یہ کٹاس راج ہے۔ اسلام آباد سے دو گھنٹے کی مسافت پر چکوال میں واقع ایک تاریخی مقام‘ جہاں ہزاروں سال پہلے کی تاریخ سانس لے رہی ہے۔ سطحِ سمندرسے تقریباً اڑھائی ہزار فٹ بلند‘ اس جگہ پربنے ہوئے مندر اور ان سے ملحق حویلیاں دورسے ہی نظرآجاتی ہیں۔
کبھی یہ جگہ علم و فن کا مرکز تھی۔ یہاں ایک قدیم یونیورسٹی تھی‘ جہاں اور علوم کے علاوہ سنسکرت کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ کہتے ہیں کہ مشہور مسلمان ماہرِ ارضیات‘ ریاضی‘ تاریخ اور نجوم ابو ریحان البیرونی نے کٹاس راج میں واقع اسی یونیورسٹی میں سنسکرت کی تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ البیرونی ہی تھا‘ جس نے کٹاس راج سے کچھ ہی دور پنڈ دادن خان کے مقام نندہ میں کئی سوسال پہلے زمین کے محیط اور قطر کی درست پیمائش کی تھی۔ یہاں مندروں کے قریب ایک بدھ سٹوپا کے بھی آثار ہیں‘ جو بدھ پیروکاروں کی عقیدت کا مظہر اور بین المذاہب تعلق کا آئینہ دار ہے۔
کتنے ہی دیوانے تاریخ کے چھپے ہوئے خزانوں کی تلاش میں یہاں گھومتے رہے۔ انہیں میں ایک دیوانہ احمد حسن دانی تھا۔ وہی پروفیسر دانی‘ جس نے پاکستان کے دیگر علاقوں کے علاوہ کٹاس راج کے حوالے سے تحقیق کی۔ پروفیسردانی کے مطابق کٹاس راج کی ایک اہمیت یہ بھی تھی کہ یہاں ہندوؤں کے چار وید تحریر کیئے گئے۔ کہتے ہیں‘ جب پانڈو برادران کو جلاوطن کیا گیا‘ تو انہوں نے یہیں پناہ لی اور اپنی جلاوطنی کے دن یہاں گزارے۔ میں کٹاس راج کے آسمان پر نگاہ ڈالتا ہوں اورسوچتا ہوں‘ یہی آسمان ہو گا‘ جس کے نیچے علمی محفلیں برپا ہوتی ہوں گی۔جہاں پہیلیاں بوجھنے کے مقابلے ہوتے ہوں گے۔ جہاں مختلف علوم کے مباحثے ہوتے ہوں گے۔ جہاں کی یونیورسٹی میں کتنے ہی طالبانِ علم کی پیاس بجھتی ہو گی۔ مجھے یوں لگا… کٹاس راج میں ہزاروں سال کی تاریخ سانس لے رہی ہے۔ شیومہاراج کی بارہ دری کے عین نیچے میں تالاب کی سیڑھیوں پر بیٹھا‘ ان سانسوں کومحسوس کررہا ہوں۔ میں ایک بار پھر آسمان کی طرف دیکھتا ہوں۔ آسمان بادلوں سے بھرگیا ہے اور تیزہوائوں کے چلنے سے یوں لگتا ہے کسی بھی وقت بارش شروع ہوجائے گی۔ نم ہوا میرے چہرے کو چھورہی ہے۔ میں آنکھیں بند کرکے صدیوں کاسفر طے کررہاہوں۔ روایت ہے کہ شیو کواپنی بیوی ستی سے بہت محبت تھی۔ دونوں کاایک دوسرے کے بغیرزندگی کا تصورمحال تھا۔ سچ ہے کہ زندگی میں محبت کی چاشنی ہی اس کوخوبصورت بنادیتی ہے‘ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ زندگی کے سفرمیں مسافرملتے ہیں اوربچھڑ جاتے ہیں۔ ایک روز ستی بھی شیو کو چھوڑ کرہمیشہ کے لیے اجل کی وادی میں اترگئی‘ جہاں سے لوٹ کر کوئی کبھی واپس نہیں آتا۔ اس روز شیو مہاراج پر انکشاف ہوا کہ زندگی ستی کے بغیر کتنی بے معنی‘ کتنی بے رنگ ہے۔ اس روز‘ وہ اپنی بے بسی پرٹوٹ کر رویا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی قطاریں موتیوں کی لڑیوں کی صورت بہہ رہی تھیں۔ کہتے ہیں آنسوؤں کی ایک لڑی اجمیر کے قریب ایک مقام پر گری‘ جہاں ایک چشمہ بن گیا۔ آنسوؤں کی دوسری لڑی کٹاس راج کے مقام پر گری‘ جہاں ایک اور چشمہ بن گیا۔ یہ آنسوؤں کاچشمہ بڑھتے بڑھتے ایک تالاب بن گیا۔ اس تالاب کا رقبہ دوکنال سے زیادہ اورگہرائی تیس فٹ کے قریب ہے۔ تالاب کے اردگرد چھوٹے بڑے مندر ہیں۔ محبت جب عقیدت میں ڈھلتی ہے‘ تو فن کے شاہکار وجود میں آتے ہیں۔ ہمیں اس دعوے پر اعتبار آجاتا ہے‘ جب ہم ان مندروں کی طرزِتعمیراور ان میں بنے خوبصورت نقش ونگار کودیکھتے ہیں۔
وسیع وعریض کٹاس راج کے گیٹ سے داخل ہوں‘ تو ایک متاثرکن منظر نگاہوں کے سامنے آتاہے۔ قدیم راستوں پر چلتے ہوئے بائیں ہاتھ بلندی کی طرف جاتا ہوا راستہ ہے‘ جس پرست گراہ کا بورڈ لگا ہے۔ یہاں سات مندروں کاجھرمٹ ہے۔ شیو مہاراج کے مندر کی خوبصورت عمارت کی بالائی منزل پر دریچوں سے روشنی اور ہوا آتی ہے اوریہاں سے اردگرد کے منظربھی دکھائی دیتے ہیں۔ تالاب کی سڑھیوں سے اوپر بارہ دری ہے۔ بارہ دری کے دروازوں سے تالاب اورتالاب کے اس طرف شیو کا مندر صاف دکھائی دیتاہے۔
تالاب کی سڑھیوں پر بیٹھا میں چشمِ تصور میں اس امرت کنڈ (مقدس پانی کے تالاب) کو لبالب بھرا دیکھتا ہوں‘ جس پردھوپ کے آئینہ کا عکس تھرک رہاہے۔ پجاریوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ لوگ اپنے گناہوں سے چھٹکارے کے لیے تالاب کے پانی میں اشنان کر رہے ہیں۔ اس مقدس تالاب کاپانی ان کے لیے آبِ شفا ہے‘جسے پی کر وہ اپنے جسم و جاں کو سیراب کر رہے ہیں۔
اچانک بادل کی گرج مجھے حقیقت کی دنیا میں لے آتی ہے۔ تاریخ کا ہزاروں سال کا سفر اچانک ختم ہو جاتا ہے اور میں لمحۂ موجود میں آجاتا ہوں۔ میرے سامنے شیوکے آنسوؤں کا تالاب ہے‘ لیکن یہ وہ تالاب نہیں‘ جو میری چشمِ تصور نے دیکھا تھا‘ جو کناروں سے چھلک رہا تھا‘ جس کے پانیوں میں پجاری پوتر ہو رہے تھے۔ یہ تو ایک اور ہی تالاب ہے‘ جس کا پانی خشک ہوتے ہوتے پاتال سے جا لگا ہے۔ یہ منظر بہت ہی تکلیف دہ ہے۔
کٹاس راج کا تاریخی ورثہ‘ حکومتوں کی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ کٹاس راج کے اردگرد سیمنٹ فیکٹریوں سے زیرِزمین پانی بتدریج کم ہوتا گیا۔ مقامی لوگوں کی شکایت کے باوجود فیکٹریاں اسی طرح ماحول پراثرانداز ہورہی ہیں۔ مقامی لوگوں اور سول سوسائٹی کا احتجاج صدا بہ صحرا ثابت ہوا۔ عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان محترم ثاقب نثار صاحب نے اس انتہائی سنجیدہ صورتِ حال کا نوٹس لیا۔ محترم چیف جسٹس صاحب کی مسلسل کوششوں سے اب اس تالاب کوپانی دیا جا رہا ہے‘ لیکن یہ ان شفاف چشموں کاپانی نہیں‘ جن میں شیوکے آنسوؤں کی مہک تھی۔ وہ چشمے‘ جنہیں سیمنٹ فیکٹریوں نے بانجھ کردیاہے‘ تالاب باہر سے لائے ہوئے پانی سے بھرتوجائے گا‘ لیکن اس میں وہ تاثیرکہاں سے آئے گی‘ جوآنسوئوں کے آبِ شفا میں تھی۔میں اپنے اردگرد گھومتے پھرتے لوگوں کو دیکھتا ہوں‘ جو مختلف عمارتوں کی‘ تالاب کی‘ گردوپیش کی تصویریں لے کروقت کو گرفتار کرنے کی معصوم خواہش کرتے ہیں‘ لیکن وقت تو کبھی رکتا نہیں۔ انسان فانی ہیں‘ آتے اورچلے جاتے ہیں۔ وقت کا ہاتھ انسانوں کے علاوہ عمارات پربھی اثرانداز ہوتاہے‘ کٹاس راج کی عمارتوں میں خستگی کے آثار ہیں۔
اب بارش کی بوندیں آسمان سے اترنا شروع ہوگئی ہیں۔ میں تالاب کی سڑھیوں سے اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اورایک بارپھرشیوکی بارہ دری چلاجاتا ہوں‘ جہاں میں بارش سے محفوظ ہوں‘ جہاں بارش کے نم جھونکے مجھے چھورہے ہیں‘ جہاں میں تالاب کے اُس طرف ان خوبصورت محرابوں‘ کھڑکیوں اوردریچوں کو دیکھ رہا ہوں‘ بارش کی بوندوں میں سارامنظر اورحسین ہوگیا ہے۔ میں بارہ دری سے نیچے اترتا ہوں اور آبِ شفا والے راستے کے کنارے کنارے واپسی کے رستے پرچلنا شروع کر دیتا ہوں۔ گیٹ پرپہنچ کر‘ میں پیچھے مڑکردیکھتاہوں! کٹاس راج بارش میں چھپ گیا ہے۔ تیزبارش میں چلتے ہوئے دور پارکنگ میں کھڑی گاڑی تک پہنچتے پہنچتے میں ہانپنے لگتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں‘ تاریخ کے آڑے ترچھے راستوں کاسفر بھی کتنا تھکا دینے والا سفر ہے۔