ترکی زبان اور انقرہ کی اُردو اکیڈمی – صدیق سالک

میں نے ترکوں کو اپنے اپنے کام میں رواں دواں مگر وقتِ ضرورت سراپا مہربان پایا. اگر آپ راستہ بھول گئے ہوں، منزل سے بھٹک گئے ہوں یا کسی اور وجہ سے مدد چاہتے ہو تو صرف ایک لفظ کہیے ”پاکستان‘‘ اور آپ کے تمام مسائل آناً فاناً حل ہوجائیں گے، الہ دین کا چراغ تو یوں ہی مشہور ہو گیا ہے.
ترک باشندوں کے جذبہ میزبانی کے بعد مجھے اُن کی زبان بہت پسند آئی. میرے خیال میں‌ ”زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم‘‘ کا محاورہ بہت پیچھے رہ گیا ہے. انقرہ پہنچ کر احساس ہوا کہ ترکی اور پاکستان میں استعمال ہونے والے بہت سے الفاظ مشترک ہیں، مثلاً سائیں (Sayen) بمعنی ”محترم‘‘، فقیر بمعنی ”غریب‘‘ اور بے کار بمعنی ”کنوارا‘‘.
میں نے مشترک الفاظ کی اسی رو میں ”اُردو اکیڈمی‘‘ کا نام سنا تو دل باغ باغ ہو گیا. میزبانوں کی خدمت میں عرض کیا میں باغ واغ بعد میں دیکھوں گا پہلے مجھے ”اُردو اکیڈمی‘‘ ضرور دکھائیے. وہ میرا اشتیاق دیکھ کر بہت خوش ہوئے، فوراً اکیڈمی لے گئے. وہاں پہنچا تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ ان کے استقبالیے میں مولوی عبدالحق کسی جرنیل کی تصویر ٹنگی تھی اور لوگ اُردو کے قواعد یاد کرنے کے بجائے پریڈ کر رہے تھے. میزبان نے بتایا یہ ہماری ملٹری اکیڈمی ہے جہاں تینوں مسلح افواج کے افسر تربیت پاتے ہیں. اب مجھے ہائی سکول کا بھولا ہوا آموختہ یاد آیا کہ اُردو کے معنی ”لشکر‘‘ ہیں اور اُردو اکیڈمی کا مطلب ”عسکری تربیت گاہ‘‘ ہے. اندر سے تو میں بہت شرمندہ ہوا لیکن ظاہراً میں نے اپنے آپ کو یہ تسلی دی کہ میری جہالت کا پردہ چاک نہیں ہوا ہو گا کیوں کہ میرے نام کے ساتھ عسکری عہدہ بھی نتھی ہے، وہ سمجھتے ہوں گے کہ میں اپنے عسکری پیشے کی وجہ سے ان کی تربیت گاہ میں غیرمعمولی دلچسپی لے رہا تھا.
(صفحہ: 155)