سفر نامے اور آپ بیتیاں ادب کی ایسی اصناف ہیں کہ اگر لکھنے والا فنی چابک دستی کو ملحوظ رکھتے ہوئے لکھے تو کہانیوں اور داستانوں سے زیادہ مقبولیت و دوام پاتی ہیں۔ گو کہ سفر نامے لکھنا اب ہر مسافر کے بائیں ہاتھ کا کمال بن چکا ہے اور دنیا کی ہر نمایاں جگہ کے لیے بلا شبہ سیکڑوں سفر نامے لکھے جا چکے ہیں۔ پھر بھی ایک ہی جگہ کا ذکر ہر بیان کرنے والا اپنے مشاہدے کے مطابق کرتا ہے اور ہر آنکھ اپنا زوایہ نگاہ دوسروں سے منفرد رکھتی ہے۔ اس لیے ہر سفر نامہ اپنا ایک الگ لطف رکھتا ہے۔
میں نے بیگم اختر ریاض الدین، محمد اختر ممونکا سے لے کرمستنصرحسین تارڑ تک سبھی کے سفر نامے پڑھے ہیں۔ بلکہ پرانی کتابوں کی دکان سے میرے ہاتھ ایک 1950ء کا لکھا ہوا سفر نامہ ہاتھ لگا جو کسی عام خاتون کا روزنامچہ تھا۔ عنوان تھا ”میرا سفر‘‘، اس سادہ سی کتاب کو پڑھ کر معلوم ہوا کہ اس دور میں بھی ایسی باہمت خواتین موجود تھیں جو اکیلی سفر کو نکلیں اور ایشیا و یورپ کو کھنگال ڈالیں۔
قدیم ادب کی بات کریں تو سر سید (احمد خان)، حسن نظامی، شبلی نعمانی اور ”پیسا اخبار‘‘ والے مولوی محبوب عالم نے اپنے سفروں کی روداد خوب بیان کی ہے۔ دنیا بھر میں گھومنے اور اسرار جہاں چھاننے والوں کو ہمیشہ بہت ممتاز و نمایاں مقام ملتا رہا ہے۔
ابن بطوطہ، واسکو ڈے گاما اور کولمبس کا نام آج بھی بچے بچے کی زبان پہ ہے اور ابھی کچھ دن پہلے ہی ترکی کی نامور مصنفہ خالدہ ادیب خانم کا سفر نامہ پڑھ کر بہت لطف آیا۔ اُردو میں یونہی نہیں کہا جاتا کہ سفر وسیلہ ظفر ہے۔
عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا
وہ پھول سر چڑھا جو چمن سے نکل گیا
سفر کرنا پرانے زمانے میں بھی جی دار لوگوں کا کام سمجھا جاتا تھا اور موجودہ زمانے میں بھی سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ جتنی سہولتیں بڑھی ہیں خطرات بھی اتنے ہی سوا ہیں، پر خطرات سے ڈر کر نہ پہلے کبھی کوئی رکا تھا نہ آج کوئی رکتا ہے۔
کچھ دن پہلے عزیزی محمد علم اللہ کا سفر نامہ ’’ایران میں کچھ دن‘‘ پڑھنے کو ملا تو مجھے اندازہ ہوا کہ اس نوجوان میں ادب و فن کے لحاظ سے بہت صلاحیتیں چُھپی ہیں۔ آغاز ہی ایسا ہے کہ قاری کو اپنی طرف کھینچ لے۔
کس طرح ایران جانے کا سبب ہوا۔ والدین کس طرح ہول ہول گئے، گھر سے ہوائی اڈے تک پہنچنے کے مشکل مرحلے اور پھر جہاز کی لیٹ پرواز، یہ سب کچھ محمدعلم اللہ نے بہت شگفتہ انداز میں بیان کیا ہے اور ساتھ ہی قاری پر واضح ہوتا جاتا ہے، کہ دنیا بھر کے بڑے شہروں کے مسائل ایک سے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مہذب ملک یہ مسائل خوش اسلوبی سے سلجھا لیتے ہیں مگر تیسری دنیا کے باسی پھوہڑ کے پھوہڑ ہی رہے۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
علم اللہ ایک وفد کے ساتھ ایک مطالعاتی دورے پہ گیا تھا، لیکن راستے کی تمام جزئیات کو آنکھوں سے چُنتا چلا گیا۔ ایرانی طیارے کے اندر، انقلاب کا اثر کہ دنیا بھر سے ہٹ کر ایرانی ایئر ہوسٹس کا باحجاب ہونا، انعام یافتہ بچوں کی پذیرائی، تہران ہوائی اڈے کے اعلیٰ انتظامات، شہر کا خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ صاف ستھرا ہونا۔ پھر پورے سفر میں علم اللہ اور اس کے ساتھی علم و حکمت کے موتی چُننے میں لگے رہے، لیکن قم کی خُوب صورتی، اس کا تاریخ جغرافیہ، مسجد جمکران کی تمام تر تفصیل نوٹ کرنا یہ نوجوان نہیں بھولا۔ بلکہ سیر سپاٹے اور ہلکی پُھلکی تفریح کا بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔
جامعۃ المصطفی ٰالعالمیہ (AlMustafa International University) ایران کا ایک ادارہ ہے، جو دنیا بھر کے مسلم طلبا اور اہل علم کو مختصر مدتی کورس کرواتا ہے۔ علم اللہ نہ صرف اس کے اساتذہ سے متاثر ہوا بلکہ اس نے ان تمام لیکچرز کا خلاصہ بھی تحریر کیا ہے؛ جس سے واقعی سوچ کے نئے در وا ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔
ایران ہمیشہ سے دنیا کا ایک اہم ملک اور انتہائی اعلیٰ تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ سیاسی طور پہ یہاں شاہ ایران کی حکومت رہی ہو یا خمینی انقلاب کے بعد کی اسلامی حکومت، یہاں کے علوم و فنون، نفاست و شایستگی، زبان کی چاشنی اور طور طریقے ہمیشہ باقی دنیا کو متاثر کرتے ر ہے ہیں۔ برصغیر سے تو ویسے بھی ایران کا خصوصی تعلق رہا ہے، اس لیے ایران کا ذکر ہم لوگوں کے لیے ہمیشہ پر کشش رہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ علم اللہ کا سفر نامہ ایران شائقین کے لیے ایک علمی، معلوماتی اور پرکشش سفر نامہ ثابت ہو گا اور مجھے یہ بھی امید ہے، کہ اس نوجوان کی تحریریں دن بہ دن زیادہ نکھریں گی اور مستقبل میں ہم اس کی مزید تخلیقات سے لطف اندوز ہوں گے۔
(ہم سب)
محمد علم اللہ کا تعلق اٹکی، رانچی، جھارکھنڈ، بھارت سے ہے. آپ نے ”جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی‘‘ سے ”تاریخ و ثقافت‘‘ میں گریجوایشن اور ”ماس کمیونیکیشن اینڈ جرنلزم‘‘ میں ایم اے کیا. ہندوستان ایکسپریس، صحافت، خبریں، جدید خبر اور عالمی سہارا کے لیے نامہ نگاری، فیچر رائیٹنگ، کالم نگاری اور ترجمے کیے. ای ٹی وی اُردو میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر ایک سال کام کیا. ڈاکیومینٹری فلم بنانے کے علاوہ سفرنامے لکھے اور کبھی کبھار کہانیاں بھی لکھی ہیں. محمد علم اللہ نے “آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت: ایک مختصر تاریخ‘‘ بھی لکھی ہے. آپ آج کل جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں.
محترمہ رضوانہ سید علی معروف ادیبہ، ناول نگار، افسانہ نویس اور صحافی ہیں. اب تک آپ کی چار کتب، ”سہ رنگا نظامِ تعلیم‘‘، ”نوکِ قلم پہ خار‘‘، ”خواب گزیدہ‘‘ اور ”پیلے پھولوں کا نوحہ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں.