شازیہ عالم شازیؔ، نسائی شاعری میں ایک روشن نام – محمد اکبر خان اکبر

اقلیم سخن میں شازیہ عالم شازیؔ کی سخن سرائی کا ایک عالم معترف ہے. نسائی شاعری میں انہوں نے بہت کم عرصے میں خوب نام پیدا کیا ہے. اس وقت بھی کراچی کے ادبی افق پر جو روشن ستارے جھلملا رہے ہیں، ان میں شازیہ عالم شازی سرفہرست ہیں. وہ لکھتی ہیں:
”کچھ عرصہ قبل فرصت کے لمحات میسر آئے تو اپنے اندر چھپی شاعرہ کو ایک بار پھر تلاش کیا، جس میں کسی حد تک کامیابی بھی ہوئی.‘‘
اسی کامیابی کا نتیجہ ”سمندر رازداں میرا‘‘ کے عنوان سے میرے سامنے ہے.
شازیہ عالم کی شاعری، سچے جذبات کی دل آویز عکاسی ہے. ان کی شاعری میں حسن و عشق کا جادو سر چڑھ کر بولتا محسوس ہوتا ہے. رموز عشق کے موضوعات کی فراوانی اور سخن دانی کی جاودانی، ان کی شاعری کا امتیازی وصف ہے جو ان کی شاعرانہ صلاحیت کا عکاس ہے. ان کی غزلوں میں غنائیت اپنی پوری توانائی سے جلوہ گر ہوتی ہے اور پڑھنے والوں کو اپنے سحر میں لیتی چلے جاتی ہے.

توجہ اپنے دل کی ساری چاہت اس کو دے دوں گی
وہ مجھ سے ملنے آئے تو رفاقت اس کو دے دوں گی
نہیں رکھوں گی اپنے پاس خوابوں کا کوئی گلشن
دِلوں میں کھلتے پھولوں کی لطافت اس کو دے دوں گی

شازیہ عالم شازیؔ کی شاعری کا ایک اور اہم پہلو شادمانی اور مسرت کا لاجواب اظہار ہے. وہ لمحاتِ زیست سے خوشی کشید کرنا اور ان لمحات کے شعری ابلاغ سے کماحقہ آگاہ ہیں:

زندگی کے سفر میں ساتھ ہو تم
میرا دل، میری کائنات ہو تم
دیکھ کر جس کو دیکھتی ہی رہوں
وہ حسین رات ہو تم

ایک اور غزل میں شاعرہ اِن احساسات کو اس طرح پیش کرتی ہیں:

چمکتے چاند، کھلتے پھول کے جیسے لگے مجھ کو
تمہارے ساتھ گزرے دن بہت اچھے لگے مجھ کو

شازیہ عالم شازیؔ کے پہلے مجموعہ کلام کا غالب حصہ غزلیات پر مشتمل ہے. یہ کہنا بالکل بجا ہے انہوں نے غزل گوئی کو اپنے ظاہر باطن کا عکاس سمجھا ہے. ان کی غزلوں میں سوز و گداز بھی ہے اور رمزیت و ایمائیت سے بھرپور اشعار بھی. جس سے ان کی شخصیت کے مختلف رنگ آشکار ہوتے ہیں. ان کی غزلوں کی ایک اور اہم خوبی اشاریت کا گہرا تاثر بھی ہے:

بھول جاؤ کہ پیار کے الزام میں
اس سے پہلے ہمارے نام آئیں

شازیہ عالم شازیؔ کی شاعری بے ساختگی اور اعلٰی تخیل سے عبارت ہے:

غم بھلانے ہیں زندگی کے مجھے
کام آنا ہے ہر کسی کے مجھے
اس کا احسان کس طرح بھولوں
جس نےتحفے دیے ہنسی کے مجھے

گو کہ ان کی شاعری پر اُردو غزل کا کلاسیکی رنگ نمایاں ہے البتہ کہیں کہیں جدیدیت کا قوی تاثر بھی ابھرتا ہے. وہ ایک سماجی شخصیت بھی ہیں اور فلاحی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتی ہیں، اس لیے ان کی شاعری سے بھی، انسان نوازی و انسان دوستی کا اظہار واضح ہوتا ہے:

ہر کسی کا دکھ سہنا، ہر کسی کے کام آنا
زندگی کا مقصد ہے آدمی کے کام آنا
اس خیال کو میرے دور دور پھیلا دو
تیرگی سکھاتی ہے روشنی کے کام آنا

شازیہ عالم کی شاعری قومی جذبات کی ترجمان بھی ہے. کشمیر کے بارے میں ان کے اشعار ہر دردمند پاکستانی کے دل کی آواز ہیں:

بہایا جا رہا ہے خوں زمین پر
بہن، بیٹی کی عزت چھن رہی ہے
خدا کشمیر کی کرنا حفاظت
یہاں ہاتھوں سے جنت چھن رہی ہے

شازیہ عالم شازیؔ کی نظمیں بھی اعلٰی شعری معیار سے مزین ہیں. مجھے یقین ہے کہ ان کا شعری سفر آگہی ذات کے مزید در وا کرے گا.