آج اُردو زبان کے ممتاز شاعر اور صداکار زیڈ اے بخاری کا یومِ وفات ہے.
زیڈ اے بخاری کا پورا نام ذوالفقار علی بخاری تھا. وہ 1904ء میں پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ بخاری صاحب کو بچپن ہی سے سٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا شوق تھا چنانچہ انہوں نے پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج‘ کے مشہور ڈرامے ’’انارکلی‘‘ میں سلیم کا کردار ادا کیا اور خوب داد تحسین حاصل کی۔ اس ڈرامے کے پروڈیوسر بھی وہ خود ہی تھے۔ 1936ء میں جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب ریڈیو سے منسلک ہوگئے پھران کا یہ ساتھ زندگی بھر جاری رہا اور بخاری صاحب اور ریڈیو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن گئے۔
1938ء میں بخاری صاحب نشریات کی تربیت حاصل کرنے لندن گئے۔ 1940ء میں وہ ”جوائنٹ براڈ کاسٹنگ کونسل، لندن‘‘ سے منسلک ہوئے اور اسی زمانے میں انہوں نے بی بی سی سے اُردو سروس شروع کی۔ لندن سے واپس آکر بمبئی اور کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے. قیام پاکستان کے بعد بخاری صاحب ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ نومبر 1967ء میں کراچی میں ٹیلی وژن سٹیشن قائم ہوا تووہ اس کے پہلے جنرل منیجر مقرر ہوئے۔
بخاری صاحب کو شعر و ادب سے شغف ورثے میں ملا تھا۔ ان کے والد اسد اللہ شاہ بخاری صاحبِ دیوان نعت گو شاعر تھے۔ بڑے بھائی پطرس بخاری اُردو کے صاحبِ طرز ادیب اور ماہر تعلیم تھے۔ پھر بخاری صاحب کو ابتدا ہی سے اچھے شاعروں کی صحبت میسر آئی جن میں حسرت موہانی‘ علامہ اقبال‘ یاس یگانہ چنگیزی‘ نواب سائل دہلوی اور وحشت کلکتوی جیسے اساتذہ فن شامل تھے۔ عربی میں آپ نے مولانا عبدالعزیز میمن اور فارسی میں مولانا شاداب بلگرامی سے کسبِ فیض کیا۔ ان تمام عوامل نے بخاری صاحب کی شخصیت کی جلا میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
بخاری صاحب ایک اعلیٰ ماہرنشریات ہی نہیں بلکہ ایک بلند پایہ صداکار بھی تھے۔ انہوں نے بمبئی میں بمبئے خان بن کر اور کراچی میں جمعہ خان جمعہ بن کر صدا کاری کے جوہردکھائے وہ سننے والوں کے دلوں میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔
زیڈ اے بخاری نے ریڈیو کے متعدد ڈراموں میں بھی صداکاری کی جن میں سب سے زیادہ شہرت ’’لائٹ ہاؤس کے محافظ‘‘ نے حاصل کی۔ مرثیہ خوانی اور شعر خوانی میں بھی ان کا انداز یکتا تھا۔ خود بھی شعر کہتے تھے اور موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے۔ فارسی‘ اُردو‘ پنجابی‘ پشتو‘ بنگالی‘ برمی اور انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھتے تھے اور یوں ہفت زباں کہلاتے تھے۔
بخاری صاحب نے اپنے حالاتِ زندگی ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیے جو اُردو کے نثری ادب کا گراں قدر سرمایہ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مختلف راگوں اور راگنیوں پر ایک کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی یادگار چھوڑی۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی پطرس بخاری کی یاد میں ایک کتاب ’’بھائی بھائی‘‘ کے نام سے لکھنی شروع کی تھی مگر یہ کتاب مکمل نہ ہوسکی۔ البتہ ان کا مجموعہ کلام ’’میں نے جو کچھ بھی کہا‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔ زیڈ اے بخاری 12 جولائی 1975ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ وہ کراچی میں سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔