھانے کے لیے بٹھا دیا گیا۔ کچھ لوگ اور بہت سارے بچے بھی تھے پر تکلف ضیافت کا اہتمام تھا. میں نے تو شکم سیر ہو کر کھایا اور اب آگے کی طرف جانے کا مشورہ کیا تو لوگوں نے منع کردیا کہ اب جھیل تک نہیں جایا جا سکتا. بہتر یہی ہے کہ آج یہاں پر رکیں اور کل آگے جائیں۔ سب کو یہی بات مناسب لگی کیوں کہ آج کی چڑھائی سخت تھی. سفر تو بہت ہی کم تھا بلکہ اس دن ہم نے سب سے کم سفر کیا تھا مگر یہ چڑھائی سخت ہونے کی وجہ سے تھکاوٹ زیادہ تھی۔ طے ہوا کہ یہاں آج سکون کرتے ہیں اور اس جگہ کو اچھے سے انجوائے کرتے ہیں پھر کل آگے جایا جائے گا۔ ہم پنجابی لوگ لسی پتلی اور نمک ڈال کر پسند کرتے ہیں جب کہ یہاں لسی گاڑھی اور بغیر نمک کے پی جاتی ہے۔ جب یہاں رکنا ہی تھا تو یہاں موجود نعمتوں سے مستفید ہونے کے لیے ایک لوٹا لسی اور ایک لوٹا پانی منگوایا گیا۔ (جی لوٹا آپ نے ٹھیک پڑھا اور میں نے ٹھیک ہی لکھا.) یہاں پانی کے لیے لوٹا ہی چلتا ہے جو کہ پہلے پہل کچھ عجیب لگتا تھا مگر پھر عادت ہوجاتی ہے اور ویسے بھی ایک کہاوت ہے نا
When in Rome, do as the Romans do

مقامی لوگوں کے حیران و پریشان ہونے کا وقت تھا. پہلے لسی میں پانی ملایا تو یہ حیران ہوئے اور جب اس میں نمک ملایا تو یہ پریشان ہوگئے. اب لسی تھی اور ہم تھے، چار چار گلاس لسی چڑھائی گئئی. ایک جگہ جہاں سے مورو کی خوبصورت وادی مکمل کھُل کر نظر آتی تھی اور دور کھڑا بہادر سر اپنی ہیبت دکھلاتا ہوا نظر آتا تھا اسی جگہ پر شام گئے تک بیٹھے رہے۔ مقامی لوک داستانیں سنیں. علاقے کا جغرافیہ سمجھا گیا۔ یہاں پائے جانے والے جانور اور ان کی اقسام بارے معلومات سنیں۔ جب پہاڑوں پر شام ڈھلی تب ہم کچھ نیچے اترے. گاؤں پہنچے تو ڈنر کے لیے بہت سی لوازمات تھیں. اپنا عارضی گھر مسجد کے صحن میں سیٹ کیا، جہاں سے پہاڑ ایک نوک کی مانند جنگل کی طرف نکلا ہوا تھا۔ یہاں سے نظارہ شاندار اور سردی جاندار تھی۔ چاند کی چاندنی میں نہائی وادیاں دیکھتے ہوئے کب نیند میں گئے پتا نہی چلا۔

ہے کوئی جو بتائے شب کے مسافروں کو
کتنا سفر ہوا ہے کتنا سفر رہا ہے

تیسرے دن کی صبح ویسی ہی تھی جیسی پہاڑوں پر ہوتی ہے۔ جنگل سے آتی پرندوں کی آوازیں اور دور پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑتی سورج کی کرنیں ماحول کو خواب ناک بناتی ہوئی، مویشی چراہ گاہ کی طرف نکلنے کو تیار ہوتے ہوئے، گھروں کی چمنیوں سے اٹھتا ہوا دھواں۔۔۔
وادی میں روشنی پھیلتے وقت لگا مگر جب پھیلی تو ہر چیز پہلے سے بھی نکھری اُجلی ہوئی نظر آئی.

کوئی پاس آیا سویرے سویرے
مجھے آزمایا سویرے سویرے
میری داستاں کو ذرا سا بدل کر
مجھے ہی سنایا سویرے سویرے
جو کہتا تھا کل شب سنبھلنا سنبھلنا
وہی لڑکھڑایا سویرے سویرے
کٹی رات ساری مری میکدے میں
خدا یاد آیا سویرے سویرے

آج دل میں انجانا سا خوف تھا اور بے چینی بھی تھی. ایک بالکل نئی جگہ جانا تھا۔ مقامی لوگ بھی کہتے تھے کہ جھیل تک جانا مشکل ہے کیوں کہ جھیل دور بھی ہے اور بلندی پر بھی ہے، مگر جانا تو تھا۔ مکئی کی روٹی اور گندم کے آٹے سے بنے پراٹھے، بہت ساری چائے اور بہت سی چینی والی چائے اور مزہ دوبالا کرنے کے لیے لاہور سے لایا گیا اچار تھا۔ ان سب چیزوں سے ناشتہ کیا تاکہ جسم میں قوت کی کمی نا ہو۔ ناشتہ کے بعد جلکھن خیل گلی کی بیاک میں اکٹھے ہوئے۔ پھر سے چائے کا دور چلا حالاں کہ پندرہ منٹ پہلے ہی چائے پی گئی تھی مگر محبت سے پلائی گئی شے کو کبھی انکار نا کرپائے۔

محبت بانٹنا سیکھو، محبت ہے عطا رب کی
محبت بانٹنے والے طویل العمر ہوتے ہیں

دو لوگ ہمارے ساتھ جانے کے لیے تیار تھے، ایک معصوم خان دوسرا آزاد گل۔ یہ معصوم خان کا نام معصوم خان ہے یا موسم خان یہ معمہ ابھی تک حل طلب ہے کیوں کہ وہ دونوں ناموں سے انکار نہی کرتا تھا۔ معصوم خان ایک سیدھا سادہ دیہاتی آدمی ہے جو اپنی جگہ، اپنی زمین، اپنے علاقے کو بے حد پیار کرتا ہے اور اپنے علاقے کو بہت ہی اچھے سے جانتا ہے۔ اُردو بھی ٹھیک ٹھاک بول لیتا ہے۔ اور آزاد گل فیسبک چلاتا ہے وٹس ایپ چلاتا ہے، گھوڑا دوڑاتا ہے اور بندوق چلاتا پے مگر اسے اُردو نہی آتی۔ آج ہمارے لیے اگلے گاؤں سے ایک لڑکا اعظم آیا ہوا تھا جس نے ہمارے ساتھ جھیلوں تک جانا تھا۔ یہ جھیلوں کے پاس ایک گھر میں رہتا ہے مگر صبح صبح منہ اندھیرے وہ ہمیں لینے کے لیے آیا تھا۔ مسجد کے ساتھ بنی ہوئی بیاک سے ہم صبح سات بجے نکلے۔ مسجد سے نکلتے ہی ایک پگڈنڈی پر چلتے ہوئے سامنے نظر آنے والے پہاڑ پر بنے دروازے تک جانا تھا۔ بیاک سے نکلتے ہی وہ حجرہ آتا ہے جس میں رات کو بہت دیر بیٹھے رہے. حجرہ کے ساتھ ہی لکڑی سے بنے گھروں کی ایک لائن ہے اور گھروں کے آگے جنگلی پھولوں کی بہتات۔ نارنجی اور زرد رنگ کے پھول راستے کے اطراف پھیلے ہوئے تھے جن کے پودے اتنے اونچے تو تھے کہ میرے گھٹنے تک آتے تھے۔
میں نے معصوم خان سے سوال کیا کہ یہ اتنی تعداد میں یہاں کیوں ہیں؟ کیا یہاں جانور نہیں آتے؟
معصوم خان نے بتایا:
”زین بھائی مویشی تو یہاں تک آتا ہے مگر کوئی بھی جانور ان کو نہیں کھاتا، اس لیے یہ پھول پورا سیزن یہاں ایسے ہی رہتا ہے۔‘‘
اب پگڈنڈی کچھ اوپر کو اٹھ رہی تھی اور ہم پانی، جو چشموں سے گھروں اور گھروں سے ہوتا ہوا پگڈنڈی پر آرہا تھا، سے بچتے ہوئے چل رہے تھے۔
اچانک بدبو کا بھبھوکا نتھنوں سے ٹکرایا. اس کا مطلب تھا کہ ہم مویشی خانہ پہنچ گئے. یہاں رات کو مویشی ٹھہرے تھے اور اب وہ پیٹ پوجا کرنے کو چلے گئے ہیں۔ یہاں سے نکلنے میں چند منٹ لگے اور اب پگڈنڈی مزید بلند اور پتھریلی ہوتی جارہی تھی۔ اب تک تو ٹھیک تھا۔ پگڈنڈی ہمارا امتحان لے رہی تھی کیوں کہ جسم ابھی عادی نہی ہوا تھا. ابھی ناشتہ کیے کچھ وقت ہی گزرا تھا اور ہم ٹریک پر تھے۔ مگر دروازہ (درہ) دور نہیں تھا تو ہانپتے کانپتے، پسینہ بہاتے اور وہاں تک پہنچ کر ہی آرام کیا۔ پانی پیا اور کچھ دیر سستانے کے لیے چل پڑے. اب اترائی تھی جو کچھ دیر بعد پھر سے چڑھائی میں بدل گئی۔ ابھی کچھ ہی دیر چلے کہ راستے کے اطراف گرے رنگ کے پھول آگئے. (جی گرے رنگ کے.) میں رنگوں کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہوں الحمدللہ اور میں گرے رنگ کے پھول ہی دیکھ رہا تھا جو کہ نیچے کھائی تک جاتے تھے۔ دیکھنے میں نرمی کا احساس لیے ہوئے یہ گرے پھول راستے کو حسین بنا رہے تھے۔ میں اور اعظم بھائی ایک ساتھ تھے، باقی ٹیم ہم سے آگے آگے چل رہی تھی۔
ایک رواں میٹھا چشمہ دیکھ کر پانی پینے اور سستانے کے لیے کچھ دیر رکے کیوں کہ ایک اور چڑھائی ہماری راہ میں آئی تھی اور اس کو چڑھنا ہی تھا. وجہ یہ کہ پالس کے مے خانے تک تو جانا ہی تھا. آخر کو چند گھونٹ اس مے خانے سے پینے کی خواہش جو دل میں لیے یہاں تک آئے تھے۔ یہاں سے ہمارے ساتھ چند چرواہے بھی شامل سفر ہولیے جن کے جانور آگے گئے ہوئے تھے اور یہ ان کی تلاش میں جارہے تھے۔ سفر پھر سے شروع ہوا. ایک اونچی جگہ جہاں سے اگلے پہاڑ کے درمیان ایک طرف، ایک دو گھر بنے نظر آئے تو معصوم خان صاحب اچانک ہمارے پاس سے غائب ہوگئے اور تقریباً بھاگتے ہوئے ان گھروں کی طرف چلے گئے۔ اب ہمارے پاس اعظم خان تھا جو میرے ساتھ باقی سب سے پیچھے چل رہا تھا اور باقی دوستوں کے ساتھ آزاد گل تھا۔ میں نے پوچھا تو کہتے پتا نہی کدھر گیا. گوکہ معصوم خان بھی مجھے گزرے کل سے پہلے نہیں جانتا تھا مگر ہمارے ساتھ موجود دونوں بندوں کی نسبت وہ زیادہ گھل مل گیا تھا اور ہمیں بھی اس کی کمپنی کا مزہ آرہا تھا مگر وہ اچانک سے چپ چاپ چلتے جارہے تھے کیوں کہ دونوں کو اُردو نہیں آتی تھی اور ہمیں کوہستانی.

وہ نا سمجھ سکے ہم کو تو کیا ہوا
ہم بھی کون سا ان کو سمجھ سکتے تھے

تو چپ چاپ چلنے میں عافیت جانی. کچھ لمحات کے سفر کے بعد ایک بہتا جھرنا آیا تو اس جھرنے پر لالہ معصوم خان ہم سے پہلے موجود تھا. لالہ نے بتایا کہ نیچے ایک گھر تھا وہاں سے روٹی لینے گیا تھا تاکہ جھیل پر بیٹھ کر روٹی کھائی جاسکے مگر اتنا نیچے جاکر اتنی واپس اوپر آنا اور وہ بھی ہم سے پہلے، یہ بات حیران کن رہی۔ سر (جھیل کا نام) کتنا دور ہے؟ میں نے معصوم خان سے معصوم انداز میں اکھڑتے ہوئے سانس کو کچھ سنبھالتے ہوئے پوچھا۔
زین بھائی سر اب پاس ہی ہے۔ مگر اب بہت چڑھائی آنے والا ہے. تو تھکاوٹ زیادہ ہوتا ہے اس لیے وقت زیادہ لگتا ہے. مگر ہم دوپہر سے پہلے پہنچ جائے گا. معصوم خان نے چڑھائی چڑھتے ہوئے مطمئن انداز میں چلتے چلتے جواب دیا۔
چلتے چلتے باقی سب پھر آگے نکل گئے اور میں پیچھے رہ گیا۔ ایک جگہ پر بہت سارے پتھر تھے. بڑے بڑے سے جن کے نیچے پانی بہتا محسوس ہوتا تھا۔ اطراف میں ہریالی اور جانور گھاس چر رہے تھے۔ یہاں میرا انتظار ہورہا تھا۔ یہاں سے اوپر کو جاتے دو راستے تھے اور کسی ایک پر جانے کے لیے پہلے مجھ سے رائے مانگی گئی اور پھر فیصلہ کا اختیار دے دیا گیا۔ راستہ ہمیشہ سیدھا اختیار کرنا چاہیے یا سیدھے ہاتھ والا؟ سیدھا راستہ کوئی تھا ہی نہیں. سب راستے ٹیڑھے میڑھے تھے تو سیدھے ہاتھ والے راستہ کو پکڑ کر چڑھائی شروع کی اور وہ علاقہ جس پر چلتے ہوئے آئے تھے وہ نیچے ہوتا گیا. دُور ہوتا گیا اور سامنے سینہ تانے کھڑا ہوا بہادر سر پہاڑ بالکل ہمارے لیول پر آگیا تھا. ایسا لگتا تھا کہ جیسے ہم تقریباً اسی جتنی بلندی ہر ہوں۔
اعظم نے مجھ سے پوچھا:
ایک طرف گلیشیر ہے اور ایک طرف پتھر ہیں، آپ نے کدھر سے جانا ہے؟
گلیشئر سے نہیں پتھروں سے چلتے ہیں. میں نے اسے چلتے چلتے جواب دیا تو اس نے میرا رخ بدل کر ایک الگ چڑھائی کی طرف کردیا. میں فراز، عمران اور ایک لڑکا جو راستے میں سے اعظم کو ملا تھا، وہ الگ طرف چل دیے۔ یہ فیصلہ مناسب لگ رہا تھا جب تک ہمیں چار بائی چار(4×4) نہیں ہونا پڑا۔ ایک تنگ سا درہ تھا جس میں ایک طرف بڑا پتھر تھا جس پر چڑھنا ممکن نہیں تھا. باقی تھوڑی سی جگہ چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بھری ہوئی تھی جو پاؤں رکھتے ہی پھسلتے تھے اور لگتا تھا کہ پہلے نیچے پھر ”اوپر‘‘ پہنچا دیں گے. بہت مشکل سے بچتے بچاتے ایک دوسرے کو تھامے یہ چھوٹا سا رستہ طے کیا کہ اب جھیل تک پہنچ گئے ہیں۔ وہاں بیٹھ کر یقیناً سب بھول جائیں گے. یہ مشکلات، یہ آزمائش، تھکاوٹ سب بھول جائیں گی. چڑھائی چڑھتے ہی ایک چھوٹا سا میدان آگیا جس پر گھاس کا قالین بچھا ہوا تھا اور اس پر کھلے ہوئے قسم قسم کے جنگلی پھول قالین کے ڈیزائن خوبصورت بنا رہے تھے۔ بائیں طرف بہادر سر پہاڑ پھر سے نظر آرہا تھا۔ یہاں جھیل تو نہیں تھی مگر اور بہت کچھ تھا۔ جھیل کہاں رہ گیا؟ میں نے اعظم سے پوچھا۔ بس یہ ایک اور چڑھائی ہے اور جھیل آجائے گی.
اُس کی یہ بات سن کر مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگا مگر کیا کرسکتے تھے.

راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

مگر خیر یہ کوئی دُکھ تو نہیں تھا، یہ تو آزمائش تھی اور آزمائش میں کامیاب ہونا ضروری تھا کیوں کہ انعام بڑا تھا۔

ہمارے عشق میں رسوا ہوئے تم
مگر ہم تو تماشا ہو گئے ہیں

اور پھر چند ایک چھوٹی موٹی چڑھائیاں چڑھتے ہی وادی پالس کی خوب صورت اور بڑی جھیل کھنا سر کا آخر کار دیدار ہوگیا۔ یہ ایک گول بڑی نیلگوں پانی کی جھیل ہے جسے مقامی لوگ ڈوڈوری سر بھی کہتے ہیں۔ سامنے کی طرف گلیشئر اور چٹانیں ہیں۔ بائیں طرف سپل وے ہے اور دائیں طرف سیدھا پہاڑ کھڑا ہے اور ایک طرف رنگ برنگے پھولوں سے مزین چھوٹا سا میدان ہے جہاں بیٹھ کر جھیل panoramic view کیا جاسکتا ہے۔ جھیل کو پورے ایک فریم میں دیکھنے کے لیے تھوڑا سا اوپر جاکر ایک چٹان پر کھڑا ہونا پڑتا ہے جس پر چڑھنے کے لیے پانچ منٹ پھر چڑھائی چڑھنا پڑتی ہے۔ مگر یہ چڑھائی اپنی قیمت پوری کرتی ہے۔ یہاں سے جھیل اور بہادر سر دونوں ہی صاف نظر آتے ہیں۔ یہاں کئی لوگ موجود تھے. کچھ گھومنے کے لیے مورو سے اوپر آئے تھے اور کچھ ریوڑ پر نظر رکھتے ہوئے یہاں تک آئے تھے۔ اب اگلی جھیل کے لیے یہاں سے دو راستے تھے۔ بائیں طرف موجود چٹانوں پر الپائن سٹائل سے چڑھائی کرتے ہوئے اگلی طرف موجود جھیل تک جایا جائے یا سپل وے کے ساتھ پھسلن والا راستہ اختیار کیا جائے جو پہلے نیچے کی طرف جاتا ہے پھر پتھروں سے ہوکر، کچھ چڑھائی چڑھ کے جھیل تک پہنچا جائے جہاں ہمیں کھانا بھی ملے گا۔ وہ کہتے ہیں نا ”انتاں دی بھُک لگی ہوئی سی‘‘ شدید بھوک تھی اور کھجور پانی سے اسے کچھ دیر کے لیے بھگاتے تھے مگر بھوک بھاگتی کہاں تھی۔ آج مرچ مسالے سے دور ہوئے چوتھا دن تھا اور کڑاہی گوشت، بریانی، آلو قیمہ، شوارما کی اور مسالا دار بار بی کیو کی طلب کا یہ عالم ہو چکا تھا کہ جھیل پر باربی کیو کا انتظام دیکھنا چاہتے تھے۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ممکن نہیں۔ وہ روٹیاں جو ساتھ لے کر آئے ہیں، وہ اور اچار ہی کھا لیں تو کڑاہی سے زیادہ مزہ دے گی مگر دل تو ہے دل۔۔۔
قدرے آسان رستے کو چُنا اور سپل وے کے ساتھ چلتے ہوئے، بلکہ گھسٹے ہوئے نیچے کی طرف چل دیے۔ نیچے رکا ہوا پتھروں کا دریا تھا جو خود نہیں چلتا تھا مگر اس پر ہمیں چلنا تھا۔ ایک پتھر سے دوسرے پتھر پر چھلانگیں لگاتے ہوئے دور نظر آتی پہاڑی دیوار کی طرف چلے جاتے تھے مگر دیوار نزدیک نہیں آتی تھی۔ دیوار کی طرف جانا مجبوری تھی کیوں کہ جھیل اس طرف تھی ورنہ ہم واپسی کی راہ لے لیتے۔ وہاں صرف جھیل ہی نہیں تھی، وہاں روٹی بھی تھی. دل کہتا تھا جھیل کو چلیں مگر پیٹ کہتا تھا کہ روٹی کھانے چلیں.
دوپہر ہوچکی تھی ظہر کی نماز کا وقت گزرا جارہا تھا اور ہم چاہتے تھے کہ نمازِ ظہر جھیل پر ہی پڑھی جائے۔ جھیل ابھی اور کتنا دور ہے میں نے پتھر پر تقریباً گرتے لیٹتے کے انداز میں ضلع پوچھا.
بس پاس ہی ہے تھوڑی ہمت اور کرو. اعظم نے کہا اور میں نے بالکل یقین نہیں کیا.
مگر واقعی کچھ دیر بعد آفتاب کی آواز آئی: جلدی جلدی آجاؤ، جھیل آگئی.
پتا نہی جھیل ہمارے تک آئی یا ہم جھیل تک آئے مگر جھیل واقعی موجود تھی. مربع شکل، نیلے پانی والی، ایک بڑی سے چھوٹی جھیل تھی۔ (حالاں کہ یہ بات دل رکھنے کو کہی کیوں کہ بھوک کی شدت سے دھیان جھیل کی طرف جاتا ہی نہیں تھا.) کنارے پڑے پتھر پر ڈھیر ہوتے ہوئے سکون کا سانس لیا اور شکر ادا کیا کہ روٹی کے پاس… اوہ سوری جھیل کے پاس پہنچ گئے. جھیل کو دیکھ لیا۔ اچھی ہے جی، بہت اچھی اے، بہت سوہنی اے، مگر روٹی کھولو فٹافٹ۔۔۔
سچ کہوں تو جھیل کی طرف دھیان ہی نہیں تھا، دھیان صرف روٹی کی طرف تھا۔ یہاں تک پہنچنے میں سات گھنٹے لگے تھے اور اتنے وقت میں چند کھجوریں کھانے اور پانی پینے کے علاوہ کچھ نہیں کھایا تھا۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

روٹی کھلی اور روٹی ہاتھ میں پکڑے ہم فرحان کی طرف دیکھ رہے تھے کیوں کہ شہنشاہ معظم فرحان صاحب اچار ساتھ لائے ہوئے تھے۔ روٹی اور اچار ہمارے لیے بریانی، کڑاہی گوشت سے بھی زیادہ خاص ہوچکے تھے۔ فرحان نے سب کو اپنی طرف متوجہ پاکر پوچھا: کیا ہے؟
فاروق بھٹی نے کہا: شہنشاہ معظم! اچار نکالیے جلدی جلدی تاکہ روٹی کو پیٹ تک پہنچایا جائے.
فرحان نے بڑے دھیمے لہجے میں جواب دیا کہ اچار تو وہ لایا ہی نہیں. وہ تو کیمپ میں ہی چھوڑ آیا ہوں۔
یہ بات سن کر ایسا لگا کہ جیسے بم پھٹ گیا ہو یا کسی نے بہت بڑا دھوکہ دیا ہو. ایسے لگا کہ جیسے میرے خربوزے پھیکے نکل آئے ہوں، میں ڈھونڈ کر جو تربوز لایا ہوں وہ تربوز اندر سے کچا نکل آئے۔ ایسے لگا کہ جس کسی سے علیشا سمجھ کر بات کررہے ہوں مگر وہ علی شاہ نکل آئے۔ من رونا چاہے مگر رو بھی نا پائے اور پھر فرحان کو کن کن القابات سے نوازا گیا ہوگا، وہ بتانے سے قاصر ہیں اور پوچھ کر شرمندہ مت ہوں۔ خیر اب کیا ہوسکتا تھا، واپس جا کر اچار تو لایا نہی جا سکتا تھا. اب تو جو میسر ہے وہی کھایا جائے۔ میسر چیزوں میں تین چار کجھوریں تھوڑا سا پیاز اور چند روٹیاں ہی تھیں۔ پیاز کے ساتھ روٹی کھائی، پانی پیا اور شکر ادا کیا۔ بھوک ختم ہوئی تو آس پاس برپا قیامت خیز خوب صورتی بھی دکھائی دی ورنہ جھیل کی طرف کچھ دھیان گیا ہی نہیں تھا۔
حواس پر چھائی بھوک ختم ہوئی تو دیکھا ہم ایک خوب صورت جھیل پر موجود تھے، جس کے پچھلی طرف ایک بلند پہاڑ تھا۔ دو اطراف میں چھوٹی پہاڑی دیوار تھی اور جہاں ہم کھڑے تھے وہاں ایک چھوٹا سا میدان تھا. میدان کی سائیڈ سے ہی جھیل کا پانی نیچے جاتا تھا۔ خیمہ لگا کر رات گزارنے کے لیے بہت ہی بہترین جگہ تھی۔ خاموشی اتنی کہ ہوا کی سرگوشی بھی سنی جاتی۔ ڈھرکتے دل کی آواز بہت آرام سے سنی جاسکتی تھی۔ جھیل کا پانی چپ چاپ پتھروں کے نیچے سے گزرتا ہوا دور جاکر نالے کی شکل میں نیچے گرتا اور پھر نیچے پڑے پتھروں کے دریا میں گم ہوجاتا۔

رنگ درکار تھے ہم کو تری خاموشی کے
ایک آواز کی تصویر بنانی تھی ہمیں

مقامی زبان میں اسے چارکوٹ سر (چورس لیک) کہتے ہیں۔ معصوم خان نے بتایا۔
جھیل کے پانی سے وضو کر کے اسی جھیل میں موجود بڑے پتھر پر نماز ادا کی گئی اور رب کا شکر ادا کیا۔ کچھ جگہوں پر عبادت کا سرور ہی الگ ہوتا ہے. ایسے لگتا ہے کہ خالق میری ہر دعا بہت نزدیک سے سن رہا ہے۔ قدیم زمانوں میں اولیا بھی پہاڑوں پر اسی لیے جاتے تھے کہ پر رونق بستیوں میں عبادت و ریاضت میں وہ توجہ، وہ رابطہ نہیں ہو پاتا جو خالق کے ساتھ ان بلندیوں پر لو لگانے سے ملتا ہے۔ پہاڑوں پر دور دراز علاقوں میں انسان اپنی اندر کی آواز کو سن پاتا ہے۔ اپنے آپ پر غور کر پاتا ہے. اپنی نافرمانیوں کا یاد کر پاتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی چادر کو حاصل کرنے کے لیے اپنے رب سے خشوع وخضوع سے دعا مانگ پاتا ہے۔
ویسے ہم انسان بھی کتنے عجیب ہیں. خدا سے اپنی مرضی کی دنیاوی چیزیں مانگتے ہیں اور رب العالمین ہمیں دے دیتا ہے مگر ہم خدا سے اس کی رضا نہیں مانگتے. رب سے اسے ہی کیوں نہیں مانگتے؟

+ اس سفرنامہ کا تیسرا حصہ

2 تبصرے “داستان سفرِ کوہستان (دوسرا حصہ) – زین العابدین شیخ

تبصرے بند ہیں