دنیائے ادب میں مستنصر حسین تارڑ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ مستنصر حسین تارڑ بیک وقت کئی حوالوں سے جانے جاتے ہیں۔ان کا مقدم حوالہ تو سفرنامہ نگار کا ہے مگر ناول، کالم، افسانہ اور اداکاری کے میدان میں بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا شاندار اظہار کیا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ یکم مارچ 1939ء کو لاہور میں پیدا ہوئے. آپ کے والد رحمت جان تارڑ گجرات کے ایک کاشت کار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مستنصر حسین تارڑ نے اپنے والد سے گہرا اثر قبول کیا۔ بیڈن روڈ پر واقع لکشمی مینشن میں ان کا بچپن گزرا۔ سعادت حسن منٹو پڑوس میں رہتے تھے۔ مستنصر حسین تارڑ نے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز سفرنامے سے کیا۔ سفرنامہ نگار کی حیثیت سے ان کا نام منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ آپ نے سفرنامے کو نئی جدت اور اسلوب بخشا. جو چیز اپنی انکھوں سے دیکھتے وہی قاری کو دکھانے کی کوشش کرتے۔ انہوں نے نگر نگر گھوم کر اپنے پڑھنے والوں کو نئی چیزوں سے روشناس کرایا۔ مستنصر حسین تارڑ کو شروع ہی سے آوارگی کا شوق تھا اور وہ کہتے ہیں کہ ”میں آوارہ گرد ہوں‘‘ اور سفرنامے لکھنے کے لیے ایک حس آوارگی کی ہونا ضروری ہے۔ اور منظر نگاری کرتے ہوئے وہ الفاظ کی ایسی جادوئی بنت کرتے ہیں کہ پڑھنے والا اس مقام و منظر سے بھر پور واقفیت حاصل کرلیتا ہے۔
احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں کہ:
”مستنصر حسین تارڑ نے جدید سفرنامہ نگاری کا اعتبار قائم کیا ہے۔ میری نظر میں اسلوب کا یہ فرق اتنا سا ہے کہ تارڑ اپنے سفر کے مشاہدات میں اپنے محسوسات بھی شامل کرتا چلا گیا ہے. یہی سبب ہے کہ سفرنامہ تاریخی یا جغرافیائی یا معلوماتی یا محض مشاہداتی سطح سے بلند ہو کر ادب پارہ ہو گیا ہے۔ تخلیقی ادب کا سارا سرمایہ تخلیق کار کے محسوسات ہوتے ہیں۔‘‘
سفرنامے کے میدان میں اپنا سکہ جما کر وہ ناول نگاری کی جانب آئے۔ انہوں نے اس شعبے میں بھی بہت کام کیا جو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے یہاں ناول نگاری میں بھی موضوع کی وسعت اور مقدار بہت وسیع ہے اور موضوعات کی اس وسعت میں ان کی سفری زندگی کا بھی بہت دخل ہے۔ دنیا کو چاروں کھونٹ جاجا کر دیکھنا، کھوجنا، سمجھنا اور سفری تجربات اور مشاہدات کو بھی اپنے ناولوں میں برتنا اور ساتھ ہی ساتھ جہاں گردی کے دوران میں، رابطے میں آنے والے افراد اور ان کے احوال کو بھی اپنے ناولوں میں مسالے کے طور پر استعمال کرنا تارڑ صاحب کا خاصا ہے. ادبی حوالے سے مستنصر حسین تارڑ کے فن کا پتا ان کی ناول نگاری سے لگتا ہے۔ محمد علی صدیقی لکھتے ہیں کہ:
”اپنے ناولوں کے لیے نئی دنیائیں بساتا ہے تو پھر ایک اور طرح کا کمال پیدا کر دیتا ہے، یوں لگتا ہے کہ دنیا بسانے والا اس دنیا کی معدومی کی خبرجاں سوز سنانے میں بھی اس درجہ انہماک بلکہ جوش و خروش کا مظاہرہ کرتا ہے کہ یہ ماننا پڑتا ہے کہ قدرت آتش فشاں کے ابلتے، پھیلتے اور بستیوں کو نکلتے ہوئے لاوے کو بھی اسی Urgency کے ساتھ باہر نکالتی ہے جس قوت لایموت کے ساتھ اس لاوے کی تباہ کاری سے بچنے کے لیے سر توڑ کوششیں کی جا تی ہیں۔‘‘
مستنصر حسین تارڑ نے اپنے ناولوں میں معاشرے کے پسماندہ اور پسے ہوئے طبقے کو موضوع بنایا ہے اور تاریخ کے ایسے پہلو کو اجاگر کیا ہے جس سے ہم ناواقف تھے. وہ مشاہداتِ قدرت اور مطالعہ انسانی سے بہت درجہ واقف ہیں۔
مستنصر حسین تارڑ کی ناول نگاری کا جائزہ لیا جائے تو ان کی ناول نگاری میں پانیوں کا بہاؤ، اور ان کے سوکھ جانے کا غم، مذہب کے نام پر استحصال، زمانے کے خس وخاشاک ہو جانے کا المیہ، تاریخی المیہ، مزدور زندگی کی تلخیاں، معاشی و سماجی استحصال، انسانی اقدار کا استحصال وغیرہ ان کی ناول نگاری کے موضوعات ہیں۔
مستنصر حسین تارڑ آشوبِ وقت کے نوحہ گر ہیں کیوں کہ وہ معاشرتی نظام سے خوب واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انسانی بدن کے ساتھ موجود ایندھن کو فراہمی کیسے برقرار رکھی جائے اور ان کا یہ نظریہ زندگی کا فن کافی اہمیت رکھتا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ اپنے ناولوں میں کئی جہاں کھولتے ہیں. وہ صرف ایک موضوع پر نہیں لکھتے بلکہ آپ کے ناولوں میں سیاست، تاریخ، سماج، معاشی مسائل، فلسفہ، انسانی نفسیات اور اس کے علاوہ زندگی کے سارے ہی رنگ نظر آتے ہیں۔ ناول کے مطالعے سے حیرت ہوتی ہے کہ مختلف اقوام اور خاندانی زندگی کے شب و روز کے بارے میں مصنف کا مشاہدہ کتنا گہرا اور حقیقی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قلم اٹھانے سے پہلے اس موضوع پر برسوں تحقیق کی گئی ہو۔ اور ان کی یہی فلسفیانہ سوچ اور فکر ناولوں میں بھی سیاسی، سماجی، معاشی اور تاریخی پس منظر بیان کرتی ہے۔ انہیں انسانی نفسیات کا بھر پور علم ہے اور ایسے پہلوؤں کو ناول میں سمونا کسی مصنف کے لیے آسان نہیں ہوتا لیکن تارڑ کو یہ صلاحیت قدرت کی طرف سے عطا ہے۔
ہم نے پڑھ رکھا ہے کہ مستنصر حسین تارڑ کے بہت سے پسندیدہ موضوعات ہیں جو انہوں نے اپنے ناولوں میں استعمال کیے ہیں. ان موضوعات میں دریا، دریاؤں کا بہاؤ، دریاؤں کا خشک ہونا، جنگ و جدل، عروج و زوال اور سب سے بڑھ کر تاریخ اور ثقافت جیسے دیگر موضوعات شامل ہیں. بلا شبہ یہی تخلیقات مستنصر حسین تارڑ کو بڑا تخلیق کار ماننے پر مجبور کرتی ہیں۔
