گُلِ رابیل، باغِ سخن کا وہ پھول ہیں جس کے کھلتے ہی پورا چمن مہکنے لگا ہے. اس پھول کی رنگت و رعنائی نے باغ سخن کی دل آویزی کو مزید نکھار دیار ہے.
شاعری شخصیت انسانی کے محض جذبات، احساسات و تصورات کا نام ہی نہیں بلکہ ان تصورات، جذبات، احساسات اور اس کے پسِ منظر میں کارفرما اسباب و وجوہات کا شعری اظہار بھی ہے. گُلِ رابیل کی شاعری ان تمام محاسن و لوازمات کا مجموعہ ہے. یہی وجہ ہے کہ شاعرہ کے اشعار جو سماں باندھتے ہیں وہ عصرِ حاضر کی شاعرات میں کم ہی دکھائی دیتا ہے. یہاں ان کی شاعری کے عیوب و محاسن کا تذکرہ قطعاً مقصود نہیں کیوں کہ یہ کام تو نقاد کا ہے، میرے پیشِ نظر توان کے شعری سفر کے اولین پڑاؤ کا مختصر سا جائزہ مطلوب ہے. ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’دشت کو پیاسا دیکھ کر‘‘ معنویت اور منفرد شعری اسلوب کا اعلٰی استعارہ ہے. گُلِ رابیل کی شاعری پراثر اور قلب و نظر کو شکار کرنے والی ہے:
ترا خیال میرے مرے غم کا چارہ گر بھی ہے
قدم قدم پہ یہی مرا ہم سفر بھی ہے
خیال آفرینی شاعری کی وہ صفت ہے جو خال خال ہی دیکھنے پڑھنے یا سننے میں آتی ہے البتہ گُلِ رابیل کے پہلے مجموعہ کلام میں ہی ان کی شاعری کا یہ وصف نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے:
فریب مجھ کو نہ دے سکیں گے گلاب چہرے
چمکتی آنکھوں میں کیا لکھا ہے، مجھے پتا ہے
ایک اور غزل کے اشعار دیکھیے:
خون کا دیپ جلانے آئے ہیں جس میں
ظلم کا ایک کٹہرا ہے اور ہم تم ہیں
پھول کھلے ہیں درد بھری برساتوں میں
سب کا رنگ سنہرا ہے اور ہم تم ہیں
گُلِ رابیل اپنی کتاب کے بارے میں لکھتی ہیں کہ ”یہ کتاب شاید الفاظ کا مجموعہ بن کر میرے گھر میں پڑی رہ جاتی اگر میرے استاد محترم خورشید بیگ میلسوی انتہائی محبت اور احسان کے ساتھ میری راہنمائی نہ کرتے.
دھوپ کی اس کڑی مسافت میں
مجھ کو درکار ہے کمک تیری‘‘
وہ دشت کو اپنی حقیقی پناہ گاہ تصور کرتے ہوئے اس میں سکون تلاش کرتی محسوس ہوتی ہیں. گُلِ رابیل تغیر و تبدل کی قائل ہیں. وہ خود اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ:
”میں بے بس نہیں ہوں، میں باہر کی دنیا کو بدلنا چاہتی ہوں، اپنی اندر کی تصوراتی دنیا سے حاصل شدہ وجدان و گیان کے محبت بھرے الفاظ کے ساتھ.‘‘
اسی تبدیلی کے نعرے کی گونج ان کے اشعار میں جلوہ نما ہوتی ہے. مگر دشت کو پیاسا دیکھ کر ایک اور احساس سے آشنا ہو جاتی ہیں.
یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ گُلِ رابیل کے اس پہلے شعری مجموعے کا مجموعی تاثر کافی گہرا اور پر اثر ہے اس لیے یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ انہیں پاکستان کی قد آور شاعرات میں شامل کیا جا سکتا ہے. کیوں کہ ان کا لہجہ پر اعتماد، مترنم اور غنائیت سے بھرپور ہے. انہوں نے دنیائے سخن کے لوازمات کو خوب برتا ہے. امید ہے کہ ان کا یہ مجموعہ کلام شائقینِ شاعری ہاتھوں ہاتھ لیں گے.