فصیل اندر شہر لاہور – فرخ سہیل گوئندی

لاہور پر بہت کتابیں لکھی گئیں۔ شہروں کی تاریخ لکھنے کے حوالے سے لاہور صرف مؤرخین ہی نہیں، ادیبوں کا بھی پسندیدہ موضوع ہے۔ اس تاریخی شہر پر ناولوں اور افسانوں کے علاوہ فلمیں اور ٹی وی ڈرامے بھی بنے۔ لاہور کو برصغیر کا رومانوی شہر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ دریائے راوی کنارے آباد اس شہر پر مختلف آراء ہیں، جب کہ میرا یہ ماننا ہے کہ آرکیالوجی کے حوالے سے یہ ایک ہڑپائی شہر ہے۔ پنجاب کے اندر ایسی لاتعداد ڈھیریاں (ٹیلے) ہیں جو ماہرین آثارِ قدیمہ نے ثابت کیا کہ وہ ہڑپائی بستیاں تھیں۔ یقینا لاہور کے نیچے ایسی ہڑپائی بستیاں دفن ہیں۔ حتٰی کہ راوی کے دوسری طرف ان ہڑپائی بستیوں کے آثار ملے ہیں۔ جو لوگ بادشاہوں سے تاریخ تلاش کرتے ہیں، وہ درحقیقت حکمرانوں کی تاریخ بیان کرتے ہیں۔ تاریخ قوموں کی تہذیب سے بنتی اور ابھرتی ہے۔ اسی لیے جو لوگ کسی حکمران ”لہو‘‘ کی مناسبت سے اس شہر لاہور کی تاریخ بیان کرتے ہیں، وہ ایک غیرمنطقی دلیل ہے۔ لاہور کی تاریخ ایک دو ہزار سال سے زیادہ قدیم ہے۔ یہ شہر لاہور اُس وقت بھی آباد تھا جب سکندر مقدونی کو دریائے جہلم کنارے پنجاب کے عظیم سپوت راجا پورس نے ناکوں چنے چبوا دیئے اور اس کو راجا پورس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت دریا کنارے ساتھ ساتھ پنجند جانے تک کی اجازت ملی جہاں اس نے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ زخمی سکندر مقدونی ایک بحری بیڑے کے ذریعے بحیرہ عرب میں داخل ہوا اور آدھی فوج گوادرسیا کے راستے روانہ ہوئی (قدیم یونانی، موجودہ بلوچستان کو گوادرسیا کہتے تھے، گوادر بھی اسی نام سے نکلا)۔ کہتے ہیں کہ سکندر نے اپنی فوج کو سزا دینے کے لیے گوادرسیا کے راستے واپسی کا حکم دیا اور یہ ساری شکست خوردہ فوج گوادرسیا (بلوچستان) کے سنگلاخ پہاڑوں اور ریگستانوں میں سسک سسک کر مر گئی اور زخمی سکندر مقدونی واپسی کا سفر مکمل کرنے کے بعد اس جہانِ فانی سے رخصت ہوا۔ یہاں ایک اور غلط تصور بیان کرتا چلوں، یہ جو جملہ استعمال کیا جاتا ہے ”پنجاب نے ہمیشہ حملہ آوروں کا استقبال کیا ہے۔‘‘ یہ جملہ ہر حوالے سے غلط ہے۔ کوہِ ہندوکش کو پار کرنے والے حملہ آور کاکیشیا کے پہاڑوں، ایران کے ریگستانوں اور میدانوں اور ہندوکش کے بلند و بالا پہاڑوں کو اڑ کر عبو رکرتے اور پھر پنجاب اترتے تھے؟
پنجاب کی سرزمین برصغیر کی تاریخ کا جھومرہے، اوراس جھومر کی پیشانی ہے لاہور۔ اسی لیے اس شہر لاہور پر فلمیں، افسانے، کتابیں، ڈرامے اور شاعری ہر دور میں لکھے جاتے رہے۔ آج میں ایک ایسی ہی بہت دلچسپ کتاب پر لکھ رہا ہوں، ”میرا شہر لاہور‘‘۔ یونس ادیب مرحوم کی کتاب جو دوبارہ چھپ کر میرے سامنے ہے۔ یونس ادیب، پنجاب کے دل لاہو رکا ایک شان دار کردار تھے اور اپنے شہر کی تاریخ پر نازاں تھے۔ انہوں نے فصیل لاہو رکے داروغہ محمد علی کو دیکھ رکھا تھا، فصیل شہر کا آخری داروغہ، جو شہر کے سارے دروازے بند کرنے اور کھولنے کا اختیار رکھتا تھا۔ یونس ادیب مرحوم نے محمد علی سے فصیل شہر کے اندر بسنے والے اُن کرداروں کی داستانیں سن رکھی تھیں جو یونس ادیب کے جنم سے بھی پہلے اس شہر اور جہان کو چھوڑ گئے۔ یونس ادیب، ساغر صدیقی کے بھی دوست تھے اور ہم ہر سال ساغر صدیقی کی قبر پر اس فقیر شاعر کی برسی مل کر مناتے تھے۔ ایک ایسے لاہور پر لکھی یہ کتاب تاریخ کی گواہی ہے۔ برصغیر کے اہم ترین شہر کی کہانی، جہاں آل انڈیا نیشنل کانگرس نے راوی کنارے ہند کی مکمل آزادی کا اعلان کرنے کے لیے جلسے کا انعقاد کیا اور اسی شہر میں آل انڈیا مسلم لیگ نے محمد علی جناح کی صدارت میں قراردادِ لاہور منظور کی جس کے تحت آزادی پاکستان کا سفر شروع ہوا۔
یونس ادیب کی کتاب ”میرا شہر لاہور‘‘ اس شہرِ رومان کے اُن کرداروں کا ذکرکرتی ہے جنہوں نے اس قدیم بستی کے اندر جنم لیا، یہاں پروان چڑھے اور پھر پورے ملک میں نام کمایا۔ اس میں ایسے ایسے دلچسپ کرداروں کا ذکر ہے کہ کتاب پڑھتے ہوئے رکنے کو دل ہی نہیں چاہتا۔ کرداروں کے علاوہ ایسے ایسے مقامات کا ذکر ہے کہ پڑھ کر فصیل اندر شہر کو کتاب کے اندر جھانکنے کا موقع مل جاتا ہے۔ فصیل کے اندر موجود پانی کے کنووں کا ذکر، موتی بازار میں حویلی کابلی مَل میں سکھوں کے ایک جرنیل الٰہی بخش کا کنواں جو ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے لیے شہر بھر میں مشہور تھا۔ موچی دروازے کا لال کھوہ اور ٹھنڈی کھوئی۔ اس وقت فصیل اندر ہینڈ پمپ متعارف نہیں ہوئے تھے۔ یہی کنویں پانی کا بڑا ذریعہ تھے۔ یونس ادیب انہی کنووں کا ذکر کرتے ہیں جن کے ٹھنڈے میٹھے پانیوں کو پی کر وہ جوان ہوئے اور اُن کنووں کے گرد لگنے والی محفلیں، لاہور شہر میں لگنے والے میلوں کا ذکر، دیوالی، دسہرہ، ہولی، دسویں محرم اور عیدین۔ لاہور کی تاریخ کے ایک دور پر یہ کیا شان دارا ور منفرد کتاب ہے! انہی کرداروں میں ایک ”دینا بے غیرت‘‘ بھی ہے ۔ دلچسپ داستان ہے اس دینے بے غیرت کی۔ اپنے پڑوسی ہریش چند کی بہن راج، جو یونس ادیب کو راکھی باندھا کرتی تھی، اس کتاب کا ایک انمٹ کردار ہے۔ دو مذاہب پر ایمان رکھنے والوں کے مابین خوش گوار تعلقات پر مبنی ایک کردار۔ لاہور کے تھڑے کلچر پر پورا ایک باب ہے جس میں تھڑوں پر سجنے والی محفلوں کا ذکر ہے کہ اس وقت لاہور کی سماجی زندگی کس طرح کی تھی۔ گونگا اور گاماں پہلوانوں کا ذکر۔ ان تھڑوں پر سیاست کے جو تجزیے پیش کیے جاتے تھے، اُن کا ذکر، حتیٰ کہ لاہور کی گلیوں اور گالیوں کا ذکر۔ یونس ادیب لکھتے ہیں: ”ایک اورخاص بات تھڑا کلچرمیں یہ تھی کہ تھڑوں پر بیٹھنے والے گالیوں میں ماسٹرہوتے تھے۔ لاہورمیں گالیوں کی بہت بڑی یونیورسٹی یہ تھڑے تھے اورلاہورئیے اپنی گالی کے انداز اور اسلوب میں بڑے یکتا تھے۔ گالیوں میں قافیہ، ردیف اور باقاعدہ ردھم ہوتا تھا. کبھی کبھی تھڑوں پرگالیوں کا مقابلہ شروع ہو جاتا تھا اوربڑی بڑی کلاسیکل گالیاں سننے میں آتی تھیں اوربعض اوقات گالیاں کھانے میں ہارنے والے ایسے بدمزہ ہوتے تھے کہ ایک دوسرے سے گھتم گتھا ہو جاتے تھے۔ عبدالرحمٰن، جسے عام طور پر ڈشکرا کہا جاتا تھا، گالیوں کے مقابلے اکثرجیت جاتا تھا اور اسے دوسرے محلوں میں مہمانِ خصوصی کے طور پر لے جایا جاتا تھا۔ ویسے بھی گالیاں محلہ بہ محلہ اورکوچہ بہ کوچہ سفرکرتی تھیں۔ بعض اوقات ایک گالی کافی عرصہ تک استعمال ہوتی تھی اور ضرب المثل بن جاتی تھی، بچوں تک یہ گالیاں تھڑا بازاروں کے ذریعے پہنچتی تھیں۔‘‘
”میرا شہر لاہور‘‘ کے دیباچے کارواں سرائے میں اشفاق احمد مرحوم لکھتے ہیں:
”سائیں بابا!خیراں، موجاں اور لہراں۔ مرشد کی دعا برکت سے ظلمات سے نورکی جانب سفرنصیب ہووے۔ تمہاری لاہور والی کتاب نے تومجھے بیمارکردیا۔ شام کے وقت ملی۔ ذراادھرادھرسے دیکھنے بیٹھا تورات پڑگئی۔ گھروالوں نے کھانے کے لیے بلایا تو میں نے کہا ابھی اُٹھتا ہوں۔ رات 1:15 بجے ساری کتاب ختم ہوگئی لیکن جن کرداروں کے ساتھ سفرشروع کیا تھا، انہوں نے نہیں چھوڑا کہ ”بابا اب جاتے کہاں ہو؟‘‘۔ بیماراس لیے ہوا کہ صوفے پرٹیڑھا سا لیٹ کے کتاب شروع کی تھی تو اسی طرح لیٹارہا۔ اب کڑل پڑگیا ہے۔ سوٹی پکڑ کر چلتا ہوں۔ اللہ نے آپ کوزبان کا جو ملکہ اورتحریر کی جو روانی عطا فرمائی ہے وہ کسب سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ میں بھی اس میدان کا کھلاڑی ہوں لیکن فل بیک کی حیثیت میں رہتا ہوں۔ آپ کا، تحریر کا چلن سجے اورکھبے پاسے ایک طرح کا ہے۔ میں تویہ کتاب دیکھ کرنہال ہوگیا ہوں۔‘‘
جنگِ عظیم دوئم کا لاہور کا زمانہ دیکھیں ذرا کہ کیا تھا: ”دوسری جنگ عظیم شروع ہوچکی تھی۔ اندرون شہرمیں مٹی کے تیل کی جو بوتل ایک آنے میں ملتی تھی۔ اب ڈپوﺅں پرچارآنے میں ملتی تھی اورسب سے بڑا ڈپو مچھی ہٹی (شاہ عالمی دروازہ) میں تھا اورتیل لینے والوں کی قطاریں چوک رنگ محل تک لگی رہتی تھیں۔ سائیکلوں کی ٹیوبیں مہنگی ہوگئی تھیں اوراندرون شہرمیں سبھاش چندر بوس کی آزاد فوج کی باتیں سنائی دینے لگی تھیں۔ جرمن ریڈیو سننے پر پابندی تھی اورکلکتے پر بمباری کے فوراً بعد چاچا غوث اور رحیمی پہلوان کلکتہ سے لاہور پہنچ گئے تو لوگوں کومعلوم ہوا کہ جاپانی فوجیں ہندوستان میں داخل ہونے والی ہیں اوراندرون شہرمیں شاہی محلے کی طرف جانے والے ہندوستانی فوجیوں کو دیکھ کراندازہ ہوتا تھا کہ جنگ تیزہوچکی ہے۔‘‘
”میرا شہر لاہور‘‘ دلچسپ کتاب بھی ہے اور اس شہر کے باسیوں کی سماجی زندگی کی جڑیں بیان کرتی ہے جن کے بارے میں پورے برصغیر میں مشہور ہے، ”زندہ دلانِ لاہور۔‘‘

(نئی بات)


264 صفحات پر مشتمل کتاب ”میرا شہر لاہور‘‘ کو ”جمہوری پبلیکیشنز، لاہور‘‘ نے شائع کیا ہے۔