جہاں آرا تبسمؔ کوئٹہ میں مقیم ملک کی ممتاز شاعرہ ہیں جن کی شاعری اپنے دلکش لب و لہجے، سہل ممتنع کے سحر اور کلاسیکی غنائیت کی وجہ سے ملکی اور بین الاقوامی ادبی حلقوں میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ ان کی کتاب ”محبت شاعری ہے‘‘ ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جس میں محبت کے جذبات کو ندرتِ خیال، شائستگی اور گہرائی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ان کی اس کتاب میں غزلیات، نظمیں اور ایک طویل نظم ”محبت‘‘ شامل ہیں، جو نہ صرف ان کے فنِ شاعری کے اعلیٰ معیار کی عکاس ہیں بلکہ قاری کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتی معلوم ہوتی ہیں۔
میری نگاہ میں جہاں آرا تبسم کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی ان کی سہلِ ممتنع کی وہ کیفیات ہیں جو ان کی اس کتاب میں جابجا نمایاں طور پر موجود ہیں۔ ان کے اشعار بظاہر انتہائی سادہ اور رواں معلوم ہوتے ہیں مگر ان میں معنویت کی ایسی گہرائی پنہاں ہے جو قاری کی سوچ وفکر میں تغیرات پیدا کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ان کا یہ شعر دیکھیے:
روئے گی سسکیاں لے لے کے ہوا میرے بعد
میرے جیسا کوئی پیدا نہ ہوا میرے بعد
یہاں سادہ الفاظ میں بیان کیا گیا خودشناسی اور فنا کا فلسفہ شاعرہ کی فکری وسعت اور عمق کا برملا اظہار کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں الفاظ کی ترتیب، بحور کی موسیقیت اور لفظی ہم آہنگی ایسی ہے کہ کلام پڑھتے ہوئے ایک غنائی کیفیت طاری ہو جاتی ہے:
جب بھی تیرا خیال گزرا ہے
دل پہ تازہ ملال گزرا ہے
جیسے اشعار میں لفظوں کی صوتی تکرار اور ردیف کی نغمگی نے غزل کو ایک خاص رچاو سے ہمکنار کیا ہے۔ ان کی شاعری کے موضوعات میں محبت، فراق، ہجر وصال، حسرت، زمانے کی بے ثباتی اور انسانی جذبات کی نزاکتیں جلوہ نما ہیں۔ ان کی نظم ”سالِ نو مبارک‘‘ میں نئے سال کے استقبال کی خوشی اور نئے عہد کی امید کچھ یوں جھلکتی ہے:
”چلو ہم مل کے سال نو کے دامن سے یہ وعدہ باندھ لیتے ہیں‘‘
اسی طرح ”منزل‘‘ نظم میں وہ راہِ عشق میں تلاش، تمنا اور آرزو کی کیفیات کو انتہائی خوب صورتی سے بیان کرتی ہیں:
میری بے خواب آنکھوں کو
سہانے خواب مل جاتے
جو تیرے لمس کی خوشبو
میرے پیکر کو چھو جاتی
شاعرہ کے ہاں استعارات اور تشبیہات کا استعمال بھی نہایت پرکار اور پراثر ہے۔
”خشک پتے کی طرح اڑتا رہا میرے بعد‘‘
جیسے اشعار میں لفظی تصویر کشی نے مفہوم کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
غالباً ان کی طویل نظم ”محبت‘‘ اس کتاب کا سب سے قابلِ ذکر حصہ ہے جس میں محبت کے مختلف پہلوؤں کو نہایت عمدہ شعری بلاغت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
”محبت وہ تبسم ہے کہ جو محبوب کے لب پر ہمیشہ رقص کرتا ہے‘‘
ان اشعار میں محبت کو ایک خاموش گفتگو، تبسم اور بے زبانی کے اظہار کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح:
محبت وہ تکلم ہے ادا جو ہو نہیں پاتی
زبان بے زبانی سے کبھی اقرار ہوتا ہے
کبھی انکار ہوتا ہے.
یہ مصرعے محبت کی نازک کیفیات کو الفاظ کا جامہ پہنا کر اس جزبے کی نزاکت و لطافت اور شاعرہ کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ تبسم کی غزلوں کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جو ان کے اسلوب سخن کی بہترین عکاسی کرتے ہیں:
جائیے جائیے شوق سے جائیے
کچھ دعائیں مگر ساتھ لے جائیے
دل کی مٹی ہے زرخیز گر ہو سکے
یاد کا بیج بو کر چلے جائیے
اسی طرح ایک مقام پر وہ کہتی ہیں کہ:
دعا وصال نہ ہوتی تو جانے کیا ہوتی
تیرا خیال نہ ہوتی تو جانے کیا ہوتی
شاعرہ کے ان اشعار میں جذبات کی شدت، حدت اور فکر کی گہرائی یکجا نظر آرہی ہے۔ نظم ”منزل‘‘ کا یہ شعر بھی قابل غور اور ان کے فن شاعری کا عمدہ نمونہ ہے:
تیری آواز کا جگنو اگر راستہ دکھا جاتا
تو منزل پاس آ جاتی
جہاں آرا تبسم کی یہ کتاب ”محبت شاعری ہے‘‘ نہ صرف ان کے فنی و فکری کمال کی غماز ہے بلکہ اردو شاعری میں محبت کے موضوع پر ایک نئی اور منفرد آواز اور جہت بھی ہے۔ ان کی شاعری میں روایات اور جدیدیت کا حسین امتزاج، جذبات کی سچائی اور فراوانی، نیز لفظی نزاکت و ملائمت اسے عام قاری سے لے کر ناقدین تک کے لیے یکساں طور پر پرکشش بناتی دیتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف دل کو چھو لینے بلکہ ذہن کو جھنجوڑنے کی بھی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اردو شاعری کے دلدادہ افراد کے لیے یہ کتاب ایک بیش بہا اضافہ ہے جو ان کے ذوقِ سخن کو ضرور مہمیز کرے گی.











