پروفیسر شجاعت علی راہی، فن اور شخصیت

ہمارے آج کے ’’کتاب نامہ‘‘ کے منتخب ادیب شجاعت علی راہی ہیں جو نامورشاعر اور ناول نویس بھی ہیں۔ آپ 3 جنوری 1945ء کوکوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام شجاعت علی شاہ ہے اور آپ کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ انگریزی میں معلم کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل آپ نے ایک عرصہ تک مختلف شہروں میں آرمی پبلک سکولز و کالجزاور مختلف کیڈٹ کالجز میں بطور پرنسپل خدمات سر انجام دیں۔ آپ نے اب تک نہ صرف برطانیہ، جرمنی، (اُس وقت کے مشرقی اور مغربی جرمنی)، فرانس، سوئٹزرلینڈ، ناروے، ڈنمارک، سویڈن، ترکی، مصر، سعودی عرب، بنگلہ دیش، سنگاپور، تھائی لینڈ، ملائیشیاء اور اٹلی کاسفر کیا بلکہ وہاں کی تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب کا بھی بہت قریب سے مشاہدہ کیا۔ 1972ء میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ ’’برف کی رگیں‘‘ شائع ہواجسے اباسین آرٹس کونسل کی جانب سے سال کے بہترین شعری مجموعے کا ایوراڈ ملا۔ آپ کی دیگر تصانیف میں بچوں کی نظمیں ’’نرم شگوفے، 1983ء، ’’ پھول کھلے یا نہ کھلے‘‘ (شعری مجموعہ)1985ء، ’’چراغ گل نہ کرو‘‘، 2009ء (اس مجموعے کو سردار عبدالرب نشترایوارڈ سے نوازا گیا)۔ 2010ء میں شجاعت علی کو شریف کنجاہی ایوارڈ اور 2012ء میں عالمی اُردو مرکز جدہ کی جانب سے نشان سپاس عطا کیا گیا۔ آپ نے افسانہ نگاری بھی کی اور تحقیقی بنیاد پر پچوں کے لیے دو عدد ناولٹ ’’تتلیوں کا میلہ‘‘ اور ’’باغی چیونٹیاں‘‘ تحریر کیے۔ آپ کی دیگر تصانیف میں ’’مطلب بے مطلب‘‘ (نان سنس رائمز)، پرندوں، جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے مشاعرے،’’ٹھکچونامہ‘‘ (طنزومزاح) اور’’ بچوں کی نظمیں‘‘شامل ہیں۔ نُور ٌعلیٰ نُور کے نام سے ان کی ایک کتاب زیر طبع ہے۔ ان کے متعدد انٹرویو، نغمیں، غزلیں،نعتیں، سلام، گیت، اور بچوں کی کہانیاں پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان سے نشر ہو چکی ہیں۔ مختلف ویب سائٹس پر ان کی انگریزی نظمیں بھی موجود ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے صلے میں مختلف علمی و ادبی مجلہ جات نے ان کے لیے ادبی گوشے مخصوص کئے ہیں۔ علاوہ ازیں جامعہ پشاور کے شعبہ اُردو میں ان پر تحقیقی مقالہ بھی تحریر کیا جا چکا ہے ۔ نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے:

٭ مناجات

لوگ لائے ہیں نذر تیرے حضور
جہد کی،روز و شب عبادت کی
ہم بھی لائے ہیں اک حسیں سوغات
تیرے محبوبﷺ سے محبت کی

٭ قطعہ

رات یاروں میں ایک چشمک تھی
کون کتنے دیئے جلائے گا
اور جھونکوں نے شرط باندھی تھی
کون کتنے دیئے بجھائے گا

٭ شجاعت علی راہی کے بارے میں اربابِ فکر و نظر کی آراء:

احمد ندیم قاسمی:
شجاعت علی راہی جدید شعراعء کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو زندگی کے حسن اور رنگینی میں فنکار کا منصب کسی صورت فراموش نہیں کرتے…وہ اس معاشرے کے ایک ذمہ دار فرد ہیں۔ ان کی غزلوں میں حقائق کی چمک ہے…اوراچھی اور معیاری شاعری۔

احمد فراز:
شجاعت علی راہی کے کلام میں خیالوں کی تازگی اور تشبیہوں کا اچھوتا پن ہے۔

قتیل شفائی:
شجاعت علی راہی کا ظہور ایک مجتہدانہ شان سے ہوا ہے۔وہ قدامت کے صحرا میں نئے پن کا خود رو پھول ہے۔وہ لفظوں کے غوغا میں فکر کا خوبصورت نغمہ ہے…وہ ایک نئی صبح کی بشارت دے رہا ہے۔

عطاء الحق قاسمی:
شجاعت علی راہی نے نئے استعاروں کی مدد سے لمحوں کو اپنی گرفت میں لینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ان کا منظر نامہ قاری کو ایک دم متوجہ کرتا ہے اور نہایت ملائمت سے بات دل میں اتار دیتا ہے۔