محمد اکبر خان اکبر کا تحریر کردہ سفرنامہ، ”جادونگری میں اذان‘‘ – ڈاکٹر ادریس احمد آفتاب

میرے لہجے میں جی حضوری نہیں ہوتا
اس کے علاوہ میرا کوئی قصور نہیں ہوتا

جناب محمد اکبر خان اکبر کی تصنیف ”جادونگری میں اذان‘‘ بذریعہ پوسٹل سروس وصول ہوئی. کتاب جاذبِ نظر ہے. مناسب کاغذ پر فیروز سنز لمیٹڈ، لاہور سے شایع کی گئی ہے. ٹائٹل معنی خیز اور بدھ مت کے رنگ میں رنگا ہوا ہے. کتاب کی پشت پر مصنف کا مختصر تعارف مع تصویر موجود ہے.
کتاب کے پہلے صفحے پر مصنف نے اپنے دست قلم سے میری تعریف میں چند جملے لکھے ہیں جو میرے لیے اعزاز کی بات ہے. میں موصوف کا بے حد شکر گزار ہوں. مجھے ہرگز معلوم نہ تھا کہ میں اس قابل بھی ہوں. جب خود سے ان القابات کے بارے میں سوال کرتا ہوں تو جواب نفی میں ملتا ہے.
جناب محمد اکبر خان اکبر سے پہلی بالمشافہ ملاقات ان کے دورہ بہاولپور کے دوران ہوئی. وہ اپنی اہلیہ محترمہ اور بہت پیارے بچوں کے ہمراہ تشریف لائے تھے. ان سے پہلے بلوچستان میں باوجود خواہش و حسرت میرا کسی سے دوستانہ نہیں تھا، سو میں ان سے بہت چاہت سے ملا.
جناب اکبر خان اکبر ایک شریف النفس، سادہ اور بے لوث انسان ہیں. بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں رہنے کے باوجود علم دوست، مہذب اور اُردو ادب کے شیدائی ہیں. چٹانی لہجے کے باوجود نرم دل اور دل آویز شخصیت کے مالک ہیں. ان کا سفرنامہ ان کی شخصیت کی سادگی، شرافت اور نفاست کی بھرپور عکاسی کرتا ہے. ”جادونگری میں اذان‘‘ بہت منفرد، ذو معنی اور پرکشش الفاظ میں لکھی گئی کتاب ہے. یہ سفرنامہ سری لنکا کی پوری تاریخ و جغرافیہ پر مبنی ہے اور قاری کو اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے لیے پھرتا ہے.
مساجد کا ذکر جگہ جگہ پڑھنے کو ملتا ہے. مصنف بھولے سے بھی کولمبو کے ڈاؤن ٹاؤن میں نہیں گئے اور نہ ہی وہاں کی بود و باش کا ذکر کیا ہے. دنیا کے قدیم ترین کاروبار، آدم کی پہاڑی، انگریز، ولندیزی اور پرتگالی اپنی اپنی تہذیب کے جو ان مٹ نشان چھوڑ کر گئے، ان کے اچھے برے اثرات کا ذکر بھی نہیں ہے. جافنا اور ہمسایہ ممالک کی شاطر چالوں سے محفوظ رکھنے کے سلسلے میں جو احسانات پاکستان نے سری لنکا پر کیے، ان کا بھی سرسری ذکر ہونا چاہیے تھا.
قاری کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ سری لنکا کی حسیناوں کا ذکر بالکل نہیں کیا حالاں کہ سری لنکا میں برگِ گل جیسے ہونٹوں کی مالک حسینائیں جن کے قاتل خم ابرو، شب ہجرہ جیسے لمبے بال، آنکھوں کی چمک جیسے کندن میں نگینے جڑے ہوں، گلے میں ایسے بانہیں ڈالے جیسے عشقِ پیچاں کی بیل لیکن بے مروتی طوطے کی آنکھ جیسی.
جناب اکبر خان اکبر نے اپنی پوری تصنیف میں انگریزی کا ایک بھی لفظ استعمال نہ کرکے اُردو کی لاج رکھ لی گو کہ اُردو لشکری زبان ہے جو کئی زبانوں کا مجموعہ ہے. اب اس میں ایک اور زبان کا اضافہ ہو گیا جو انگلش کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے مگر مصنف اس کی پروا نہ کرتے ہوئے اس کو شکست دیتے ہوئے آگے آگے بڑھتے نظر آتے ہیں. بے حد نپے تلے انداز میں اس کتاب کو ایک منفرد انداز عطا کیا ہے جس سے اکبر خان اکبر کی مہارت، اُردو شناسی اور شریف النفسی کا معیار مزید بلند ہو گیا ہے. آخر میں عوام الناس کی خدمت میں یہ عرض کرتا چلوں کہ یہ ایک نہایت ہی معلوماتی سفرنامہ ہے، اسے ضرور پڑھیے بقول شاعر:
کس قدر مشکل ہے یہ زندگی کا سفر
خدا نے مرنا حرام کیا لوگوں نے جینا