ایک چینی کہاوت ہے کہ ”جب آدمی 10 کتابیں پڑھتا ہے تووہ 10 ہزار میل کا سفر کرلیتا ہے۔‘‘
گورچ فوک کہتے ہیں:
”اچھی کتابیں وہ نہیں جو ہماری بھوک کو ختم کردیں، بلکہ اچھی کتابیں وہ ہیں جو ہماری بھوک بڑھائیں۔۔۔ زندگی کو جاننے کی بھوک.‘‘
اؤلس گیلیوس کہتے ہیں: ”کتابیں خاموش استاد ہیں.‘‘
فرانز کافکا کے بقول: ”ایک کمرہ بغیر کتاب کے ایسا ہی ہے جیسے ایک جسم بغیر روح کے.‘‘
گوئٹے کے مطابق: ”بہت سے لوگوں کو یہ بات نہیں معلوم ہے کہ مطالعہ سیکھنا کتنا مشکل اور وقت طلب کام ہے، میں نے اپنے 80 سال لگا دیے لیکن پھر بھی یہ نہیں کہہ سکتا ہوں کہ میں صحیح سمت کی جانب ہوں.‘‘
تھومس فون کیمپن: ”جب میں عبادت کرتا ہوں تو میں خدا سے باتیں کرتا ہوں، لیکن جب میں کوئی کتاب پڑھتا ہوں تو خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے.‘‘
جین پاؤل کے مطابق: ”کتابیں ایک طویل ترین خط ہے جو ایک دوست کے نام لکھا گیا ہو.‘‘
گٹھولڈ لیسنگ مطالعہ کے بارے میں لکھتے ہیں: ”دنیا اکیلے کسی کو مکمل انسان نہیں بنا سکتی، اگر مکمل انسان بننا ہے تو پھر اچھے مصنفین کی تصانیف پڑھنا ہوں گی.‘‘
نووالیس کے مطابق: ”کتابوں سے بھری ہوئی لائبریری ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہم ماضی اور حال کے دیوتاؤں سے آزادی کے ساتھ گفتگو کرسکتے ہیں.‘‘
اب دو جرمن اقوال تحریر کرتا چلوں:
”کتابیں پیالے کی مانند ہیں جن سے پانی پینا تمہیں خود سیکھنا ہوگا.‘‘
”جرمن زبان میں گدھے کو ایزل کہتے ہیں جب اس لفظ کو الٹا پڑھا جائے تو یہ لیزے بنتا ہے، اس لیے یہ کوئی عجوبہ نہیں ہے اگر یہ کہا جائے کہ کچھ معلومات حاصل کرنے کے لیے تمھیں گدھے کی طرح محنت کرنا ہوگی۔‘‘
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں فی کس اوسطاً صرف 6 پیسے سالانہ کتاب کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں…
جس معاشرے میں کتابیں پڑھنے کا شوق نہ ہو وہ کبھی شعور حاصل نہیں کرسکتا. بقول عمدہ لکھاری، محمد اکرم سحر کے ”کتابوں کو کبھی بھی زمین پر نہ گرنے دیں کیوں کہ یہ انسان کو زمین سے آسمان پر لے جاتی ہیں‘‘ درست، کیوں کہ اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ کتاب میں محنت، سرمایہ، اور کثیر وقت درکار ہوتا ہے اور یہ انسانی تجربہ و تحقیق پر مبنی ذہنی عکاسی کا مظہر بھی ہوتی ہے. دیکھنے میں آیا ہے کہ صاحبِ کتاب کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی تحریر کردہ کتاب قاری تک پہنچائے اور اسی مقصد کے لیے کتاب تقسیم کی جاتی ہے. جب کہ اس کے برعکس جن قاری کو کتاب ملی ہو وہ اپنی مصروفیات یا عدم دلچسپی کی بناء پر اس کتاب کو پڑھنے سے قاصر ہوتا ہے. یہ رویہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے. کتاب معاشرے کی اصلاح و ترقی کا باعث بھی ہوتی ہے بشرطیکہ موجودہ نوجوان نسل اس اہمیت کو سمجھ کر کتاب بینی کو اپنی عادت بنائے. کہا جاتا ہے کہ ”جب تک حسین دوشیزہ زیور سے آراستہ نہ ہو تب تک اس کی خوب صورتی اُبھر کر سامنے نہیں آتی.‘‘ بالکل اسی طرح بہت زیادہ علم رکھنے والے شخص کے پاس اگر ادب نہیں تو اس کا علم بےکار ہے. وہ عالم ادب کے زیور سے آراستہ ہو ہی نہیں سکتا اور اسی بناء پر ادب کو علم کا زیور کہا گیا ہے.
علم کتابوں سے ملتا ہے جو کہ معاشرے کی ذہنیت، شعور، تہذیب اور ترقی کی عکاس ہوتی ہیں. اس تیز رفتار سائنسی ترقی سے قبل کتابوں کی اہمیت، اور حرمت قابل دید تھی مگر اب یہ بات ماضی کا حصہ نظر آنے لگی ہے. اس چکا چوند، پے درپے ترقی نے نوجوانوں کو کتابوں سے دور کر کے سُستی اور کاہلی کے اندھیرے کنویں میں دھکیل دیا ھے.
صرف یہی نہیں بلکہ اس وقت زیادہ دکھ ہوتا ہے کہ بہت بہت قیمتی کتابیں زمین پر کوڑی کے دام پر فروخت کے لیے موجود ہوتی ہیں. اس قدر سائنسی ترقی کو دیکھ کر آج کا نوجوان شاید یہ بھول گیا ہے کہ جدید ترقی، سیٹلائیٹ کا کمال، یا جو بھی ترقی وقوع پذیر ہو رہی ہے وہ سب ہی کتابوں کے مرہونِ منت ہے. میرے خیال میں صرف اتنی سی بات جس روز ہمیں سمجھ میں آگئی، اس روز کتاب کی اہمیت، عزت، حرمت اور ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ جائے گی.
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد
”خود کی تلاش“، اختر سردار چوہدری کی کہانی کاری – محمد اکبر خان اکبر
”صاحبِ اقلیمِ ادب“، بے بدل صحافی، مدیر اور ناول نگار کو خراجِ تحسین – محمد اکبر خان اکبر
معروف ادیب، مضمون نگار اور سفرنامہ نویس طارق محمود مرزا کا ”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ – محمد عمران اسحاق