پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی کو میں چار حوالوں سے جانتی ہوں۔ سب سے پہلا حوالہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا ہے کہ جب وہ وائس چانسلر تھے تو کیا میلے سجتے تھے، کیسے کیسے لوگ آتے تھے، کتنے علم و حکمت کے موتی سمیٹے، کتنی رونقوں نے دل و دماغ میں چراغاں کیا کہ آج بھی یادوں کے دریچوں سے روشنی جھانکتی ہے۔ دوسرا حوالہ سر رؤف کلاسرا کا دوست ہونا ہے۔ ان کی کتابوں میں، ان کی تحریروں میں، ان کے کالموں میں ہر جگہ اس نام کی بازگشت ہے۔
تیسرا حوالہ اس وقت ملا جب لوک ورثہ میں کتابوں کی دکان پر پروفیسر سعید احمد صاحب سے ملاقات ہوئی اور بات ہوتے ہوتے مختلف کانفرنسز کا ذکر ہوا. میرے استفسار پر کہ آپ علامہ اقبال یونیورسٹی میں کبھی کیوں نہیں آئے؟ تب پروفیسر سعید احمد نے بتایا کہ جب شاہد صدیقی صاحب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، تب میں پنجابی زبان اور صوفی کلام پر بات کرنے جاتا رہتا تھا۔ چوتھا اور سب سے مضبوط حوالہ پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی کی کتاب ”پوٹھوہار: خطۂ دل ربا‘‘ ہے۔
میں نے یہ کتاب کب سے منگوائی ہوئی تھی اور بالآخر پڑھ ہی ڈالی۔ کتاب کیا ہے، زبان دانی اور داستان گوئی کا شاہ کار ہے۔
شکیل عادل زادہ اگر انہیں صورت گر، سخن طراز و سخن پرداز کہہ رہے ہیں تو بجا کہہ رہے ہیں۔ مصنف خود اعتراف کرتے ہیں کہ ”راولپنڈی میری محبت ہے اور محبت کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے، بیان نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
یہ کتاب راولپنڈی کے نام مصنف کا محبت نامہ ہے جسے پڑھتے قاری بھی لکھاری کے محسوسات سے پر سفرِ محبت کا حصہ بنا رہتا ہے۔ پوٹھوہار کے جن دلبروں کا کتاب میں ذکر ہے، ان کی دلبری، ان کی صورت کی نہیں بلکہ کارناموں کی مرہونِ منت ہے۔ تاریخ کی کتاب نہ ہوتے ہوئے بھی یہ کتاب، پڑھنے والے کی نگاہوں کے سامنے تاریخ کے اوراق الٹتی جاتی ہے۔
اس کتاب نے راولپنڈی کو دیکھنے کا میرا انداز بدل دیا ہے۔ اب لال کرتی سے گزرتے ہوئے میں تلوک چند محروم اور جگن ناتھ آزاد کو یاد کیا کروں گی. مری روڈ اور مال روڈ سے گزرتے ہوئے ذہن میں نئے حوالے سفر کیا کریں گے۔ صدر میں بنک روڈ پر بنی کتابوں کی دکانوں میں کتابیں چھانٹتے ہوئے مَیں ان کا دہائیوں پرانا ماضی چھانوں گی۔
مصنف نے اپنے غیر معمولی حافظے کی بنیاد پر اپنے بچپن، لڑکپن اور جوانی کی یادوں کو الفاظ کے پیرہن میں لپیٹ دیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنی فطرت میں ایک سیاح ہیں پر ان کی سیاحت کا شوق انہیں اجنبی دیسوں کی بجائے جانے پہچانے رستوں پر لے جاتا ہے۔
تحریر بتاتی ہے کہ مصنف کی یاداشت کیسی کمال کی ہے کہ بچپن کےپالتو و غیر پالتو جانوروں کے نام تک یاد ہیں، گلیوں کا محل وقوع اور جزیات تک یاد ہیں، لڑکپن میں دیکھی فلموں کے نام اور کہانیاں تک یاد ہیں۔ ان کے گاؤں کی یادوں میں کئی مانوس الفاظ جیسے ترینگل، سمبھی، دھڑ، کلہوٹا، پڑھ کر مزہ آیا کیوں کہ یہ الفاظ ہماری زبان میں بھی بعینہ ایسے ہی مستعمل ہیں۔ پوٹھوہار کے جھومر میں اتنے موتی جھلماتے ہیں، یہ پہلی بار معلوم ہوا۔ یہ کتاب تذکرہ ہے راولپنڈی کے لوگوں، راولپنڈی کی حویلیوں، راولپنڈی کی سڑکوں، راولپنڈی کے اداروں، راولپنڈی کے استادوں، راولپنڈی کے ہنر مندوں، راولپنڈی کی بیکریوں، راولپنڈی کے سینما گھروں، راولپنڈی کی گلیوں، راولپنڈی کے مکانوں اور مکینوں کا۔
اس خوب صورت کتاب کے ورق الٹتے کئی کرداروں سے تعارف ہوتا ہے، جن میں سکینہ جیسا دلیر، انعام بھائی جیسا بے لوث اور ماسٹر فضل جیسے پرخلوص کردار شامل ہیں۔ بلاشبہ ایک بار آپ یہ کتاب اٹھا لیں تو پڑھے بغیر نہیں رکھ پائیں گے.
ماریہ نورین صحرائے تھل کی باسی ہیں اور ضلع بھکر سے تعلق ہے. آپ نے ابلاغِ عامہ میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی. اس وقت آپ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں بطور لیکچرار شعبہ صحافت خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ ساتھ ہی ابلاغِ عامہ میں پی ایچ ڈی بھی کر رہی ہیں۔ مطالعہ کتب کی حد درجہ شوقین ہیں.
ماریہ نورین ایک محنتی اور تازہ دماغ کی لڑکی ہیں ۔ان کا یہ تبصرہ پڑھ کر تجس ھو رہا ہے کہ شاہد صدیقی صاحب کی تصنیف پوٹھوہار خطہ دل ربا ضرور پڑھنی چاہیے کیونکہ اس کتاب کا یہ تبصرہ اتنا پرکشش ھے تو یقیناً یہ کتاب بھی دلچسپ ھو گی دیئے گئے حوالے اس کتاب کی طرف کھینچ رہے ہیں کہ مجھے پڑھیں اور لطف اٹھائیں ۔راول پنڈی کے باسیوں اور گلیوں کوچوں کی تاریخ سے دلچسپ پیرائے میں محضوظ ھوں اور ساتھ ہی معلومات میں بھی اضافہ کریں
سعدیہ صاحبہ، تحریر پر رائے دینے کا بے حد شکریہ