انسانی زندگی متحرک ہی اچھی لگتی ہے جمود تو ہے ہی موت یا اختتام میری غزل کا ایک شعر ہے:
رکنے والا قدم اپاہج ہے
چلنے والا قدم سلامت ہے
دنیا میں آنے والا ہر وجود ایک جگہ کی مٹی کو دوبارہ نہیں چھوتا. چلنا اور چلتے رہنا ہی اس کا مقدر ٹھہرا لیکن اگر اپنے نقشِ قدم تحریر کی صورت میں چھوڑ دے تو وہ الفاظ دوام پا لیتے ہیں اور ایسے سفر کبھی بھی نہیں مرتے. اپنے سفر کو بیان کرنا کب کوئی آسان کام ہے یہاں تو بقول انور شعور
شعور تیز رہی زندگی کی دوڑ اتنی
کہ ہار جیت شمارے بغیر جیت گئی
لیکن محمد اکبر خان جیسے لوگ ہر قدم پر سفر کا مزہ لیتے ہیں، ہار جیت کا شمار کرتے ہیں. چلتے چلتے اگر کوئی بات، کوئی مقام، کوئی چیز انہیں حیرت میں ڈالے تو وہ اپنی حیرت کی پیاس بجھائے بغیر وہاں سے اگلا قدم نہیں اٹھاتے کہ ہر چیز کا نظر انداز کرنا تو ہے ہی آسان لیکن اپنے گرد و نواح سے دل و نگاہ کی وسعتوں کو خراج پیش کرنا آسان نہیں.
سفرناموں کے نام پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے لیکن قاری کو تو سفر کی وہ روئیداد بھاتی ہے جس میں الفاظ کی چاشنی، تاریخ سے آگاہی اور داستان گوئی کے ساتھ ساتھ افسانہ طرازی اور پڑھنے والے کو اپنی حرف کاری سے جکڑ بھی لے. محمد اکبر خان کا سفرنامہ ’’جادو نگری میں اذان‘‘ قاری کی یہ تمام تشنگیاں دور کر دیتا ہے. اسے یہ ہنر بہت اچھی طرح آتا ہے. داستان سفر لکھنے کے ساتھ ساتھ نہایت خوب صورت الفاظ کا چناؤ بھی کیا گیا ہے تاکہ قاری پڑھنے کے دروان اپنے آپ کو تھکا ہوا محسوس نہ کرے. اکبر خان اسی کتاب کے صفحہ نمبر 20 پر کھلتے ہیں:
”خدا خدا کر کے ریل پہنچی تو لوگ اس پر اس طرح ٹوٹ پڑے جیسے ہمارے ہاں شادیوں میں کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں.‘‘
سفری مشکلات اور اس میں پیش آنے والی صعوبتیں خوش دلی سے بیان کرنا بھی اکبر خان کو خوب آتا ہے وہ صفحہ نمبر 24 پر کہتے ہیں:
”ایک اجنبی شہر میں انجان رستوں پر اور ایک نا آشنا رکشہ ڈرائیور کے رحم و کرم پر سفر کرتے ہوئے مجھے ہاتھوں کے طوطے اڑتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے. میں بھیگی بلی بنا خاموشی سے بیٹھا اپنا جی کڑا کرنے میں مصروف تھا.‘‘
’’جادو نگری میں اذان‘‘ قاری کو رُک رُک کر پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے. ان کی صفحہ نمبر 26 اور 27 پر لکھی گئی تحریر دیکھیں:
”تھکن کے باعث میں نہا دھو کر، تازہ دم ہوا اور کمرے میں چٹخنی چڑھائی اور دنیا و مافیھا سے بے خبر نیند کی راحت انگریز وادیوں میں جا پہنچا. نجانے کتنی دیر سویا رہا ابھی نیم بیداری کے عالم میں تھا کہ دفعتاً اذان کی آواز گونجی اللہْ اکبر اللہ اکبر. اذان کی آواز کا سننا تھا کہ بیداری غنودگی پر غالب آئی اور تمام حسیات بیدار ہو گئیں. تنہائی اور خوف کے ملے جلے جذبات پر سرشاری غالب آنے لگی. بے چین روح کو قرار اور خوش گوار حیرت کا احساس ہونے لگا. اللہ کی کبریائی کا اعلان سن کر بے پایاں اولوالعزمی کا احساس ہوا اور فوراً مسجد جانے کی شدید خواہش نے آن گھیرا.‘‘
علامہ اقبال نے بہت پہلے کہا تھا کہ:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
جو لوگ جمود کا شکار ہو جائیں ان سے وہ لوگ بہت زیادہ بہتر ہیں جواپنے آپ کو ہمہ وقت اس دنیا کی دوڑ میں شامل رکھتے ہیں. اکبر خان صفحہ 41 پر تحریر کرتے ہیں:
”یہ کیسا عجیب الخواص اور عجیب المنفعت شوق ہے کہ سیلانی زندگی کی آسائشیں تج کر دیوانہ وار ویرانوں، جنگلوں اور کوہساروں میں ان دیکھے نظاروں کی کھوج میں گم ہوجاتا ہے. انجان شہروں قصبوں اور بستیوں کی خاک چھانتا ہے. دل کی بلکہ بے قرار دل کی سرگوشیاں سنتا ہے، بے لگام دل کی بات مانتا ہے. اس آوراہ مزاجی میں جو لطف ہے وہ فقط وہی لوگ جانتے ہیں جو اس راہ پر خار پر راہ پیمائی کرنے والے ہوں ورنہ بندر کیا جانے ادرک کا سواد.‘‘
سفرناموں میں منظر کشی بھی ایک وجود رکھتی ہے. جب تک لکھنے والا خود کو اس منظر میں ڈوبتا ہوا محسوس نہ کرے، کیسے کسی دوسرے کو اس منظر کے زندہ ہونے کا اعلان یا احساس کروا سکتا ہے. اکبر خان صفحہ 59 پر لکھتے ہیں:
”گھنے جنگلات کے وسط میں تارکول کی سیاہ سڑک بچھی ہوئی تھی جس نے درختوں کو الگ الگ کر رکھا تھا مگر درخت بھی کہاں چین لینے والے تھے. سڑک کی دونوں جانب سے اپنی اپنی شاخوں کے ذریعے ملن کا مقصد حاصل کرنے کی سر توڑ کاوشوں میں مسلسل مصروف تھے. انہی شاخوں تلے خراماں خراماں ہم اپنی منزل جا پہنچے.‘‘
اسی طرح صفحہ 61 پر لکھتے ہیں:
”ایک عظیم سیاحتی لشکر تھا جو چوٹی کی جانب رواں دواں تھا. چستی سے آگے بڑھنے والے نوجوان تھے، اٹکھیلیاں کرتے بچے تھے، ہانپتے کانپتے ضعیف العمر مرد و زن تھے اور عشق و محبت کی قسمیں کھانے والے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے نئے نویلے جوڑے تھے. سب کی ایک ہی منزل تھی. یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اوپر کوئی عظیم الجثہ مقناطیس نصب ہو جو سب کو بے پناہ طاقت سے اوپر کھینچ رہا ہو.‘‘
اپنی سفری داستان میں ایک پر دیسی کے اندیشوں کو کس خوب صورتی سے بیان کرتے ہوئے صفحہ نمبر 69 پر اکبر خان لکھتے ہیں:
”میں اس پرندے کی طرح گھبرایا ہوا تھا جسے کسی نامعلوم مقام پر قفس سے آ زاد کر دیا گیا ہو اور وہ کسی ایسے عارضی آشیانے کی کھوج میں ادھر ادھر پھرے جہاں رات گزاری جا سکے.‘‘
اور آخر میں اپنی بات اکبر خان کی اس تحریر پر ختم کرتا ہوں:
”وقت چلتا ہی رہتا ہے، مسلسل آگے کی سمت بڑھتا جاتا ہے. مائکروسیکنڈز سکینڈر میں، سیکنڈ منٹ میں، منٹ گھنٹوں میں، گھنٹے دنوں میں، دن ورات ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں، مہینے سالوں اور سال دہائیوں اور دہائیاں صدیوں میں تبدیل ہوتی جاتی ہیں. وقت کا دھارا چلتا ہی رہتا ہے. اس کے بہاؤ پر بند نہیں باندھا جا سکتا البتہ اسے درست استعمال ضرور کیا جا سکتا ہے.‘‘