امریکہ میں مقیم ماہرِ تعلیم اور مصنفہ نوشابہ عرفان کی خودنوشت سوانح عمری’’ایسا ہوا جینا‘‘ (لاہور سے امریکہ)، – محمد اکبر خان اکبر

’’ایسا ہوا جینا، لاہور سے امریکہ‘‘، امریکہ میں مقیم ماہرِ تعلیم مصنفہ نوشابہ عرفان کی خودنوشت سوانح عمری ہے. اس سوانح عمری میں ان کی زندگی میں گزرے تلخ و شیریں ایام کا تذکرہ ہے. مصنفہ نے اپنے بچپن کے حالات، تعلیم حاصل کرنے کے واقعات اور دورِ طالب علمی میں ابھرتے خدشات کو اپنی کتاب کی زینت بنایا ہے.
نوشابہ عرفان دل نشین اور سیدھے سادہ انداز میں خود پر گزرے واقعات کا تذکرہ زیبِ قرطاس کرتی ہیں. ان کا اسلوب تحریر رواں اور عام فہم ہے. میرے خیال میں ان کی کتاب کی سب سے بڑی خوب صورتی یہی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی خود ساختہ خود نمائی، تصنع اور تشبیہات و استعارات سے ہٹ کر اپنے حالات زیست بیان کرتی جاتی ہیں. ان کی سوانح حیات پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے صبر اور ہمت سے ہر مشکل کا سامنا کیا ہے.
نوشابہ عرفان کی کتاب پڑھتے ہوئے کئی ایسے مقامات آتے ہیں کہ آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں اور کئی مقامات پر بے ساختہ مسکرانے کو جی چاہتا ہے.
مصنفہ نے بے تکلف اور جاذب انداز میں جس طرح اپنی آپ بیتی لکھی ہے، وہ پڑھنے والے کو لازمی متوجہ کر لیتی ہے اور قاری بلا تکان آگے پڑھتا چلا جاتا ہے. ان کی یہ خودنوشت سوانح عمری اُردو کے سوانحی ادب میں عمدہ اضافہ ہے.
اس خودنوشت میں کئی دلچسپ اور چند تحیر خیز واقعات بھی ہیں، جو قارئین کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے ذوقِ مطالعہ کو مہمیز کرتے ہیں، جیسے ٹی وی دیکھنے کی شوقین بلی، اور کالج میں پیش آنے والی انہونی وغیرہ.
کتاب کے آخر میں مصنفہ کا کچھ کلام بھی شامل ہے جو ان کے شوق سخن دانی کا ثبوت ہے. مصنفہ نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے، زمانے کے نشیب و فراز دیکھے ہیں. ان کی کتاب کا مطالعہ آج کل کی نئی نسل، خصوصاً لڑکیوں کو ضرور کرنا چاہیے تاکہ وہ ان کے تحریر کردہ تجربات سے معاشرتی مسائل کا مقابلہ کرنا سیکھیں.
نوشابہ عرفان اپنی کتاب میں اگر منتخب شدہ کچھ تصاویر اور منتخب خطوط یا اپنی ڈائری کا کوئی صفحہ شامل کر دیتیں تو اس کتاب کی جاذبیت اور دل چسپی مزید بڑھ جاتی. بہرحال بحیثیت مجموعی، ’’ایسا ہوا جینا‘‘ (لاہور سے امریکہ)، ایک اعلٰی اور منفرد کتاب ہے جس کی طباعت بھی نہایت اعلٰی اور معیاری ہے. میرے خیال میں اسے ہر اہم کتب خانے میں ضرور ہونا چاہیے.