جہاں دیدہ سخن ور، طاہرؔ حنفی کا شعری مجموعہ ”یرغمالِ خاک‘‘ – راشد منصور راشدؔ

منفرد لب و لہجہ کے حامل ممتاز شاعر طاہرؔ حنفی کا چوتھا شعری مجموعہ ”یرغمالِ خاک‘‘ مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوا گزشتہ روز راقم الحروف تک پہنچا۔ سب سے پہلے تو عنوان کے انتخاب پر بھرپور داد اور اس کے بعد دستِ حنفی سے لکھی میرے لیے خوش خط تحریر نے بھی متاثر کیا. ورق در ورق دل کو چھو لینے والی شاعری، شاعر کے جذبات و احساسات کی عکاس ہے جس میں قاری کے لیے زندگی کے مختلف رنگ یک جا کر دیے گئے ہیں۔ غزلیات، منتخب اشعاراور آزاد نظموں پر مشتمل زیرِ نظر شعری مجموعہ جہاں مصنف کی ذاتی کیفیات، مشاہدات اور تجربات کا آئینہ دار ہے وہیں کتاب کی صورت محبانِ ادب خصوصاً شاعری سے دلچسپی رکھے والے افراد کے لیے گراں قدر تحفہ بھی ہے۔ مصنف بارے معتبر شخصیات کے اظہارِ خیال کے بعد کتاب میں شاعری کا آغاز آقائے نامدار فخر موجودات، وجہ تخلیقِ کائنات، خاتم النبیّن حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ہدیہ عقیدت سے ہوتا ہے۔ ’’یرغمالِ خاک‘‘ میں لکھے اشعار میں وہ تاثیر ہے کہ جسے باذوق قاری محسوس کر کے داد دیئے بغیر نہیں رہتا کہ مصنف نے بکھرے خیالات کو سمیٹ کر صفحہ قرطاس پر اس طرح منتقل کیا ہے کہ طبیعت پر گراں نہیں گزرتا اور پڑھنے والا پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔

’’یرغمال خاک‘‘ میں طاہرؔ حنفی کی چھیاسٹھ سالہ رودادِ حیات رقم ہے جس میں 66 غزلیں، نظمیں اور 66 اشعار درج ہیں۔ بقول ڈاکٹر احمد علی برقی، طاہرؔ حنفی نے آپ بیتی کو جگ بیتی بنا کریادگار شاہکار تخلیق کیا ہے۔ طاہرؔ حنفی شاعری کے میدان میں نئے نہیں بلکہ ’’شہرِ نارسا‘‘، ’’گونگی ہجرت‘‘ اور ’’خانہ بدوش آنکھیں‘‘ کے بعد ’’یرغمالِ خاک‘‘ چوتھا شعری مجموعہ ہے جس کے ابتدائی صفحات میں ڈاکٹرمحمد افتخارالحق اور خاور اعجاز نے مصنف کے طرزِ تحریر بارے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ راقم الحروف تک یہ ادبی تحفہ محترم ماموں جان غضنفر علی بھٹی کی وساطت سے پہنچا جن کا ذکر مصنف نے صفحہ آخر پر ’’مقامِ شکر‘‘ کے عنوان سے نثری تحریر میں کیاہے۔ اب آتے ہیں دل کو چھو لینے والے اشعار کی طرف تو نمونہ کلام میں پہلی غزل کا مطلع ملاحظہ فرمائیں:

توڑے تھے ہم نے جو اسی جنگل میں رہ گئے
چاہت کے ذائقے بھی اسی پھل میں رہ گئے

دوسری غزل کا مطلع بھی کمال کا ہے:

اب ہے دریا کی روانی دور تک
آگیا صحرا میں پانی دور تک

عہد کرونائی کا تذکرہ مختلف شعراء نے اپنے اپنے انداز میں کیا ہے، سو طاہرؔ حنفی بھی پیچھے نہیں رہے۔ اسی تناظر میں لکھتے ہیں کہ:

شہر میں ایسا پھیلایا ہے سب نے خوف
ہم بھی اس سے ڈر جائیں تو اچھا ہے
شہر میں چاروں جانب خوف کا پہرا ہے
ایسے میں ہم گھر جائیں تواچھا ہے

اپنے تجربات کو نصیحت آموزانداز میں اس طرح رقم کرتے ہیں:

اس شخص کو انصاف کا پیکر نہ سمجھنا
جو چاہے تجھے اپنے برابر نہ سمجھنا
تقدیر ترے ہاتھوں کی حرکت میں چھپی ہے
حالات کی گردش کو مقدر نہ سمجھنا

حنفی صاحب کا شعر کہنے کا منفرد انداز ہے کہ غم سے بھی تسکین کشید کر لیتے ہیں۔لکھتے ہیں کہ:

منقطع ایسے تعلق کو کیا ہے اس نے
یاد کرنے کا بھی حق چھین لیا ہے اس نے
گو محبت بھری اک شام نہیں دی مجھ کو
اپنی یادوں کا خزانہ تو دیا ہے اس نے

ایک غزل میں تازہ کاری اور مشکل ردیف کو نبھانے کا فن دیکھیں:

وہ کیسی دلنشیں ہوگی وہ کیسی ماہ جبیں ہوگی
نظر جس کی ہزاروں دل اِدھرپٹخے اُدھر پٹخے

اسی غزل کا ایک اور خوب صورت شعر ہے کہ:

ہیں مثلِ آئینہ نازک مگر اس کو اجازت ہے
ہمارے جسم کو وہ جیسے چاہے خاک پر پٹخے

ایک اور رنگ برنگی غزل کے اشعار ملاحظہ ہوں:

ریشمی دیوار پر، سات رنگی تتلیاں
دیکھ اس رخسار پر، سات رنگی تتلیاں
گلستاں میں پھولوں کے ساتھ محوِ رقص ہیں
آج میری ہار پر، سات رنگی تتلیاں

ایک غزل میں حمدیہ و نعتیہ رنگ دیکھیں:

خلد میں جانا ہے راستہ چاہیے
یعنی ہم کو تیرا نقشِ پا چاہیے

اور اسی غزل کا ایک شعر کہ:

مجھ کو دنیا سے کوئی غرض اب نہیں
اے خدا بس ترا آسرا چاہیے

عنوان ’’یرغمالِ خاک‘‘ کے حوالے سے چند اشعار:

مٹی میں یوں نہ مٹی ملا یرغمالِ خاک
ہاتھوں سے یوں نہ ہاتھ چھڑا یرغمالِ خاک
زنداں میں دیکھا رقص نگہ کم نگاہی بس
سرسے تو تال آ کے ملا یرغمالِ خاک

اسی غزل کا مقطع ہے کہ:

تا عمر دیکھ پائے نہ دنیا کی روشنی
طاہرؔ کو اس طرح نہ بنا یرغمالِ خاک

اسی حوالے سے ایک اور غزل میں کچھ اس طرح رقم طراز ہیں کہ:

ایسے مجھے بنایا گیا یرغمالِ خاک
مر کر بھی مجھ کو رہنا پڑا یرغمالِ خاک
ہم لوگ کس خطا میں ہوئے خاک زادگاں
آدم کو توخدا نے کیا یرغمالِ خاک
دیکھو، اسی کے نور پہ ایمان ہے مرا
وہ جس نے مجھ کو نام دیا یرغمالِ خاک
اب کہ دیار ِعشق میں یوں دربدر ہوں میں
صحرا میں جیسے آبلہ پا یرغمالِ خاک
اس کو رہائی خاک سے پھر مل نہیں سکی
طاہرؔ جو ایک بار ہوا یرغمالِ خاک

بہترین غزلوں سے منتخب چند مزیدعمدہ اشعار باذوق قارئین کی نذر:

ترے پاؤں کی پائل چومنے کو
سمندر بھی ا جازت مانگتا ہے

٭٭٭

طاہرؔ نہ بھول پائے گا تا عمر میرے دوست
دِل سے اتر نہ پائیں گے احسان آپ کے

٭٭٭

کب تک خفا رہے گا تو اپنے رفیق سے
طاہرؔ انا کو چھوڑ دے، تبدیل ہو کے دیکھ

٭٭٭

اس کی یاد آئی ہے طاہرؔ بڑی مدت کے بعد
آج کی رات نہ کیوں ٹوٹ کے رویا جائے

٭٭٭

طاہرؔ نہیں آنکھوں میں کوئی خوابِ محبت
اس واسطے ہم لوگ عذابوں سے پرے ہیں

٭٭٭

یا نفرتوں کے ساتھ مجھے کر زمین بوس
یا اپنی خودسری میرے قدموں میں ڈال دے

٭٭٭

وہ طاہرؔ فقط ایک ہی بار کہہ دے
میں ہجرے کے سارے فسانے سنا دوں

٭٭٭

جو کچھ میں ہے نہاں اسے رہنے دے تو نہاں
جیسے پڑا ہوا ہے یہ پردہ پڑا رہے

غزلوں میں غمِ جاناں اور غمِ دوراں بیان کرنے کے بعد وطن سے محبت میں اظہار تشکر بجا لاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

جہانِ تیرگی میں روشنی ہے آزادی
ہیں خوش نصیب وہ ،جن کو ملی ہے آزادی
خدایا! شکر ادا جس قدر کریں کم ہے
وطن کے نام پہ ہم کو جو دی ہے آزادی

طاہرؔ حنفی کا یہ بھی کمال ہے کہ غزل کے ساتھ ساتھ آزاد نظم بھی خوب کہتے ہیں جس میں ان کی حسین یا غمگین یادوں اور پر کیف لمحات کا تذکرہ ہے۔ ایک آزاد نظم کی روانی دیکھیں:

قصرِ ریحانہ کے لان میں اُگی
رات کی رانی کی خوشبو کے
سحر نے میرے بدن کومجسم کیا ہے

مختلف موضوعات پر لکھی گئی آزاد نظموں میں اکثر مقامات پر اردو کے ساتھ انگریزی کا تڑکا بھی لگایا گیا ہے لیکن الفاظ کے چناؤ اور بہاؤ میں اس طرح شامل ہے کہ معیوب نہیں لگتا۔
”یرغمالِ خاک‘‘ سرورق سے لے کر آخری حرف تک خوب ہے۔ کتاب کی پشت پر طاہرؔ حنفی کی خوب صورت تصویر کے نیچے لکھے خوب صورت شعر کے ساتھ تحریر کا اختتام کرتا ہوں:

افلاک سے کوئی تو صدا دے کے پوچھتا
کیسی گزر رہی ہے سنا، یرغمالِ خاک


طاہرؔ حنفی کا تیسرا مجموعہ کلام ’’خانہ بدوش آنکھیں‘‘ از راشد منصور راشدؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں