ڈاکٹر محمد خاور نوازش کی کتاب ’’موقف کی تلاش‘‘ اردو تنقید و تحقیق کی دنیا میں ایک اہم اور معنی خیز اضافہ ہے۔ اس مجموعے میں شامل تحقیقی مضامین نہ صرف محقق فکری کی وسعت کا مظہر ہیں بلکہ اردو ادب میں تنقید و تحقیق کے معیار کو بھی نئے معیاری انداز سے متعارف کرواتے ہیں۔ ڈاکٹر خاور نوازش ایک ایسے محقق اور نقاد کے طور پر سامنے آتے ہیں جو محض روایت کا اسیر نہیں بلکہ روایت کو نئے فکری افق سے ہم آہنگ کرنے کا ہنر بھی جانتا ہے۔ ان کے ہاں تنقید محض تحسین یا رد کا نام نہیں بلکہ یہ ایک فکری جستجو اور معنوی دریافت کا عمل ہے۔
اس کتاب کے تمام مضامین میں گہرا تحقیقی رنگ غالب ہے۔ حوالہ جات اور حواشی نہایت سلیقے اور قرینے سے مرتب کیے گئے ہیں، جو نہ صرف مصنف کی محنت کا آئینہ ہیں بلکہ قاری کے فہم کو مزید وسعت دینے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ ان مضامین میں ایک ایسا تنقیدی شعور جھلکتا ہے جو بیک وقت روایت اور جدیدیت دونوں کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ ڈاکٹر خاور نوازش نہ صرف ادبی رویوں کا تجزیہ کرتے ہیں بلکہ انہیں تہذیبی و فکری پس منظر میں رکھ کر پرکھتے ہیں۔ ان کا اسلوب نہایت شائستہ، سنجیدہ اور فکر انگیز ہے، جو اردو تنقید کی اس روایت سے جڑا دکھائی دیتا ہے جس کی بنیاد شبلی، حالی، اور بعد ازاں رشید احمد صدیقی اور محمد حسن عسکری نے رکھی۔
ڈاکٹر محمد خاور نوازش کی کتاب ’’موقف کی تلاش‘‘ کی اردو تنقید و تحقیق کے میدان میں وہ حیثیت ہے جو ادب، تاریخ، تہذیب اور نظریات کے گہرے رشتوں کو کھوجتی ہے۔ یہ کتاب محض مضامین کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک ایسا علمی سفر ہے جو قاری کو نئے زاویوں سے آشنا کرتا ہے۔ ڈاکٹر خاور نوازش کی تنقیدی بصیرت صرف فن پاروں کی تشریح تک محدود نہیں، بلکہ وہ ادب کو سماجی تبدیلی، سیاسی شعور اور تہذیبی ارتقا کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کا اسلوب مدلل، شستہ اور فکر انگیز ہے جو اردو تنقید کی روایت کو نئے افق عطا کرتا ہے۔
کتاب کے پہلے ہی مضمون میں ڈاکٹر خاور نوازش لکھتے ہیں کہ ”ایک ادیب کے لیے اپنے تاریخی شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے ماضی کے ان اشاروں کو سمجھنا جو اس نے حال کے لیے دیے تھے اور حال کے ان اشاروں کا ادراک رکھنا جو مستقبل کے لیے دے رہا ہو، بہت ضروری امر ہے کیوں کہ اسی کے ذریعے وہ زندگی کے ارتقا کو صحیح انداز میں سمجھ سکتا ہے۔ وہ اپنی دردمندی کو اپنے عہد کے لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے بروئے کار لا سکتا ہے.‘‘
یہ اقتباس مصنف کے اس نکتہ نظر کو واضح کرتا ہے کہ ادب محض تخلیقی اظہار نہیں بلکہ ایک ذمہ دارانہ عمل ہے جو ماضی، حال اور مستقبل کے درمیان رشتہ قائم کرتا ہے۔ وہ ادیب کو صرف فن کار نہیں بلکہ ایک سماجی مبصر اور مفکر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جب معاشرہ بحران کا شکار ہو تو ادب کی ذمہ داری بھی بدل جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا موقف ہے کہ ”سر سید احمد خان اور ان کے رفقاء نے بظاہر خرد افروز اور روشن خیال فکر کی ترویج کا آغاز کیا لیکن اس میں بھی ایک مسئلہ پیدا ہوا کہ بصیرت کے معنی کو سامراج کی ہم نوائی کا زاویہ مل گیا.‘‘ یہاں ڈاکٹر خاور نوازش سرسید تحریک کے دوہرے پن کو اجاگر کرتے ہیں- ایک طرف روشن خیالی اور دوسری طرف استعماری مفادات سے وابستگی۔
آزادی کے فلسفے کو نئے تناظر میں دیکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ”ہماری اکثریت کا تصور آزادی بھی یہی ہے کہ ہم صرف گلابوں کا جنگل یا قبرستان چاہتے ہیں۔ کانٹے کو یکسر نکال پھینکنے پر ہمارا یقین ہے۔ روسو نے ‘معاہدہ عمرانی’ میں لکھا ہے کہ کوئی بھی معاہدہ جو ایک طرف اختیار مطلق بخشے اور دوسری طرف غیر محدود اطاعت عائد کرے، فضول اور بے معنی ہے۔ پوسٹ ماڈرنزم نے اسی لیے تمام نظریات کو حتمی ماننے سے انکار کیا ہے کیوں کہ کوئی بھی نظام اس کسوٹی پر پورا نہیں اترتا.‘‘ یہاں مصنف آزادی کے تصور کو محض سیاسی نہیں بلکہ فکری اور سماجی سطح پر پرکھتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ حقیقی آزادی وہی ہے جو انسانی حقوق کی پاسداری کرے۔
فیضؔ اور اقبالؔ پر ان کے مضامین بھی خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ فیضؔ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ”مطالعہ فیضؔ کے گزشتہ بیس پچیس برس کی تاریخ اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ اس میں فیضؔ کی شخصیت کے رومان سے نکل کر ان کے کلام پر زیادہ توجہ مرکوز رہی۔ اگر فیضؔ میلے پر واقعتاً ٹکٹ لگنے لگا تو اس کے کلام میں موجود نظریہ جلد ہی سسک سسک کر دم توڑ دے گا.‘‘
اقبالؔ کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ”اقبالؔ ایک بڑے شاعر تھے، لیکن ان کے عمل میں خیر و شر کی تقسیم کے نظریات اور فطرت کے نوری و ناری حصے کی کشمکش نے جو ثنویت پیدا کی، اسے بھی اقبالیاتی تحقیق و تنقید میں سامنے رکھنا ضروری ہے.‘‘
لسانیات کے نام پر پھیلائے گئے مغالطوں کو بے نقاب کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ”ماہرینِ لسانیات ہندوستان اور بیشتر یورپی زبانوں کو ایک ہی لسانی خاندان (ہند یورپی) میں رکھتے ہیں، حالاں کہ جارج گریسن نے واضح الفاظ میں لکھ دیا ہے کہ انگریزی، لاطینی اور جرمن زبانیں قطعی طور پر آریائی کہلانے کی حقدار نہیں ہیں۔‘‘ یہ مضمون نوآبادیاتی تاریخ نگاری پر ایک کاری ضرب ہے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکٹر خاور نوازش محققانہ جرأت کے ساتھ حقائق کو سامنے لانے کےمعاملے میں بے باک ہیں۔
’’موقف کی تلاش‘‘ صرف ایک کتاب نہیں، مضامین کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ اردو تنقید کی ایک ایسی معیاری دستاویز ہے جو ادب، تاریخ، فلسفہ اور لسانیات کے مابین گہرے رشتے قائم کرتی ہے۔ ڈاکٹر خاور نوازش کا تنقیدی انداز نہ صرف روایتی تنقید سے آگے ہے بلکہ وہ جدید نظریات کو بھی مدلل طریقے سے پرکھتے ہیں۔ یہ کتاب اردو ادب کے طالب علموں، نقادوں اور محققین کے لیے ایک بیش قیمت علمی تحفہ ہے جو نئی ادبی دنیاؤں کی تلاش میں رہنما ثابت ہوگی۔ ان کی تحریروں میں فکری گہرائی، تنقیدی بصیرت اور تحقیقی دیانت داری کا امتزاج ملتا ہے جو اردو تنقید کو ایک نئی سمت عطا کرتا ہے۔ ڈاکٹر محمد خاور نوازش کی یہ کاوش اردو تحقیق و تنقید کے میدان میں ایک مستند اور قابلِ فخر تحریر ہے۔











