جاوید اختر چودھری گزشتہ کئی برسوں سے برطانیہ میں مقیم ہیں. ان کا آبائی تعلق سوہاوہ سے ہے مگر انھوں نے کئی دہائیوں سے برطانیہ میں سکونت اختیار کر رکھی ہے اور انگلستان میں ایک مدت سے اُردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں. اُن کی وجہ شہرت تو افسانہ نگاری ہے ان کے افسانے پاکستان، ہندوستان اور برطانیہ کے جرائد میں تواتر شایع ہوتے رہتے ہیں. ان کا اسلوبِ تحریر نہایت جاندار اور پر اثر ہے. وہ کہانی کی بنت اور کرافٹ کے ماہر ہیں اور ان کی کہانیوں کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف گہرا مشاہدہ رکھتے ہیں بلکہ سادگی و پرکاری اور دل آویز طرزِ تحریر سے قارئین کو متوجہ بھی کرنے پر قادر ہیں.
ان کی خودنوشت سوانح حیات کا پہلا حصہ ”کچھ مہرباں کچھ نامہرباں موسم‘‘ کے عنوان سے زیرِ مطالعہ رہا. مصنف کی شریکِ حیات محترمہ سلطانہ مہر توصیف و ستائش کی حق دار ہیں کہ انھوں نے مسلسل اصرار اور بے نظیر تعاون کرکے جاوید اختر چودھری کو خودنوشت لکھنے پر آمادہ کیا ورنہ ان کی زندگی کے مختلف گوشے، نشیب و فراز اور راہ زندگانی کی مستقل تگ ودو ہم تک شاید کبھی نہ پہنچ پاتی. یوں تو محترمہ سلطانہ مہر خود بھی ایک ایک قد آور ادبی شخصیت ہیں جنہوں نے اُردو ادب کو کئی لازوال ادبی فن پاروں سے مزین فرمایا ہے مگر اُردو ادب پران کا یہ احسان بھی تا قیامت باقی رہے گا کہ انہوں نے ایک صاحبِ طرز ادیب و کہانی کار کو اپنی زندگی کی کہانی لکھنے پر آمادہ کار کیا. جاوید اختر چودھری صاحب چوں کہ ایک سکہ بند ادیب ہیں اس لیے ان کی تحریر میں ادبی چاشنی اور گھلاوٹ بدرجہ اتم موجود ہے. انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام، یعنی بچپن کا دل نشین تذکرہ رقم فرمایا ہے جو مختصر ہونے کے باوجود دلچسپ اور پڑھنے کے لائق ہے. ان کے افسانہ نگار بننے کا تدریجی عمل اسی وقت شروع ہوگیا تھا جب وہ بچپن میں گورا قبرستان کی خاموش فضا میں تن تنہا بیٹھے دنیا و ما فیھا سے بے نیاز، افسانوی مجموعے کے مطالعے میں مصروف رہا کرتے وہ لکھتے ہیں کہ:
”ایک دن والد صاحب نے کتابوں میں چھپے ہوئے افسانوی مجموعے کو دیکھ لیا. بازپرس شروع ہوئی تو میں نے انھیں بتادیا کہ میں چچا کے رسالوں کے علاوہ صوفی محمد زمان کی آنہ لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھتا ہوں. اس کے بعد درسی کتابوں کے مطالعے کے علاوہ دیگر کتب پڑھنے سے مجھے سختی سے منع کر دیا گیا.‘‘
جاوید اختر چودھری کتاب میں نے مطالعہ کی ایک اور وجہ بھی لکھی ہے، وہ لکھتے ہیں:
”شام کو پڑھنے کی ایک وجہ اور بھی تھی. گاؤں کی ایک سانولی سلونی لڑکی مجھے اچھی لگنے لگی تھی. وہ صبح اور شام اپنی ایک سہیلی کے ساتھ کنویں پر پانی بھرنے آتی تھی.‘‘
بہر حال وہ اس سے اپنی چاہت کا اظہار نہ کر سکے اور سکول سے کالج جا پہنچے تاکہ اپنی علمی پیاس بجھانے کا موقع مل سکے. مصنف نے اپنے کالج کے واقعات تفصیل سے نہیں لکھے بلکہ ایک دم جست لگا کر وہ ملازمت کے واقعات زیست تحریر کرنا شروع کر دیتے ہیں. کالج کی تلخ یادوں کے عنوان سے کچھ صفحات کے بعد صفحہ پچپن پرانھوں نے مختصر احوال لکھا ہے جو زمانی ترتیب کے اعتبار سے ان کے سفر ڈنمارک سے پہلے ہونا چاہیے تھا. شاید ان کو اشتباہ ہوا ہے یا پھر وقتِ اشاعت ابواب کی ترتیب میں کچھ غلطی ہوئی ہے کیوں کہ اس کے بعد ایک بار پھر سفر ڈنمارک براستہ سڑک کا حال شاملِ کتاب ہے. اگر یہ سب زمانی ترتیب کے اعتبار سے اور کچھ تفصیل سے قلم بند کیا جاتا تو زیادہ اثر انگیزی کا حامل ہوتا.
پاکستان میں مختلف ملازمتوں کے دوران مصنف پر کیا گزری، وہ سب بھی ان کی خودنوشت کا دلچسپ حصہ ہے. اس کے بعد پاسپورٹ کا حصول اور بذریعہ سڑک ڈنمارک کے سفر کا مختصر احوال ان کی آپ بیتی کا منفرد حصہ ہے جو شاید اور بھی زیادہ دلچسپ ہوتا اگر ان کی، دورانِ سفر لکھی ہوئی ڈائری چوری نہ ہوجاتی.
اس قدر طویل سفر کی بہت سی جداگانہ باتیں غالباً اسی وجہ سے احاطہ تحریر میں نہیں آ سکیں. ڈنمارک میں غمِ روزگار کی مصروفیات اور دیگر واقعات ان کی زندگی کے اس دور کی عکاسی کرتے ہیں جب وہ معاشی طور پر مستحکم ہونے کی تگ و دو میں مصروف تھے.
ڈنمارک سے برطانیہ ہجرت اور وہاں قانونی طور پر مقیم ہونے تک جو کچھ ان پر گزری، وہ بلا کم و کاست انھوں نے اپنی خودنوشت میں تحریر کی ہے.
جاوید اختر چودھری کا اسلوبِ تحریر سادہ، جاندار، اور ایجاز و اختصار کا حامل ہے. ان کی تحریر میں برجستگی و شگفتگی کی لہریں موجزن ہیں. تصنع یا بناوٹ اور تکلف کا شائبہ تک بھی محسوس نہیں ہوتا. آٹھ سال مختلف ممالک کی خاک چھاننے کے بعد جونہی انھیں برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم ہونے کی اجازت ملتی ہے، وہ پاسپورٹ کو دیکھے بغیر ہی والدین سے ملاقات کی خاطر پاکستان پہنچ جاتے ہیں اور پاکستان پہنچ کر انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا پاسپورٹ تو زائد المیعاد ہو چکا ہے. ادھر انگلستان میں ان کے بیوی بچے سماجی سہولیات سے ادھار لے کر گزر بسر کرتے ہیں.
ان کی خودنوشت کا ایک حصہ ہم عصر شعرا اور ادیبوں کے خاکوں پر مشتمل ہے. ان کی خاکہ نگاری یقیناً لاجواب ہے اگر وہ اس موضوع پر علیحدہ سے ایک مستقل کتاب تصنیف کریں تو اردو ادب میں ایک اور لافانی شاہکار کا اضافہ ہو جائے گا. ان کی خودنوشت میں کراچی، ایبٹ آباد اور لاہور کے اسفار کا خوبصورت تذکرہ بھی ہے. اس کے علاوہ کئی اور آراستہ و پیراستہ عبارات نے اس کتاب کی معنویت اور اہمیت کو دو چند کر دیا ہے البتہ چند ایک مقامات پر تکرارِ واقعات غیر مناسب سے محسوس ہوتے ہیں. بہر کیف مجموعی طور پر یہ ایک اعلی خودنوشت ہے جسے نہایت قرینے اور سلیقے سے شایع کیا گیا ہے.
امید ہے کہ ان کی خودنوشت کا دوسرا حصہ بھی نہایت دلچسپ ہوگا جو ان کے بقیہ حالات زیست کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات و محسوسات سے قارئین کو آگاہی فراہم کرے گا.
”تانبے کی زمین“، شفیق اختر حر کے منفرد کالموں کا دوسرا مجموعہ – محمد اکبر خان اکبر
کتاب چھپوانے کا سفر، ایک دلچسپ رُوداد – عاطف ملک
”سمندر گنگناتا ہے‘‘، ادبِ اطفال میں ایک منفرد اضافہ – محمد اکبر خان اکبر
تعلیم، تجارت اور خدمتِ ادب: کتاب فروش آن لائن بُک سٹور – حذیفہ محمد اسحٰق
”مشاہیرِ بلوچستان“، پروفیسر سید خورشید افروزؔ کی متاثر کن تحقیق – محمد اکبر خان اکبر
”حسنِ مصر“ سے آشنائی – محمد اکبر خان اکبر
سلمان باسط اور ”ناسٹیلجیا“ کا پہلا پڑاؤ – محمد اکبر خان اکبر
اُردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نویس، منشی پریم چند – آمنہ سعید
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعر اور ادیب، اکرم خاورؔ کی شاعری – آصف اکبر