شفیق مراد، مغرب میں اردو ادب کا روشن سورج – محمد اکبر خان اکبر

شفیق مراد جرمنی میں مقیم مترنم، منفرد لب و لہجے کے شاعر ہیں. ان کا شعری مجموعہ ”شہرِ مراد‘‘ آسمانِ ادب پر ایک روشن ستارے کی مانند طلوع ہوا ہے۔ اس مجموعہ کلام کی تقریبِ رونمائی جرمنی کے شہر ڈارمسٹڈ میں منعقد ہوئی تھی جہاں متعدد اہلِ سخن اور صاحبِ ذوق احباب نے بھرپور انداز سے شریک ہوکر شفیق مراد صاحب کے فن سخن وری کو سراہا۔ شفیق مراد کی شاعری میں خیال آفرینی، رواں مصرعے اور الفاظ کی بندش کا کمال نمایاں ہے.

کرتا رہا میں زیست کی تزئین عمر بھر
سینچا جو خون دل سے شجر کس کے ساتھ تھا

ان کی غزلیں قاری کو چونکا دینے والی ہیں جو اسے خوش گوار حیرتوں بھرے مگر پرلطف احساس سے آشنا کرتی چلی جاتی ہیں۔ ان کی شاعری میں غمِ جاناں اور غمِ دوراں کی شدتیں جھلکتی ہیں. وہ کہتے ہیں کہ:

تمام عمر مرے ساتھ رائیگاں کر دی
رہا وہ شخص مری گفتگو کے جادو میں

شفیق مراد نے زندگی کے نشیب و فراز اور راہ زیست کے مسائل کو بڑی چابکدستی سے اشعار کے پیکر میں ڈھالا ہے. ان کے ہاں موضوعات کا بڑا تنوع ہے. وہ جدیدیت اور مابعدجدیدیت کا اثر انگیز امتزاج پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں:

ظالموں کے ظلم کی جب انتہا ہو جائے گی
شور گریہ آسمان پر انتہا کا جائے گا
کب تلک ہوتا رہے گا آدمیت سے مذاق
کب تلک انساں کو انساں سے لڑایا جائے گا

شفیق مراد کی شاعری میں معاشرتی اور معاشی مسائل کا ذکر ہے اور عالمی حالات پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ وہ ظلم و بربریت کے خلاف آوازِ حق بلند کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں:

انجامِ گلستانِ وفا دیکھ رہا ہوں
میں ظلم کے موسم کی ادا دیکھ رہا ہوں
ہر سمت ہیں بکھرے ہوئے ذہنوں کے مناظر
افکار کو زنجیر بپا دیکھ رہا ہوں

ان کی شاعری میں خوشی و انبساط کے شادیانے بھی ہیں اور درد و غم کے تازیانے بھی:

کتنے چہروں کو سجایا ہے دل مضطر میں
دیکھ کر شیشہ دل خود کو بھلا دیتا ہوں
شاعر درد کا ہر زخم آثاثہ ہے
یہاں دشمنِ جاں کو دعا صبح و مسا دیتا ہوں

ان کی آنکھ معاشرتی مسائل، معاشی ناہمواریوں، سماجی رویوں، انسانوں کے اذیت ناک رویوں اور انسانوں کی بے بسی کا ادراک رکھتی ہے، جو انہیں درد آشنائی کی منزل تک لے جاتی ہے۔

ظلم کے سورج سے پھر مانگا حساب
پھر زمیں نے سال کا چکر لگا لیا

شفیق مراد کا اسلوب سادہ، رواں اور دلکش ہے۔ ان کی شاعری میں الفاظ کی بندش اور خیال آفرینی بدرجہ کمال تک موجود ہے:

یہ جنوں خیزی تھی یا عشق کی کوئی منزل
جس کو گرداب سمجھتے تھے وہ ساحل نکلا

ان کی شاعری کلاسیکی رنگوں سے بھی مزین ہے جو ان کے جمالیاتی ذوق کی آئینہ دار ہے:

اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کا عکاس ہے
اس کا آنچل ہے چمکتی کہکشاں کا اقتباس
رس بھری کی بات سن کر سوچتا ہی رہ گیا
ہے یہی حسن بیاں یا ہے بیاں کا اقتباس

شفیق مراد کی شاعری سے رجائیت کا پیغام ملتا ہے. وہ نوامیدی کے گٹھا ٹوپ اندھیرے میں امید کے چراغ روشن کرتے چلے جاتے ہیں:

امید ہے اب چاک میرے دل کے سلیں گے
اب زخم محبت بھی کوئی خاص ملا ہے

آپ کی غزلیات میں غنائیت اور ترنم ہے ان کی غزلوں میں موجود صوتی آہنگ قاری کے دل پر گہرا اور دیرپا اثر چھوڑتا ہے:

چند لمحوں میں ہی دل کا رازداں بننے لگا
رات بھر کا ایک مہمان میزباں بننے لگا
ایک لمحہ جو فراموشی کی حد سے دور تھا
رفتہ رفتہ درد کی پکا نشاں بننے لگا

شفیق مراد نے اپنے کلام میں تلمیحات کا خوب استعمال کیا ہے. ”شہرِ مراد‘‘ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تلمیحات ان سے کلام میں زور بیان اور معنی آفرینی نے جنم لیا ہے:

کون فرعون نہ ہامان نہ نمرود ہے آج
لے کے آتے ہیں نئے نام یہ کردار بہت
میں نے جب قیس کی نظروں سے اسے دیکھا تو
مجھ کو لیلٰی میں ملے حسن کے آثار بہت

ان کی شاعری میں ہجر و الم، انتظار، تڑپ، کسک و چاہت بھی ہے اور زندگی کے تلخ حقائق کی منظر کشی بھی:

آنکھ پر نم ہے اور لب خاموش
بات کوئی تو یار رہتی ہے
وہ تو رہتا ہے دل میں برسوں سے
چشم بر انتظار رہتی ہے

”شہرِ مراد‘‘ اردو شاعری کا وہ مجموعہ کلام ہے جو قاری کو زندگی کے مختلف پہلوؤں سے آگاہی فراہم کرتا ہے اور اس کی سوچ و فکر میں نئے زاویوں سے آشنائی کا احساس اجاگر کرتا ہے۔