کہا جاتا ہے کہ تقریباً ساڑھے تین ہزار سال قبل دُنیا کا سب سے پہلا سفرنامہ لکھا گیا تھا جو آج بھی اپنی اصل حالت میں مصر کے عجا ئب گھر میں موجود ہے۔ زمانۂ قدیم کے صاحبِ حیثیت لوگ اس کی نقلیں تیار کروا کر پڑھا، سُنا کرتے تھے۔
اگر یوں کہا جائے کہ صحائفِ آسمانی کے بعد سفرنامہ ہی ایک ایسی تحریر ہے جو عوام و خواص دونوں میں، ہر دور میں مقبول رہی ہے تو غلط نہ ہو گا کیوں کہ سفر میں داستان اور افسانہ جیسے مزے کے ساتھ، جگ بیتی اور آپ بیتی جیسی لذت بھی موجود ہوتی ہے جو ہر مکتبہ فکر کے قاری کو اپنی جانب کھینچے رکھتی ہے۔
اللہ پاک نے انسان کی فطرت میں تحقیق، جستجو، آگے بڑھنے، حاصل کرنے اور زمانہ کی معاشرتی و علمی اقدار سے واقفیت حاصل کرنے کی جو حِس قائم کی ہے اس کی بدولت آج کا انسان مادیت اور مصروفیت کے اس دور میں ذہنی سکون کے لیے کچھ ایسا کرنا چاہتا ہے جو غم و آلام سے مُردہ اجسام میں نئی زندگی رواں کرنے کا ذریعہ بنے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے انسان نے سفر کا راستہ اختیار کیا۔ اپنے آس پاس اور دوست ممالک کے سفر کر کے دُنیا کے بارے میں جانا۔ انسان نے بڑھتے مسائل و مشکلات کا بغور جائزہ لیا، ساتھ ساتھ قدرت کے حسین مناظر سے اپنے دل و دماغ کو تر و تازہ کیا۔ ہر رنگ، نسل اور مذہب کے لوگوں سے مل کر دُنیا میں اُٹھتے بحران کو بھی روکنے کی ہرممکن کوشش کی اور پھر تمام حالات و واقعات کو ایک کتابی شکل میں لکھ کر اپنے تجربات و نظریات کو عام لوگوں تک بھی پہنچایا، جو ان تمام حالات سے بے خبر اپنی دُھن میں مگن زندگی گزارتے تھے۔
سفر نامہ بلا شبہ اُردو ادب کی ایک معروف صنف ہے جس میں سیاح اپنا ذاتی اور جذباتی ردِعمل تحریر کرتا ہے، اور پڑھنے والے کو نئی جگہ، نئے مشاہدات اور نئی تہذیب و ثقافت کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ اسی طرح ہمارے زیرِ مطالعہ جناب محمد اکبر خان کی کتاب ”جادونگری میں اذان‘‘ ایک شاندار سفر نامہ ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ”جادو نگری میں اذان‘‘ سری لنکا کا ایک اچھوتا سفر نامہ ہے تو بے جا نہ ہو گا جس میں مصنف نے اپنے سفر اور دورانِ سفر درپیش حالات کو من وعَن بیان کر کے اس سفر نامے کو حقیقی رنگ میں پیش کیا ہے۔
مصنف کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ آپ نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے حیاتیاتی کیمیا میں ایم ایس سی کیا۔ پھر ایم بی اے (مارکیٹنگ) کی ڈگری حاصل کی۔ کالج کے میگزین سے اُردو اور انگریزی میں لکھنے کا آغاز کیا۔ اُردو ادب سے دلچسپی نے ایم اے اُردو کی طرف راغب کیا۔ اس وقت بلوچستان کے مقامی کالج میں اُردو کی تدریس پر مامور ہیں۔ شاعری کا سلسلہ بھی جاری ہے. بے شمار مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں۔ کئی ملکی اور بین الاقوامی ادبی تنظیموں سے منسلک ہیں۔
آپ کا پہلا سفر نامہ ”نیشاپور سے کوالالمپور‘‘ 2015ء میں لاہور سے شائع ہُوا۔ اب تک مختلف اخبارات و رسائل میں کئی مضامین، غزلیات شائع ہو چکی ہیں. یوں سمجھ لیجیے کہ سیاحت اور شاعری ان کے مشاغل میں شامل ہیں۔
”جادونگری میں اذان‘‘ ان کا دوسرا سفر نامہ ہے جو سری لنکا کے اکیس روزہ سفر کے دلچسپ حالات و واقعات پر مشتمل ہے جس میں جزیرہ سراندیپ کی تہذیت و ثقافت، طرزِ معاشرت اور تاریخ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس سفر نامے میں ایک سیاح کے مشاہدات بھی ہیں اور جذبات و احساسات کی رنگ آمیزی بھی۔ سری لنکا کے دارالحکومت کی منظر کشی اور وہاں کے ساحل کی عکاسی بھی دل آویز انداز میں تحریر کی گئی ہے۔
محمد اکبر خان صاحب نے سری لنکا کے شہروں کولمبو، انورادھاپورا، دمبولا، سیگریا، کینڈی، گال اور نیگمبو کی سیر کی اور کتاب کی صورت میں تمام حالات گھر بیٹھے قارئین کے لیے لکھ کر اُنہیں بھی اپنے ساتھ شریکِ سفر کر لیا۔
نامور ادیب اور سفرنامہ نگار حسنتین نازشؔ، محمد اکبر خان کے سفر نامے ”جادو نگری میں اذان‘‘ کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
”یہ ایک مکمل سفر نامہ ہے جو نہ تو داستان ہے، نہ ناول اور نہ ہی ادب کی کوئی دوسری صنف۔ محمد اکبر خان صاحب نہ صرف سفر نامہ نگار ہیں بلکہ بنیادی طور پر ایک اچھے سیاح بھی ہیں کیوں کہ ایک مسافر اپنا ایک مقصد لے کے سفر کرتا ہے۔ اس کی نگاہ نہ صرف اپنے مقصد پر ہوتی ہے بلکہ وہ گرد و پیش کا جائزہ لے کر اس کی جغرافیائی کیفیات و تاریخی واقعات کی ساتھ فطری مناظر کے اسرار کی کیفیات بھی مکمل طور پر سامنے لے آتا ہے۔ ”جادونگری میں اذان‘‘ میں ایسا تاثر بار بار قاری پر طاری ہوتا ہے جب وہ خود کو سری لنکا کے شہروں اور جنگلوں میں پاتا ہے۔‘‘
محمد اکبر خان نے اپنے سفر نامے میں سراندیپ کے مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل کا بغور جائزہ لے کر تمام حالات اتنے بہترین انداز میں پیش کیے ہیں کہ اگر عالمی سطح پر ان تمام حالات پر نظر ڈالی جائے تو نا صرف سری لنکا (سراندیپ) کے مسلمانوں کی حالت بہتر ہو سکتی ہے بلکہ خود آج کے سری لنکا پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
سری لنکا کے سات شہروں کی سیاحت کے اپنے اس اکیس روزہ قیام کے دوران محمد اکبر خان نے سری لنکا کی تاریخ، سیاست، ثقافت اور قدرتی مناظر کو بالکل بھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا بلکہ وہاں رہائش، خوراک، موسم اور لوگوں کے رہن سہن کے متعلق بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ان کی تحریر میں جاذبیت ہے. یہ سفرنامہ تحقیق کا ایک معتبر حوالہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کتاب میں تصاویر کے ساتھ ساتھ مصنف نے کتاب کے آخر میں سری لنکا یاترا کی ویڈیوز کے لنک بھی درج کیے ہیں.
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد
”خود کی تلاش“، اختر سردار چوہدری کی کہانی کاری – محمد اکبر خان اکبر
”صاحبِ اقلیمِ ادب“، بے بدل صحافی، مدیر اور ناول نگار کو خراجِ تحسین – محمد اکبر خان اکبر
معروف ادیب، مضمون نگار اور سفرنامہ نویس طارق محمود مرزا کا ”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ – محمد عمران اسحاق