”تانبے کی زمین“، شفیق اختر حر کے منفرد کالموں کا دوسرا مجموعہ – محمد اکبر خان اکبر

”تانبے کی زمین“ جناب شفیق اختر حر کا دوسرا مجموعہ ہے جس میں ان کے تحریر کردہ 60 سے زیادہ کالم شاملِ اشاعت کیے گئے ہیں. اس کتاب کے ایک ابتدائی مضمون میں ڈاکٹر مقبول گیلانی نے لکھا ہے کہ ”شفیق اختر حر 1978ء سے صحافت سے منسلک ہیں. نوائے وقت لاہور میں کالم لکھتے رہے ماہ نامہ ”دھڑکن“ کا اجرا کیا. 1992ء سے اپنا اخبار ”جھیل“ شائع کر رہے ہیں. 2015ء میں آپ کے کالموں کا مجموعہ ”حُر کے آزاد قلم سے“ شائع ہوا جو 272 صفحات پر مشتمل تھا اور اس میں 2008ء سے 2010ء تک کے کالم شامل تھے. اب ان کا دوسرا مجموعہ ”تانبے کی زمین“ زیور طباعت سے آراستہ ہوا ہے جو 304 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں 2010ء سے 2018ء تک کے درمیان لکھے گئے کالم شامل ہیں.“
شفیق اختر حر کے کالم متنوع موضوعات کے حامل ہیں. کالم نگار نے عوامی مسائل، سماجی اور سیاسی مشکلات اور دیگر کئی بین الاقوامی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے. میرے خیال میں کالم تحریر کرنا قدرے مشکل کام ہے کیوں کہ کالم کا دامن بہت محدود ہوتا ہے اور اس پر کالم نگار کو ہر موضوع کا حق ادا کرتے ہوئے دریا کو کوزے میں بند کرنا پڑتا ہے. شفیق اختر حُر چوں کہ ایک تجربہ کار اور کہنہ مشق صحافی ہیں، اس لیے انہیں کالم نویسی پر مکمل عبور حاصل ہے. ان کا قلم معلوماتی ہی نہیں بلکہ جذبہ ہمدردی کے ساتھ ساتھ عوام الناس کا درد بھی سموئے ہوئے ہے. شفیق اختر حُر نے بے حد عام فہم انداز میں اپنے مشاہدات، خیالات، جذبات، اور تفکرات کو کالم کا حصہ بنایا ہے. شفیق اختر حر صاحب کے اس مجموعے کا نام ”تانبے کی زمین“ کافی منفرد سا دکھائی دیتا ہے. جس کے بارے میں انہوں نے اپنی کتاب کے ابتدائی صفحات میں لکھا ہے کہ ”آج عام ادمی کے لیے معاشرے میں رہنا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے. کسی بھی محکمے میں کوئی کام پڑ جائے تو سفارش اور رشوت کے بغیر مجال ہے جو کام ہو جائے. حتٰی کہ رشوت ستانی کا محکمہ بھی اس سے مبرا نہیں ہے. چاروں اطراف آگ ہی آگ ہے. جس زمین پر ہم کھڑے ہیں وہ تانبے کی زمین بن چکی ہے اور اس پر کھڑا ہونا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے. جوں جوں تانبہ گرم ہو رہا ہے، پیر جھلس رہے ہیں. تپش پورے جسم کو جھلسائے دے رہی ہے اور لوگوں نے اب آسمان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے. اتنی کثیر تعداد میں جب اللہ کے بندے تپتی زمین پر کھڑے ہو کر اللہ کے آگے گڑگڑا کر دہائیاں دیں گے تو اس ہستی کو اپنے بنائے ہوئے بندوں پر ترس نہیں آئے گا کیا اور جب وہ کائنات کا مالک جوش میں آئے گا تو کیا قیامت برپا نہیں ہو جائے گی.“
مکرم و محترم مصنف حقوق العباد پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں، جس کا عکس ان کے متعدد کالموں سے واضح ہوتا ہے. اس کے علاوہ انہوں نے ادبی محافل اور ادب سے متعلقہ دیگر موضوعات پر بھی کالم اس مجموعے میں شامل کیے ہیں. ان کے اس مجموعے میں آسٹریلیا کے سفر پر مبنی سفرنامہ نما کالم بھی موجود ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ امتِ مسلمہ کے مسائل، برما میں ڈھائے جانے والے مظالم کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے. ان کے کالموں کا مطالعہ کر کے ان کا انسان دوست، محبِ وطن، امتِ مسلمہ کے اتحاد کے داعی اور انسانی حقوق کے علمبردار کا دل نشین چہرہ سامنے آتا ہے. ان کے اس مجموعہ میں آسٹریلیا کی چند خوبصورت تصاویر بھی شامل ہیں. مصنف کا طرزِ تحریر نہایت اثر انگیز اور پُرتاثیر ہے جو پڑھنے والے کی توجہ حاصل کرنے کی تمام تر خوبیوں کا حامل ہے.