سمندر کے ساحل پر ہزاروں مچھلیاں کنارے پہ پڑی تڑپ رہی تھیں اور ایک شخص ان مچھلیوں کو واپس سمندر میں پھینک کر ان کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ پاس سے گزرتے ایک شخص نے طنزاً ہنستے ہوئے کہا: ”تمہارے اس عمل سے کتنی مچھلیوں کو فرق پڑے گا؟‘‘ یہ سن کر وہ شخص نیچے جھکا، ایک تڑپتی مچھلی کو اٹھایا اور سمندر میں اچھال دیا۔ وہ مچھلی پانی میں جاتے ہی تیزی سے تیرتی ہوئی آگے نکل گئی۔ اس نے دوسرے شخص کو کہا: ’’دیکھ لو اسے تو فرق پڑگیا۔‘‘
اس مختصر کہانی میں یہ سبق پنہاں ہے کہ ہماری چھوٹی سی کاوش سے بھلے مجموعی حالات تبدیل نہ ہوں، مگر چند ایک کے لیے وہ کاوش فائدہ مند ضرور ثابت ہوتی ہے۔ میرے حلقہ احباب میں بھی ایک ایسی شخصیت موجود ہے جو اپنی طاقت سے بڑھ کر صنف نازک کی بہتری اور انہیں باہمت، باشعور اور بااعتماد بنانے کے لیے گزشتہ کئی سالوں سے سرگرم عمل ہے۔ وہ شخصیت دنیائے ادب میں ”ہما مختار احمد‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔
ان کی کاوشوں کی بات کی جائے تو ایک طرف انہوں نے خواتین میں تحریری صلاحیتیں پیدا کرنے اور ان کی تحاریر کو نکھارنے کے لیے سوشل میڈیا پر گروپس بنائے ہوئے ہیں جن میں بہت خوبصورتی، خلوص اور دل جمعی سے نئے لکھنے والوں کی صلاحیتوں کو جلا بخشی جاتی ہے اور پھر آئے روز ان گروپس میں کبھی مختصر کہانیوں اور کبھی مختصر تحریروں کے مقابلے کرائے جاتے ہیں جو قابل ستائش سے بڑھ کر قابل تقلید ہیں۔
دوسری طرف موصوفہ نے صنف نازک میں اعتماد پیدا کرنے، ان میں ہمت، جوش اور وقار جیسے جذبات اجاگر کرنے اور ان کو زندگی کی مشکل راہوں سے شعور اور حوصلے کے ساتھ گزرنے کے لیے ”باہمت لڑکی‘‘ کے خوب صورت اور دلکش عنوان سے ایک بہت عمدہ کتاب تصنیف کی ہے۔ اس میں خصوصی طور پر خواتین کے ذاتی اور معاشرتی مسائل کو نہ صرف موضوع بحث بنایا گیا ہے، بلکہ ان مسائل کے حل بھی تجویز کیے گئے ہیں۔
یقین جانیں کہ ”باہمت لڑکی‘‘ کے صرف مندرجات کو پڑھ کر ہی دل عش عش کر اٹھا اور راقم الحروف سوچ میں پڑگیا کہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی اس نوعمر لڑکی کے خیالات اور تحریروں میں کس قدر چاشنی ہے اور اس کے عزائم کس قدر بلند اور ولولہ انگیز ہیں۔
”باہمت لڑکی‘‘ بلا شبہ ہر لڑکی کی کہانی ہے، لہٰذا اس کتاب کا مطالعہ معاشرے کے ہر فرد بالخصوص خواتین کو لازمی کرنا چاہئے، اس لیے کہ یہ کتاب ان کی زندگیوں میں خوش گوار تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور وہ اپنے آپ کو بااعتماد اور باہمت محسوس کریں گی۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے شہر سے تعلق رکھنے والی نو عمر مگر بااعتماد، باشعور، باوقار اور باہمت لڑکی کی تصنیف کردہ کتاب ”باہمت لڑکی‘‘ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ”روشنی کی کرن‘‘ کی مانند ہے اور میرا ماننا ہے کہ ”ہما مختار جیسے چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔‘‘
دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہما مختار احمد کو اپنے عظیم مقاصد میں کامیاب کرے اور وہ صنف نازک اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے ”ہاہمت لڑکی‘‘ جیسی تحاریر و تصانیف قلم بند کرتی رہیں۔ راقم الحروف کی طرف سے کتاب کی مصنفہ ہما مختار احمد اور پبلشر وسیم سہیل کو مبارکباد اور بہت سی شاباش۔ اس لیے کہ ہمارا تو کام ہی اچھے کام کرنے والوں کو شاباش دینا اور ان کی پیٹھ تپھکپانا ہے۔۔۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
کام یابی کیا ہے؟
مطلوبہ ہدف کا حصول!
تاہم عملی زندگی میں کامیاب ہونے اور مطلوبہ اہداف تک پہنچنے کے لیے جہد مسلسل لازمی امر اور کامیابی کی کنجی ہے.
کامیابی کا ہے رئیس امکاں
گر مرتب عمل کے خاکے ہوں
آپ کو اپنے اہداف مقرر کرنا ہوں گے اور پھر اہداف کے تعاقب میں سرگرم رہنا پڑتا ہے. کنارے سے ہی طوفاں دیکھنے والوں کو کبھی طوفاں کا اندازہ نہیں ہوتا. کامیاب زندگی گزارنے اور مالی ذہنی آسودگی کے لیے سر کو ٹھنڈا اور پاؤں گرم رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے.
ہما مختار احمد کی زیرِ نظر تصنیف ”باہمت لڑکی‘‘ دراصل ایک چراغِ راہ ہے ان کے لیے جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں. اس چھوٹی عمر میں قلم کی یہ پختگی اور غیر متزلزل ارادوں کی اڑان اظہر من الشمس ہے کہ ہما مختار مستقبل قریب ستاروں پہ کمند ڈالتی نظر آرہی ہیں.
اعجاز احمد نواب
ہما مختار دور حاضر کی باہمت لکھاری ہیں. ان کی تحریر معاشرتی موضوعات کی عکاسی کرتی ہے. آپ کے موضوعات عام انسان کے مسائل کےگرد گھومتے ہیں. آ پ کے کردار دلیر اورنڈر ہوتے ہیں جو زمانے کی مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کر سکتے ہیں. یقینی طور پر مایوسیوں کو چھاٹتی ہما مختار کی یہ تحاریر آ پ کو متاثر کریں گی۔
نایاب جیلانی
ہما مختاراحمد، شاہینوں کے شہر سے ”گمنام مصور‘‘ اور ”کھڑکی کے اس پار‘‘ ”شبِ ظلمت‘‘ کو مات دیتی ہوئی ”باہمت لڑکی‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے آئیں ہیں. ان کے مزاج میں سنجیدگی ہے. کچھ کرنے اور کروانے کا ذوق و شوق ہی نہیں صلاحیت اور حوصلہ بھی پایا جاتا ہے. ان کے اعتماد کا سفر خاموشی کی زبان میں شور مچاتا ہوا کامیابی کی دلیل بن کر ”باہمت لڑکی‘‘ کے روپ میں ہر لڑکی کے لیے امید اور حوصلے کا استعارہ ہے. بہت سی دعائیں اور نیک تمنائیں ہما مختار احمد کے عزم و حوصلے کی نام! ان کی اس کاوش کے نام!
سباس گل
شاعرہ، ناول نگار
کتاب ”باہمت لڑکی‘‘ کی مصنفہ ہما مختار احمد کا تعلق شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے شہر سیالکوٹ سے ہے. آپ کو اس شہر میں پیدا ہوئیں. ہما مختار نے اپنی تعلیم سیالکوٹ سے ہی مکمل کی. اس وقت آپ یونیورسٹی آف گجرات کے شعبہ کیمیا میں ایم ایس سی کی طالبہ ہیں. اُردو ادب سے آپ کا تعلق پندرہ سال کی عمر میں قائم ہوا جب آپ نے کہانیاں تخلیق کرنا شروع کیں. آپ ملک کے مختلف اخبارات اور ڈائجسٹس سے بطور کالم نویس و کہانی نگار وابستہ ہیں.
”باہمت لڑکی‘‘ ہما مختار احمد کی پہلی تصنیف ہے جس کو لکھنے کا مقصد لڑکیوں کو نہ صرف ہمت دلانا بلکہ انہیں باشعور بنانا ہے تا کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں کام یاب ہو سکیں. آپ کی اب تک شائع ہونے والی مشہور تحاریر میں ”گمنام مصور اور لکھاری‘‘، ”کھڑکی کے اُس پار‘‘ اور ”شبِ ظلمت‘‘ شامل ہیں. 120 صفحات پر مشتمل کتاب ”باہمت لڑکی‘‘ پہلی بار 2020ء میںشائع ہوئی. اُشا، ڈیرہ اسماعیل خان کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت 500 روے مقرر کی گئی ہے.