علم، ادب اور ثقافت کی ترقی و ترویج کے لیے گوجرانوالہ میں قائم شدہ ”الفانوس لائبریری“ تشنگانِ علم وادب کے لیے ایک معتبر نام ہے۔ اس لائبریری اور تنظیم کے بانی و چیئرمین شہباز احمد ساحر ہیں، جن کی ادارت میں ادبی جریدہ ”سہ ماہی الفانوس“، گوجرانوالہ سے بھی تواتر کے ساتھ چھپتا ہے۔ اس کے ساتھ سا تھ ساتھ اپنی مدد آپ کے تحت ماہانہ فری میڈیکل کیمپ کا بھی اہتمام کیا۔ ”الفانوس“ اورشہباز احمد ساحر کی دیگر ادبی اور فلاحی خدمات بھی میری نظروں گزری ہیں تاہم یہاں میرا مطمع نظر ”الفانوس لائبریری“ اور ”ادبی ایوارڈ“ ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ شہباز ساحر نے ”الفانوس“ کے زیرِ اہتمام 21 اکتوبر 2012ء کو علمی ادبی اور تحقیقی مرکز ”الفانوس لائیبریری“ قائم کر دی اور کتب اکھٹی کرنے میں مگن ہو کر عوام کو مطالعہ کی عادت اپنانے کا تہیہ کر لیا۔ اپنی انتھک محنت میں، میری نظر میں، شہباز ساحر کامیاب ہو گئے، جس کا اعتراف ملکی اور غیر ملکی تنظیموں نے بھی کیا۔
کتاب کلچر کے فروغ اور مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لیے کتب پر بین الاقوامی سطح پر ایوارڈ دینے کا سلسلہ بھی ”الفانوس لائبریری“ کے سائے تلے گزشتہ سات برسوں سے تواتر سے ہو رہا ہے. شہباز ساحر اپنی مدد آپ کے تحت نہ صرف یہ کارِ خیر سرانجام دے رہے ہیں بلکہ نامساعد حالات اور انتہائی کم وسائل کے باوجود سالانہ ایوارڈ کی تقریبات کا تسلسل جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ میری بہت خوش بختی ہے کہ میں 2022ء اور 2023ء میں اپنی انتہائی مصروفیت کے باوجود گوجرانوالہ شہر ”الفانوس ایوارڈ“ وصول کرنے گیا۔ ان تقاریب میں ملکی اور غیر ملکی ادبی اور علمی شخصیات سے ملاقات اور گفتگو سےمجھے اندازہ ہوا کہ گوجرانوالہ شہر کے اندر علم کی جو روشنی شہباز ساحر نے جلائی ہے، وہ ایسی ہے کہ شاید تا قیامت اسے نہ بھجایا جا سکے۔
اس سال بھی میری کتاب ”پہلی جھلک یورپ کی“ جو کہ یورپ کے سفر کا آنکھوں دیکھا حال ہے، میں نے اس ایوارڈ کے لیے بھیجی۔ خوش بختی سے اس دفعہ بھی میری اس کتاب یعنی ”پہلی جھلک یورپ کی“ کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔
میرے لیے بطور سفرنامہ نگار اور بطور مصنف یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ تین سال لگاتار میرے تین مختلف سفرناموں کو یہ ایوارڈ ملا اور میں ہر بار اس سے پہلے یہ ایوارڈ وصول کرنے کے لیے بنفس نفیس گوجرانوالہ خصوصیت کے ساتھ پہنچ گیا۔ اس سال چوں کہ میں امریکہ میں مقیم ہوں اس لیے میں اپنی پوری کوشش کے باوجود بھی بہرحال گوجرانوالہ نہیں جا سکتا، جس کا مجھے شاید ہمیشہ دُکھ رہے۔
میں بہت شکر گزار ہوں ”الفانوس لائبریری“ کا، شہباز ساحر کا اور اداے کے منتظمین کا، کہ جنہوں نے اس ایوارڈ کو جاری و ساری رکھا ہوا ہے اور بہت کم وسائل ہونے کے باوجود وہ علمی، ادبی اور فلاحی کاموں میں ایسے ہی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں.
میں دعا گو ہوں کہ اس تنظیم سے نکلنے والی ادب کی جو شعاعیں ہیں، اس سے نہ صرف ملک کا کونہ کونہ منور ہو بلکہ ساتھ ہی ساتھ عالمی سطح پر بھی نہ صرف اس کی جو پہلے بھی پذیرائی ہو چکی ہے، اس میں مزید اضافہ ہو۔ آخر میں میں ایک دفعہ پھر شہباز ساحر صاحب کا، ”الفانوس لائبریری“ کے منتظمین کا اور اس ادبی ایوارڈ کی انتظامیہ کا بہت شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھ نا چیز کی جملہ مصاحی ”پہلی جھلک یورپ کی“ کو شرفِ قبولیت بخشا اور اسے ایوارڈ سے نوازا۔ اللہ عزوجل فروغِ علم وفن کے اس جذبے کو تاقیامت قائم ودائم رکھے، آمین.
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد
”خود کی تلاش“، اختر سردار چوہدری کی کہانی کاری – محمد اکبر خان اکبر
”صاحبِ اقلیمِ ادب“، بے بدل صحافی، مدیر اور ناول نگار کو خراجِ تحسین – محمد اکبر خان اکبر
معروف ادیب، مضمون نگار اور سفرنامہ نویس طارق محمود مرزا کا ”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ – محمد عمران اسحاق