ہر دور کا ایک شعور ہوتا ہے اور اس شعور کو سمجھے بغیر اس دور کے فیصلوں کو سمجھا نہیں جاسکتا۔ تاریخ کا سرسری مطالعہ ہمیں کسی بھی دور کے فیصلوں سے تو آگاہ کرتا ہے لیکن اس شعور سے آشنائی نہیں دلاتا جس کے زیرِ اثر وہ فیصلے ہوئے ہوتے ہیں۔
اگر آپ انیسویں اور بیسویں صدی میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر دوڑائیں اور اکیسویں صدی کے شعور کے ساتھ اس دور کے فیصلوں اور واقعات کو سمجھنا چاہیں تو یہ ممکن نہیں ہوسکتا۔ کمیونزم کی قبولیت کا معاملہ ہو یا کارل مارکس کے نظریات کی مقبولیت کا، جنگیں ہوں یا آزادی کی تحریکیں، مشاعروں کی مقبولیت کا معاملہ ہو یا ادب کی قدردانی کا، اخبار کا ایک عام شہری کی زندگی میں اہمیت کا معاملہ ہو یا پھر ریڈیو کے ارتقا کا معاملہ، نوآبادیاتی نظام کے کل پرزوں کی بات ہو یا انتظامی ڈھانچے پر عمل درآمد کا معاملہ، جب تک ان کے پیچھے کارفرما شعور کو نہ سمجھا جائے، تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔
کسی بھی دور کی کی ثقافت، رہن سہن، رسم ورواج ، سیاست، سماج، تجارت وغیرہ کو سمجھنے کے لیے میرے نزدیک سوانح عمریوں سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ لوگوں کی زندگی کی داستان، انسانی فکر کا ارتقا دکھاتی ہے۔ انسانی معاشرت اور بدلتی ہوئی ذہنیت سکھاتی ہے۔ جیسے لفظ قوم کے معنی اور مفہوم ماضی میں وہ نہیں تھے جو آج سمجھے جاتے ہیں، آج کا سیاسی شعور اس شعور سے بہت مختلف ہے جو ایک صدی پہلے رائج تھا۔ ذیل میں ان سوانح کی فہرست ترتیب دی ہے جن کا تعلق ہندستان اور اس کی تمدن سے جڑا ہے:
”یادوں کی برات‘‘ از جوش ملیح آبادی:
ایک محاورہ اکثر بولا جاتا ہے، لفظوں کی جادوگری۔ کسی نے اگر اس جادوگری کا عملی ثبوت دیکھنا ہے تو وہ ”یادوں کی برات‘‘ کھول لے۔ بہت سے اخلاقی اعتراضات کے باوجود اس کتاب کا ادبی وزن بہت زیادہ ہے۔ یہ صرف ایک شاعر کی زندگی کی کہانی ہی نہیں بلکہ ہندستان کی تاریخ، ثقافت اور تہذیب کی ایک تصویر ہے۔ جس قدر دلچسپ انداز میں لکھی گئی ہے، اس کی تحریر ساری عمر آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتی.
”جب تک میں زندہ ہوں، مجید نظامی کی کہانی، ان کی زبانی‘‘ از عائشہ مسعود:
افغان باقی کہسار باقی… نوائے وقت گروپ کے سابق مدیر، مجید نظامی کی داستانِ حیات، جو عائشہ مسعود نے ترتیب دی ہے۔ اگر کتاب مجید نظامی کی زبانی لکھی جاتی اور محترمہ اپنی اُردو علمیت جھاڑنے کے لیے بھاری بھر کم الفاظ کا استعمال کم کرتیں تو کتاب کا انداز بہت دلچسپ ہوجاتا۔ لیکن بہرحال پاکستان کی سیاسی تاریخ کو سمجھنے کے لیے بہت زبردست کتاب ہے.
راجہ انور کی کتاب، ”قبر کی آغوش‘‘:
یہ کتاب ”جُھوٹے روپ کے درشن‘‘ سے شہرت پانے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے راجہ انور کی افغانستان کی بدنام زمانہ جیل پل چرخی میں گزرے دنوں کی داستان ہے۔ یہ صرف جیل کی ایک داستان ہی نہیں بلکہ افغان ثقافت اور جنگ کو سمجھنے کے لیے بہت دلچسپ کتاب ہے۔
”رسیدی ٹکٹ‘‘ از امرتا پریتم:
پنجابی زبان سے سے محبت کرنے والوں کے لیے امرتا پریتم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اگرچہ ان کا اپنا ایک مخصوص انداز ان کی پہچان ہے لیکن جو روانی اور اسلوب اس کتاب میں ہے، وہ بہت مسحور کن ہے۔ یہ کتاب امرتا کی زندگی کے بہت سے پہلو سامنے لاتی ہے.
”وہ بھی کیا دن تھے‘‘ از حکیم محمد سعیدؒ شہید:
اگرچہ یہ کتاب بچوں کے لیے لکھی گئی لیکن ہندستان کے رسم ورواج، گھروں میں رہنے کے سلیقے، آداب اور تہذیبی گھرانوں کے ماحول پر گہری روشنی ڈالتی ہے۔ بڑے لوگ بھی کبھی بچے ہوتے تھے، وہ بھی شرارتیں کیا کرتے تھے۔ حکیم صاحب نے لکھتے وقت خود کو بالکل ایک بچہ بنا کر اپنی شرارتیں اور زندگی کے پہلوؤں کو قلم بند کیا ہے.
”رفعتوں کی تلاش‘‘ از اسد اللہ غالب:
امریکی صنعتی ترقی سے متاثر نوجوان محمد رفیع بٹ کی پو شیدہ زندگی کو ڈھونڈنے کی اسداللہ غالب کی ایک کوشش ہے جو بہت کم عمری میں بورے والا کے قریب پرائیویٹ جہاز کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ رفیع بٹ کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا رائٹ ہینڈ سمجھا جاتا تھا۔
ڈاکٹر مبارک علی کی خود نوشت، ”دردر ٹھوکر کھائے‘‘:
تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لیے ڈاکٹرمبارک علی کا نام اجنبی نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب جس دلچسپ انداز سے تاریخ لکھتے ہیں، اتنے ہی دلچسپ انداز میں اپنی زندگی کی کہانی لکھی ہے۔ مفلسی کی دہلیز سے اٹھ کر اپنی تعلیم کیسے پائی اور کیسے تاریخ کے شعبے میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیں صرف کیں، ہمارا نظام کیسے رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے اور کیسے ان کو عبور کیا جاتا ہے، یہ کتاب ان سب باتوں کو سمجھنے میں بھی کافی مدد دیتی ہے کہ ہماری روایات اور اقدار کسی طرح سماجی ڈھانچے کی نشان دہی کرتی ہیں۔
جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب ”اپنا گریبان چاک‘‘:
جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک بار کہا تھا کہ جاوید اقبال کو پیدا ہوتےہی جاوید منزل کے ایک پنجرے میں قید کر دیا گیا تھا اوروہ ساری عمر اقبالؒ کے نام کے ساتھ جیتے رہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر ان کی یہ بات درست لگتی ہے کہ اقبالؒ کے بیٹے سے وہ توقعات پوری ہوتی نظر نہیں آتیں جن کی توقع وابستہ کرلی جاتی ہے۔ پوری کتاب میں کہیں بھی نظر نہیں آتا کہ وہ کوئی غیر معمولی شخصیت تھے۔ ہر جگہ وہ اقبالؒ کا زینہ چڑھتے نظر آتےہیں۔ لیکن بہت سے واقعات کے عینی گواہ ہونے کی وجہ سے یہ کتاب تاریخی دستاویزات کی حیثیت رکھتی ہے.
”کچھ یادیں کچھ باتیں‘‘ از شوکت تھانوی:
یہ اُردو ادب کے ابتدائی مزاح نگار کی حیثیت سے جانے پہچانے ادیب شوکت تھانوی کی اپنی زندگی کے کچھ گوشوں سے پردہ ہٹاتی کتاب ہے.
”لمحوں کا سفر‘‘ از محمد اسلم لودھی:
روزنامہ نوائے وقت پڑھنے والے قارئین کے لیے اسلم لودھی کا نام شاید نیا نہ ہو لیکن پھر بھی ان کا نام یا شخصیت اتنی معروف نہیں۔ شائد اسی لیے اس اس کتاب کو وہ پزیرائی نہیں ملی، جو اس کا حق تھا۔ ”لمحوں کا سفر‘‘ میں ہماری غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے اور مڈل کلاس کے گھروں کے رہن سہن، ان کی ثقافت اور رواج کو سمجھا جاسکتا ہے۔ مصنف نے بہت سے کردار بنائے ہیں، پھر ان کے گرد کہانیاں اکھٹی کی ہیں. اس طرح یہ کتاب صرف مصنف کی زندگی بیان کرتی نظر نہیں آتی بلکہ معاشرے میں بکھرے ان گنت کرداروں کی کہانی سناتی ہے. یہ محض ایک کتاب نہیں ہے، ایک جدوجہد کی داستان ہے۔ ریلوے کواٹرز کے اردگرد سے شروع ہونے والی داستان نصف صدی پر محیط ہوجاتی ہے.
دیوان سنگھ مفتوں کی آپ بیتی، ”ناقابل فراموش‘‘:
دیوان سنگھ مفتوں کو ہندستان کی صحافت کا گرو کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اپنے دور میں تحقیقی صحافت کی بنیاد رکھنے والا اور بریکنگ نیوز کا ماہر دیوان سنگھ مفتوں۔ اس کتاب میں مصنف نے مختلف موضوعات کے حوالے سے یادداشتوں کو یک جا کیا ہے جو ہندستان کی تحریکِ آزادی اور سیاسی کشمکش کی اندرونی کہانیوں پر بڑی گہری روشنی ڈالتی ہیں۔
”علی پور کا ایلی‘‘ از ممتاز مفتی:
مفتی صاحب کے اس اقرار کے بعد کہ یہ کتاب محض ایک ناول نہیں بلکہ ان کی اپنی زندگی کی کہانی ہے، اس کتاب کو سوانح کی فہرست میں رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگرچہ ابتدایہ کافی طویل اور اُکتا دینے والا ہے۔ کرداروں کو سمجھنے میں بھی کافی وقت لگتا ہے لیکن اس کے بعد آخری صفحہ تک آپ ایلی کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ زندگی کی بھول بھلیوں میں کھونے کے بعد جس طرح شہزاد کی یادوں کو نکالتا ہے اس کا احساس ناقابل بیان ہے۔ پوری کتاب میں کردار بکھرے ہوئے ہیں. ہر کردار کے ساتھ ایک کہانی شروع ہوجاتی ہے لیکن جو تپش، جو خلش شہزاد کا کردار پیدا کرتا ہے اسے پڑھتے ہوئے بار بار دل ڈولتا ہے۔ جو کردار نگاری اور منظر نگاری پوری کتاب میں کی گئی ہے وہ ایک ایسا طلسم ہے جو آپ کو اپنے حصار سے نکلنے نہیں دیتا۔
”سرگزشت‘‘ ذوالفقار علی بخاری:
پطرس بخاری کے بھائی زیڈ اے بخاری جو پہلے انڈیا اور بعد میں پاکستان میں ریڈیو براڈکاسٹر رہے۔ بہت اچھے ادیب، شاعر اور موسیقار بھی تھے۔ یہ داستان مختلف موضوعات کو لے کر یک جا کی گئی ہے۔ ہندستان میں براڈکاسٹنگ کی تاریخ کو بہت خوب صورت اور دل چسپ انداز میں بیان کیا گیا۔ یہ صرف ایک شخص کی داستان ہی نہیں بلکہ ہندستان کی ثقافت اور تہذیب و تمدن کو سمجھنے کے لیے بہت اعلٰی کتاب ہے اورتاریخ کے گمشدہ اوراق کو ڈھونڈنے میں مدد دیتی ہے۔
”میری کہانی‘‘ از اشتیاق احمد:
انسپکٹر جمشید کے خالق اشتیاق احمد کی ان تھک محنت، لگن اور جدوجہد کی داستان۔ نا صرف ہمیں ایک شخص کی ذاتی زندگی کے پہلوؤں سے روشناس کرواتی ہے بلکہ کتاب کی طباعت اور اس کی راہ میں درپیش مسائل سے بھی آگاہ کرتی ہے.
”بجنگ آمد‘‘ از کرنل محمد خان:
یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ نے ”بجنگ آمد‘‘ پڑھی ہو اور آپ دیوانہ وار کرنل محمد خان کی دوسری کتابوں کی تلاش میں نکل نہ پڑے ہوں۔ کرنل محمد خان کا لکھنے کا انداز اس قدر دلچسپ ہے کہ وہ آپ کو اس عورت کی صرف آنکھوں کا حسن بیان کرکے عشق میں مبتلا کرسکتا ہے، جس کے دانت گرے ہوئے بھی عرصہ گزر چکا ہو۔ مزاح نگاری میں میرا پہلا ووٹ یوسفی کے لیے، دوسرا کرنل محمد خان اور تیسرا شفیق الرحمٰن کے لیے ہے اور چوتھے پانچویں نمبر پر بہت سے احباب آتے ہیں۔ ”بجنگ آمد‘‘ میں کرنل محمد خان کی فوج کے ساتھ وابستگی کے ابتدائی دنوں کی داستان درج ہے.
قدرت اللہ شہاب کا ”شہاب نامہ‘‘:
اس کتاب پر کوئی تبصرہ بنتا ہی نہیں۔ یہ صرف شہاب کی داستانِ حیات ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ابتدائی سالوں کی تاریخی دستاویزات کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ صرف ایک طویل داستان ہی نہیں بلکہ ایک ادبی شہ پارہ بھی ہے.
”سوانح عمری، حضرت خواجہ سید حسن نظامی دہلوی‘‘ از ملا واھدی صاحب دہلوی:
اگر کسی نے ”بیگمات کے آنسو‘‘ کتاب نہیں پڑھی تو اسے جنگ آزادی کے اسباب اور اس کے نتائج پر تبصرہ کرنے کا بھی کوئی حق نہیں دیاجا سکتا۔ ”بیگمات کے آنسو‘‘ اور جنگ آزادی 1857ء اور بے شمار کتابوں کے خالق خواجہ سید حسن نظامی کی زندگی پر لکھی گئی یہ کتاب اس لحاظ سے کافی دلچسپ ہے کہ یہ ہندستان کے رہن سہن کو سمجھے کے لیے بہت گہرائی مہیا کرتی ہے۔
”پرواز‘‘ از اے پی جے عبدالکلام:
بھارتی میزائل ٹیکنالوجی کا بانی سمجھے جانے والے عبدالکلام کی زندگی کی کہانی، جو نا صرف ان کی زندگی کے گوشوں کو عیاں کرتی ہے بلکہ بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی کو سمجھنے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے.
رحیم گل کی کتاب ”داستان چھوڑ آئے‘‘:
”جنت کی تلاش‘‘، ”وادی گمان سے‘‘، ”ترنم‘‘، ”تن تن تارہ‘‘ اور ”پیاس کا دریا‘‘ جیسی کتابوں کے خالق رحیم گل کو ہماری ادبی تاریخ میں وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ حق دار تھے۔ وہ نثر میں شاعری لکھنے کا ہنر رکھتے تھے۔ اپنے زندگی کی داستان لکھتے وقت بھی اپنے انداز کو نہیں چھوڑا۔ ایڈونچر سے بھرپور اس داستان کو ایک بار شروع کر دیں تو پھر آخری صفحہ تک آپ ساتھ نہیں چھوڑتے.
”آپ بیتی‘‘ از موہن داس کرم چند گاندھی:
یہ کتاب صرف مہاتما گاندھی کی زندگی پر روشنی نہیں ڈالتی بلکہ ان کی جدوجہد اور ہندستان کی آزادی کی تحریک کو سمجھنے میں بھی بہت مدد دیتی ہے.
”آزادی ہند‘‘ از مولانا ابوالکلام آزاد:
برصغیر کی تقسیم کو اس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا جب تک آپ دونوں پارٹیوں کے موقف کو اچھی طرح جان نہیں لیتے۔ لیکن یہ کتاب صرف آزادی یا تقسیم کی کہانی نہیں بلکہ ایک ادبی سرمایہ بھی ہے جو ابوالکلام کی زندگی کے سفر کو بیان کرتی ہے۔ یہ کتاب ہندستان میں اٹھنے والی اصلاحی تحریکوں اور انقلابی کرداروں سے پردہ اٹھاتی ہے۔
خشونت سنگھ کا ”سچ، محبت اور زرا سا کینہ‘‘:
خشونت سنگھ کے نام سے کون واقف نہیں۔ آپ ایک ایسے صحافی اور ادیب کی حیثیت سے جانے جاتے تھے جو پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ آپ لاہور سے اپنی عملی زندگی کا آغاز، ایک وکیل کی حیثیت سے، کرنے کی وجہ سے کبھی لاہور کو خود سے جدا نہ کر سکے۔ ”روڈ ٹو پاکستان‘‘ سے اپنی ادبی شناخت بنانے والے خشونت سنگھ نا صرف ایک ادیب اور صحافی تھے بلکہ سکھ ہسٹری پر ایک مستند تاریخ دان سمجھے جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے قیام کو سمجھنے کے لیے بھی خشونت سنگھ کی تحریروں کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ ان کی زندگی کی اس داستان میں وہی بولڈ انداز موجود ہے جو عام طور پر ان کی تحریروں کا خاصہ سمجھا جاتا ہے اور بہت سے لوگ سڈنی شیلڈن کے ناولوں کی طرح ان متنازعہ حصوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں ٹیبو سمجھے جاتے ہیں.
”سچ کا سفر‘‘ از صدرالدین ہاشوانی:
یہ زندگی اور کاروبار کی اونچ نیچ پرلکھی ایک دلچسپ داستان، لیکن اس سے بڑھ کر پاکستان کے بہت سے گمشدہ اور پردوں میں چھپے انکشافات سے بھرپورکتاب ہے.
درج بالا کتب کے علاوہ کچھ اور کتابیں بھی موجود ہیں جو اس فہرست کا حصہ بنائی جاسکتی ہیں لیکن مضمون کی طوالت کی وجہ سے ان کو کسی اور حصے میں جگہ دی جائے گی.