میں نے اور آپ نے بھی بے شمار آدمی دیکھے ہیں۔ سبھی دیکھتے ہیں لیکن دو آدمی مجھے ایسے نظر آئے جنھیں میں انگریزی محاورے میں ’’اپ رائٹ‘‘ آدمی سمجھتا ہوں اور ان کا معترف ہوں۔ یوں ہی نہیں دل و جان سے۔ پہلے اپ رائٹ آدمی قائد اعظم محمد علی جناحؒ تھے۔
ادیبوں اور شاعروں میں مجھے اپ رائٹ آدمی اپنے معاصرین اور اپنے دور میں جو نظر آئے ان میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں جناب مشتاق احمد یوسفی۔ میں انھیں عصر حاضر کے ادب کا اپ رائٹ آدمی قرار دیتا ہوں، کیوں کہ ان کے یہاں بھی استقامت اور دبدبہ، دونوں بہت نمایاں ہیں۔ نمایاں کیا ہیں ان کی گفتار اور کردار کا جزو لازم ہیں۔
میں نے یوسفی صاحب کا بہت تذکرہ سنا تھا۔ ان کی تحریریں نظر سے گزریں تو لوٹ گیا۔ تذکرہ کرنے والوں میں شاہد بھائی (شاہد احمد دہلوی مرحوم) تھے جو ان کے اسلوب کی براقی کے بڑے مداح تھے۔ حقی صاحب تھے جو یوسفی صاحب کے کمالِ فن پر فدا تھے اور بھی بعض دوستوں اور بزرگوں کے حسن توسط سے پیراہن یوسفی کی خوشبو پہنچی لیکن ملاقات کی نوبت نہیں آئی اور نہ شخصیت کی کوئی تہ تجربات سماعی کی بنا پر کھلتی محسوس ہوئی۔ محمد حسین آزاد کی اُردو ریڈریں یوسفی صاحب نے مجھ سے منگوائیں۔
مجھے خاصا تعجب ہوا اور یہ احساس بھی ہوا کہ یوسفی صاحب صرف لکھنے والے ادیب نہیں پڑھنے والے ادیب بھی ہیں۔ شخصیت کی ایک تہ تو کھلی مگر وہی تجربہ سماعی کے توسط سے۔ پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک دن ٹی وی پر ایک اشتہار نظر سے گزرا کہ سوال جواب کے ایک پروگرام میں کل یوسفی صاحب رونق افروز ہوں گے۔ چناںچہ دوسرے دن ہمہ تن شوق بن کر وقت مقررہ پر ٹی وی کے سامنے کنبے سمیت بیٹھ گیا۔ یوسفی صاحب کا روئے زیبا نظر آیا۔ متین، سنجیدہ اور اپ رائٹ۔ ایک خاتون بھی پروگرام میں شریک تھیں۔
سوال کرنے والے نے پہل انھیں سے کی۔ وہ کسی ڈرائیونگ اسکول کی پرنسپل تھیں۔ ڈرائیونگ سکھانے کے اسرار و رموز پر گفتگو کرتی رہیں۔ ان کے ایک بیان پر یوسفی صاحب نے سوکھا منہ بنا کر ایسا برجستہ فقرہ کہا کہ دیکھنے والے اچھل پڑے اور پھر جب ان کی باری آئی تو پھلجھڑیاں ہی چھوٹتی رہیں۔ اندازہ ہوا کہ یوسفی صاحب قلم کے دھنی اور اپنے سامعین کے لیے ﷲ غنی ہیں۔ شخصیت کی ایک تہ اور کھلی لیکن یوسفی صاحب میرے لیے بند کتاب ہی رہے۔
اگر آپ کو خوش نصیبی سے یوسفی صاحب کا کوئی ادب پارہ ان کی زبان سے سننے کی سعادت حاصل ہوئی ہے تو اندازہ ہوا ہوگا کہ یوسفی صاحب مضمون پڑھتے نہیں ہیں، جادو کرتے ہیں۔ آواز کا زیر و بم، لہجے کی دلکشی، خیال کی صورت گری، فکر کی برجستگی، شگفتگی کی اچھلتی ڈوبتی، پھیلتی موج بے کراں، روح اور قلب کی گہرائیوں میں اترتی چلی جارہی ہے۔
ایک دن اطلاع ملی کہ یوسفی صاحب آغا خاں میڈیکل یونیورسٹی کی سماعت گاہ میں گفتگو کریں گے۔ خیال آیا کہ حاضرین کم بلکہ بہت کم ہوں گے اس لیے عمداً دیر کرکے پہنچا۔ پہلا دھچکا تو یہ لگا کہ سماعت گاہ میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔
ذرا دیر بعد کارروائی شروع ہوئی۔ حسین جعفری نے تعارفی کلمات ادا کیے۔ خدا خدا کرکے یہ تعارفِ بے جا اختتام کو پہنچا۔ یوسفی صاحب کی باری آئی۔ موصوف نے انتہائی متین اور سنجیدہ انداز میں پہلا جملہ ہی اتنے بھرپور، معنی خیز اور طلسماتی انداز میں ادا کیا کہ ساری محفل لوٹ گئی، فرمایا، ’’صاحبو! یہ زندگی میں پہلا موقع ہے کہ آغا خان اسپتال میں کپڑے اتارے اور فیس ادا کیے بغیر ڈاکٹروں کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘ مسلم کمرشل بینک سے رخصت ہو کر آسٹریلشیا بینک جارہے تھے۔ الوداعی تقریر میں کہنے لگے، ’’اگر یہ اندازہ ہو جاتا کہ رخصت کے موقع پر ایسے اور اتنے قیمتی تحفے ملیں گے تو بہت پہلے رخصت ہوجاتا۔‘‘ کیسا شگوفہ چھوڑا یوسفی صاحب نے، رخصت کے حزنیہ کو طرب آگیں بنا دیا۔
یوسفی صاحب کم نویس ہیں لیکن جو لکھتے ہیں، ’’انتخاب روزگار‘‘ لکھتے ہیں، روایت ہے کہ لکھتے ہیں تو ایک ایک لفظ پر غور کرتے ہیں۔ غور اس لیے کہ پڑھنے والے پڑھیں اور سردھنیں۔ راویوں کا بیان ہے کہ یوسفی صاحب لکھتے ہیں اور پھر اپنے لکھے پر ناقدانہ نگاہ ڈالتے ہیں۔ غلط یہ لفظ، یہ بندش بُری، یہ مضمون سُست، نگاہ ڈالتے جاتے ہیں اور خود اصلاحی کا فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں۔ کاتا اور لے دوڑی کے قائل نہیں۔ ہر ہر لفظ پر خون جگر صرف کرتے ہیں۔
ان کا کل اثاثہ چار کتابیں ہیں۔ بہ انداز محمد حسین آزاد، یہ چار کتابیں نہیں زندگی بھر کی کمائی اور ایوان طنز و مزاح کے چار ستون ہیں۔
صاحبو! یوسفی صاحب کے طنز و مزاح، زندگی کی الٹ پلٹ پر ان کی گہری نظر اور ان کے سجے ہوئے اسلوب پر کچھ عرض کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ یہ کام نقادوں اور سخن طرازوں کا ہے۔ یوسفی صاحب کے یہاں حقیقت اور حقائق سر کے بل، سچے اور مہمل کھڑے نظر آتے ہیں۔ مگر یوسفی صاحب کی تحریر اور اسلوب کا تجزیہ میرے بس کی بات نہیں کیوں کہ میں نہ نقاد، نہ محقق، ادنیٰ درجے کا ایک خاکہ نگار ہوں آپ میرے توسط سے یوسفی صاحب سے ایک سرسری ملاقات ہی کرسکتے ہیں۔
یوسفی صاحب کم آمیز، کم سخن، دوست نواز، احسان شناس اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔ مسلم کمرشل بینک کے اسکاٹ منیجر اور ابدالی والے خاں صاحب کے تذکرے میں سراپا محبت نظر آتے ہیں۔ محبت تو انھیں اپنے پالتو جانور سے بھی تھی۔ اس کا نوحہ بھی بڑا دل دوز ہے۔
ویسے ایک مصدقہ روایت کے مطابق یوسفی صاحب کو ایک بزرگ اور سچے مزاح نگار کی حیثیت سے مارک ٹوئین سے بڑی عقیدت ہے۔ وہ اس کی کتاب ’’ہکل بیری فن‘‘ کو ادبی شاہ کار قرار دیتے ہیں۔ یہ عقیدت اس حد تک ہے کہ جب یوسفی صاحب امریکا گئے تو وہ مارک ٹوئین کا گاؤں بھی دیکھنے گئے۔
وہ کم بولتے ہیں۔ برد بار ہیں، سنجیدہ ہیں۔ ہاں جب بولتے ہیں تو خوب بولتے ہیں۔ خوش خور بھی نہیں۔ گِنے چنے نوالے کھاتے ہیں۔ ہاں کھلانے کے معاملے میں حاتم ہیں۔ احباب کو بوٹ کلب میں جمع کرتے ہیں۔ مہمان کھانا بھی کھاتے ہیں اور سخنِ یوسفی کی لذت سے شاد کام بھی ہوتے ہیں۔ کھانے کھلانے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یوسفی صاحب سب کے ساتھ ہم طعام تو ہوتے ہیں لیکن ان کا خاصا سب سے الگ ہوتا ہے، کیوں کہ وہ پٹھان ہونے کے باوجود سبزی خور ہیں۔ آج سے نہیں ہیں یہ للک لڑکپن سے تھی۔ لڑکپن ہی میں گوشت کھانا چھوڑدیا۔ گھر والوں نے سمجھایا۔ والدہ نے سمجھایا والد ناراض ہوئے لیکن وہ اپنی ہٹ پر اڑے رہے، پھر ایک دن ان کی والدہ نے کہا، ’’تمہارے والد کہہ رہے تھے یہ گوشت اس لیے نہیں کھاتا کہ شاید یہ کسی ہندو لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔‘‘ والد کا یہ خیال یوسفی صاحب کے دل پر اثر کر گیا، انھوں نے گوشت کھانا شروع کردیا۔ بہت دن تک دوستوں سے کبابوں میں ملتے رہے، پھر گوشت خوری کے پھول سوکھ گئے اور وہ ایک بار پھر ’’صراط اللحم‘‘ سے ہٹ گئے۔ اب یہ حالت ہے کہ میز پر اگر سبزی نہ ہو تو وہ سلاد سے روٹی کھا لیتے ہیں۔
ویسے یوسفی صاحب کو جانوروں سے بڑا لگاؤ ہے۔ کتا پال چکے ہیں۔ مرغیاں پالی ہیں۔ بندر پالا ہے اور مور کی جھنکار سے بھی گھر کو معمور کیا ہے اور مور کو جنگل میں نہیں اپنے گھر میں ناچتے دیکھا ہے۔
کم سونے کے بارے میں سارے راوی خاموش ہیں۔ رہ گئی صحبت ناجنس تو بینکار ہونے کی حیثیت سے بینک کی حد تک اسے گوارا کیا۔ اب نہ کسی جلسے کی صدارت کرتے ہیں نہ کسی کتاب کا دیباچہ لکھتے ہیں۔ ہر چند کہ نئے اور پرانے لکھنے والے دونوں کے دونوں ’’تو بچابچا کے نہ رکھ اسے تر آئینہ ہے وہ آئینہ‘‘ کی صدا لگاتے رہتے ہیں لیکن یوسفی صاحب ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ایسی بھی اصول پرستی کس کام کی کہ آدمی اپنی ہی اصل سے بیگانہ ہوجائے۔ یہاں اصل سے مراد ادیبوں اور شاعروں کی نسل ہے جو ہر لکھنے والے کی اصل شمار ہوتی ہے۔
مجھے یاد آیا کہ جب ’’بی سی سی آئی‘‘ آں جہانی ہوگیا اور اس کے کارکنوں اور کھاتے داروں میں ایک ٹپس پڑ گئی تو ایک دن میں نے ڈرتے ڈرتے یوسفی صاحب کو فون کیا۔ وہ اس سانحے سے پہلے بینک سے سبک دوش ہوچکے تھے لیکن میرا خیال تھا کہ ان کا مالی اثاثہ اسی بینک میں تھا۔ میں نے بینک کی اچانک وفات پر اظہار افسوس کیا اور کہا، ’’غالباً آپ کا اثاثہ بھی اسی بینک میں تھا۔‘‘ یوسفی صاحب نے بڑی طمانیت سے کہا، ’’میرا اثاث البیت محفوظ ہے۔ ‘‘ یوسفی صاحب کے جواب میں روحانی اطمینان کی جھلک محسوس ہوئی۔ میں نے دل میں سوچا کیا آدمی ہیں؟
یوسفی صاحب اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں قاعدے قرینے کے پابند اور سخت افسر مشہور تھے۔ میں نے ان کے ایک رفیق کار کی زبانی ان کی مستعدی، کارگزاری اور محنت کی روداد سنی ہے۔
یوسفی صاحب ساری زندگی بڑے افسر رہے لیکن ان میں بڑے افسروں کی خوبو نہیں ہے۔ ایک شام انھیں گلشن اقبال آنا تھا۔ آزمودہ کار ڈرائیور جب انھیں لے کر رام سوامی ٹاور پہنچ گیا تو یوسفی صاحب کو احساس ہوا کہ ایں رہ کہ ’’تومی روی بہ ترکستان است۔‘‘ واپس ہوئے، محفل میں تاخیر سے پہنچے اور سب کو بہ پیروی خضر اپنے بھٹکنے کی روداد ہنس ہنس کر سناتے رہے۔ سب محظوظ ہوتے رہے۔ حظ اٹھانے والوں میں ان کا ڈرائیور بھی تھا جس پر لال پیلے ہونے کے بجائے وہ خیر سے پہنچنے پر شکر بھیجتے رہے۔
بیش تر ادیبوں اور شاعروں کی روشِ عام کے برعکس یوسفی صاحب کو مطالعے سے گہری دلچسپی ہے۔ انگریزی ادب ہو، اُردو ادب ہو، یا فارسی ادب ہو انھوں نے سب کا بڑا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ مجھے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گھول کر پی لیا ہے اور مصیبت یہ ہے کہ اب بھی مطالعے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی تحریروں کی پُرکاری میں اسی عمیق مطالعے کا بڑا حصہ ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ یوسفی صاحب ایمان دار، انصاف پسند اور بینکاری کے اصولوں پر عمل کرنے کے باوجود مسلسل ترقی کرتے رہے۔ ایم سی بی سے آسٹریلشیا بینک گئے۔ پھر یوبی ایل کے صدر ہوگئے۔ آج بھی وہ بزم احباب اور اہل ادب کی انجمنِ غیرمنظم کے صدر ہیں۔ مگر صاحب، ’’دامن پہ کوئی داغ نہ خنجر پہ کوئی چھینٹ‘‘ ایسی بھی صدارت کس کام کی۔ بی سی سی آئی بینک نے بھی انھیں لبیک کہا۔ لندن میں بھی رہے اور جیسے گئے تھے ویسے ہی ہر پھر کے آگئے۔ کیا آدمی ہیں یوسفی صاحب بھی۔۔۔
لوگ انھیں مغرور، مدمغ اور متکبر اور نجانے کیا کیا سمجھتے ہیں۔ روزانہ کوئی نہ کوئی نیا پکھیرو دیباچے اور فلیپ کی آرزو میں پھڑپھڑاتا آتا ہے اور منہ کی کھا کر واپس جاتا ہے۔ جلسوں کا احوال یہ کہ یوسف صاحب صدارت نہیں کرتے۔ شریک ضرور ہوتے ہیں۔ ان کے اپنے اصول ہیں۔ وہ دوسروں کے اصولوں پر عمل نہیں کرتے۔
میرے ایک بڑے پرانے دوست سید مظہر علی جب باتھ آئی لینڈ سے ڈیفنس منتقل ہوئے تو اتوار کے اتوار ان کے یہاں چند احباب جمع ہوتے تھے۔ یوسفی صاحب، سعد خیری مرحوم، میں بھی کبھی کبھی شریک ہوتا تھا۔ یوسفی صاحب بے تکلف، شگوفے چھوڑتے رہتے تھے۔ کوئی دماغ، نہ کوئی تبختر۔ اپنے ہی جیسے آدمی معلوم ہوتے تھے۔ فاطمہ حسن کے یہاں بھی شعر و سخن کی محفلوں میں شریک ہوتے تھے۔ حاضرین شعرا کے کلام پر کم اور یوسفی صاحب کی نثر پر زیادہ سر دھنتے تھے۔ بزرگوں کے احترام اور چھوٹوں کی حوصلہ افزائی میں وہ ہمیشہ دریا دل نظر آئے۔ ایک دفعہ یہ ہوا کہ سندھ کلب نے جوش ملیح آبادی کی یاد میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس تقریب کا واحد مقرر یہ نا چیز تھا۔ تقریر ختم ہوئی۔ یوسفی صاحب اٹھے۔ مقرر کے پاس گئے اور کہنے لگے، ’’اگر عمروں کے تفاوت کا لحاظ نہ ہوتا تو ابھی اور یہیں شاگرد ہوجاتا۔‘‘
بینکاروں کا قاعدہ عام یہ ہے کہ دوسروں کا پیسہ ہو تو لکھ لٹ اور اپنا پیسہ ہو تو دانت سے پکڑ کر خرچ کرتے ہیں لیکن اس قسم کی بہانہ بسیار والی خو یوسفی صاحب کے یہاں کبھی نظر نہیں آئی۔ یوسفی صاحب اپنا پیسہ پھینکتے ہیں اور کشادہ دلی سے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے ’’کمالِ فن‘‘ انعام ملا۔ پانچ لاکھ روپے کہ نصف جس کے ڈھائی لاکھ ہوتے ہیں۔ انعام کے اعلان کے ساتھ ساتھ وہیں کھڑے کھڑے اعلان کردیا کہ یہ رقم ایدھی ٹرسٹ کی نذر ہے۔ اور یہ ایک دفعہ نہیں ہوا متعدد موقعوں پر یوسفی صاحب نے انعامی رقم کے ساتھ یہی سلوک کیا۔
(مشتاق احمد یوسفی صاحب پر لکھے گئے طویل خاکے کی تلخیص)