”باب الاسلام بلوچستان اور چشتیہ خاندان‘‘، ڈاکٹر اکرم خاورؔ کی ایک منفرد کتاب – محمد اکبر خان اکبر

ڈاکٹر اکرم خاورؔ کی کتاب ”باب الاسلام بلوچستان اور چشتیہ خاندان‘‘ بلوچستان کی اسلامی تاریخ اور صوفیاء کے روحانی ورثے پر ایک گہرا، مستند اور جامع تحقیقی کام ہے، جو نہ صرف علمیت کا مرقع ہے بلکہ صدیوں پر محیط دینی و تہذیبی روایات کو اجاگر کرتا قابل قدر کارنامہ بھی ہے۔ یہ کتاب 27 ابواب پر مشتمل ہے اور 656 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں بلوچستان میں اسلام کی آمد، چشتیہ سلسلے کی تبلیغی، تعلیمی اور اصلاحی سماجی خدمات، نیز خطے کے تاریخی، ثقافتی اور سماجی تناظر کو انتہائی مدلل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف نے نہ صرف قدیم مآخذ، دستاویزات اور دیگر کتابوں سے استفادہ کیا ہے بلکہ میدان تحقیق میں مقامی روایات اور زبانی تاریخ کے علاوہ خود سفر کی مشقتیں اٹھا کر اپنے تجربات کو بھی اپنی تحقیق کا حصہ بنایا ہے، جس سے کتاب کی علمی اہمیت دوچند ہو گئی ہے۔ بلوچستان میں اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر چشتیہ مشائخ کے دورِ عروج تک کے سفر کو تفصیل سے بیان کرنے کی کامل سعی کی گئی ہے. ان کی اس تحقیقی تصنیف میں خواجگان چشت کے مزارات، ان کی تعلیمات، سیرت و کردار، نیز مقامی معاشرے پر ان کے گہرے نقوش کو نمایاں کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر اکرم خاورؔ کی تحقیقی جامعیت اور اسلوب کی خوبیاں کتاب میں واضح طور دکھائی دیتی ہیں. مصنف کا اسلوبِ تحقیق انتہائی منظم، معتبر اور توازن سے بھرپور ہے۔ انہوں نے تاریخی واقعات کو محض خشک بیانی تک محدود نہیں رکھا بلکہ انہیں ثقافتی، سماجی اور روحانی تناظر پر پرکھا ہے۔ ان کی تحریر میں علمی گہرائی کے ساتھ ساتھ سلاست اور ادبی چاشنی بھی ہے، جو عام قاری کے لیے سہل الفہم ہے۔ وہ پیچیدہ تاریخی مباحث کو آسان انداز میں پیش کرتے ہیں، جب کہ اہم نکات کو حوالہ جات، حواشی اور تخریج سے مزین کر کے ان کی صداقت کو یقینی بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کتاب میں سلطان باہوؒ، خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ، اور شیخ بو علی قلندر جیسے چشتیہ مشائخ کے بلوچستان سے تعلقات پر نادر معلومات شامل ہیں، جو دیگر کتب میں کم ہی دستیاب ہیں۔
کتاب میں شامل تصاویر، اور دیگر دستاویزی مواد اس کی افادیت کو بڑھاتے ہیں، خاص طور پر نادر تاریخی مقامات، مزارات اور کی عکاسی نے اسے کتاب کو بصری دلچسپی کا مرکز بنا دیا ہے۔ تاہم، اگر مزید تفصیلی نقشوں، شجرہ جات، یا خط زمانی (Timeline) کا اضافہ ہوتا تو مواد کی ترتیب اور تاریخی تسلسل کو سمجھنے میں مزید آسانی ہوسکتی تھی۔ نیز، بعض ابواب میں غیر ضروری تفصیلات یا تکرار واقع ہوئی ہے، جسے مختصر کر کے کتاب کو زیادہ مربوط بنایا جا سکتا تھا۔ اگرچہ کتاب کی ترتیب عمومی طور پر تسلی بخش ہے، لیکن بعض جگہوں پر ابواب کے درمیان ربط کمزور محسوس ہوتا ہے۔ اگر اس کی ترتیب میں مزید غور کیا جاتا تو تاریخی تسلسل زیادہ واضح ہوسکتا تھا۔ کتاب کے آخر میں ”چشتیہ تعلیمات کے بلوچستان کی ثقافت پر اثرات‘‘ جیسا کوئی مستقل باب بھی تحریر کر دیا جاتا تو موضوع کی تکمیل ہوتی۔
کتاب کا ایک اہم پہلو جس پر مزید توجہ دی جا سکتی تھی، وہ چشتیہ سلسلے کے موجودہ دور میں بلوچستان پر اثرات کا تجزیہ تھا۔ مثال کے طور پر، آج بھی بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں چشتیہ مشائخ کی تعلیمات کے فروغ کی کاوشیں، مقامی شاعری میں صوفیانہ تعلیمات کی جھلک، یا دورِ جدید میں چشتیہ سلسلے کی بحالی کی کوششیں وغیرہ۔ اگر ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی تو کتاب کا دائرہ کار مزید وسیع ہوتا۔
ڈاکٹر اکرم خاورؔ کی زبان انتہائی سلیس، شستہ، رواں اور ادبی ہے، جو قاری کو باندھے رکھتی ہے۔ تاہم، کہیں کہیں اصطلاحات کی زیادہ بھرمار یا قدیم الفاظ کے بے جا استعمال یا طوالت نے عبارت کو گراں بنا دیا ہے۔ اگر ان مقامات پر سادگی کو ترجیح دی جاتی تو کتاب کی رسائی عام قاری تک بھی بڑھ سکتی تھی۔
مجموعی طور پر یہ کتاب نہ صرف تاریخ دانوں، تحقیق کاروں، روحانی و دینی ادب سے شغف رکھنے والوں اور طلباء کے لیے ایک اہم اضافہ ہے، بلکہ ان تمام قارئین کے لیے قیمتی ارمغان ہے جو بلوچستان کی اسلامی تہذیب، صوفیاء کے کارناموں اور روحانی ورثے میں دلچسسپی رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر اکرم خاورؔ نے اپنی محنت، دیانت، علمی رسوخ اور لگن سے ایک ایسا کام پیش کیا ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے بلوچستان کی دینی و روحانی تاریخ کا ایک معیاری ماخذ بنے گا۔ اگرچہ کتاب کی ترتیب اور ابواب بندی میں کچھ کمی سی محسوس ہوتی ہے، نیز بعض غیر ضروری تفصیلات کو حذف کر کے اسے زیادہ جامع بنایا جا سکتا تھا، لیکن اس کے باوجود یہ اپنے موضوع پر ایک شاندار کاوش ہے.
یہ کتاب صرف تاریخی واقعات کا احاطہ ہی نہیں کرتی، بلکہ اس خطے کی گم شدہ دینی و روحانی روایات و میراث کو زندہ کرنے اور نئی نسل تک منتقل کرنے کا بھی ایک موثر ذریعہ ہے۔ امید ہے کہ یہ تحقیق بلوچستان کی مذہبی تاریخ کے میدان میں ایک سنگ میل ثابت ہوگی.