بے شک یہ میری پہلی کتاب پہلا سفر نامہ ’’نکلے تیری تلاش میں‘‘ تھا جس نے میرے لیے بھی غیر متوقع طور پر‘ مجھے حیران اور بے یقین کرتے ہوئے میرے لیے ادب میں کامیابی کے سب دروازے کھول دیے۔ بیسٹ سیلر ہونے کے علاوہ جب آج سے تقریباً نصف صدی پیشتر یہ سفر نامہ ماسکو یونیورسٹی کی پروفیسر گالینا ڈشنکو نے یونیورسٹی کے اردو نصاب میں شامل کیا تو ادب کے وہ دروازے بھی کھل گئے جو کم کم ہی کھلتے تھے جن کی چوکھٹوں پر مجھ سے کہیں بڑھ کر باصلاحیت اور تخلیقی ادیب پڑے رہے اور یہ دروازے نہ کھلے۔ میری صلاحیت ابتدائی تھی اور تخلیقی جوہر معمولی تھا لیکن نصیب کے منہ زور گھوڑے نے میرا چنائو کر لیا۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ میں ایک عظیم ادیب وغیرہ نہیں ہوں ایک خوش نصیب ادیب ہوں ’’خانہ بدوش‘‘ کی بھی پذیرائی بہت ہوئی کہ اس میں بیروت کی خانہ جنگی کے قصے تھے اور دمشق کی گلیوں کی داستانیں تھیں۔ روم‘ وینس اور فلارنس ایسے شہروں کے تذکرے تھے لیکن جس سفر نامے نے مجھے شہرت کے علاوہ تعظیم دی‘ توقیر بخشی اور میری جان لیوا تاریخی تحقیق کی ستائش کی گئی وہ ’’اندلس میں اجنبی‘‘ تھا میں نے وہ سب کتابیں مخطوطے اور مسودات پڑھ ڈالے جن میں ہسپانیہ اور اندلس کا تفصیلی یا سرسری تذکرہ تھا مجھے نہیں معلوم کہ پنجاب پبلک لائبریری کے مجھ پر مہربان انچارج نذیر صاحب ابھی تک حیات ہیں یا نہیں اگر کہیں ہیں تو وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ کیسے میں نے اس لائبریری کا ذخیرہ کتب کھنگال ڈالا۔ کیسے اس کے زیریں حصے میں تہہ خانے میں ناکافی روشنی میں میں پہروں نایاب کتب اور تاریخی دستاویزات پر جھکا رہتا تھا اور نذیر صاحب لائبریری کے شیلفوں میں دھول جمع کرتی پرانی کتابیں تلاش کر کے میرے برابر میںڈھیر کرتے جاتے۔ ان میں سے بعض کے ورق بہت احتیاط سے اور سانس روک کر بھی پلٹتا تو وہ اتنے خستہ ہو چکے ہوتے کہ بُھرنے لگتے۔ دن کے وقت تلمیذ حقانی جو کہ اندلس کے عشق میں فنا تھے میری معاونت کرتے۔ میں نے بہت زمانے پنجاب پبلک لائبریری کے اس زیریں حصے میں بسر کیے۔ وہ کتابیں اور مخطوطے جو میرے زیر مطالعہ رہے ان میں سے بہت سے میں بھول چکا اور جو یاد ہیں ان کے تذکرے کے لیے کئی کالم درکار ہیں۔ مختصر یہ کہ مغرب کے جیمز مشنر کی ’’آئی بیریا‘‘ ہیمنگوے کی ’’ڈیتھ ان دے آفٹر نون‘‘ سٹینلے لین پُول کی ’’مورز ان سپینس‘‘ واشنگٹن ارونگ کی ’’ٹیلز آف الحمرا‘‘ وغیرہ میرے لیے بہت معاون ثابت ہوئیں اور کیا آپ جانتے ہیں کہ میرے دوست اور دل پسند مصنف شفیق الرحمن نے مجھے ’’ٹیلز آف الحمرا‘‘ کا قلمی تصویروں سے مزین ایک قدیم نسخہ تحفے میں عطا کیا تھا۔ اپنے دستخط کے ساتھ۔ ویسے تو انہوں نے مجھے اپنا بھورے رنگ کا گورکھا ہیٹ بھی دیا تھا اور میری فرمائش پر ہیٹ کی اندرونی سطح پر اپنے آٹو گراف بھی دیے تھے۔ بہرحال جب سلجوق کی یو این او میں ملازمت کے دوران شہر نیو یارک میں بہت آنا جانا ہوا تو میں خصوصی طور پر شہر سے کچھ دور دریائے ہڈسن کے کنارے واقع واشنگٹن ارونگ کی رہائش گاہ کی زیارت کرنے ٹیری ٹائون ناس قصبے میں خصوصی طور پر گیا۔ صرف اس لیے کہ اس امریکی کی وجہ سے غرناطہ کا قصر الحمرا گمنامی سے باہر آیا اور پوری دنیا پہلی بار اس کے وجود سے آشنا ہوئی۔ واشنگٹن ارونگ ایک سفارت کار بھی تھا اس کی تعیناتی اندلس کے شہر غرناطہ میں ہو گئی۔ اس نے کسی شاندار رہائش گاہ کی بجائے اجڑے ہوئے کھنڈر ہو چکے موروں کے تعمیر کردہ قصبہ الحمرا کی ایک کوٹھڑی میں رہنا پسند کیا۔ غرناطہ کے گورنر نے اسے ایک خبطی امریکی سمجھتے ہوئے اسے وہاں رہنے کی اجازت دے دی۔ تب غرناطہ کے باسی الحمرا کے کھنڈروں کی جانب نہ جاتے تھے۔ کیا جانتے وہاں اب تک مُوروں‘مسلمانوں کی روحیں منڈلاتی ہوں۔ الحمرا کے کھنڈروں میں اُلّو بولتے تھے اور راتوں کو عجیب سی عربی زبان کی سرگوشیاں سنائی دیتی تھیں۔ واشنگٹن ارونگ الحمرا کے اجڑے ہوئے قصرمیں چاندنی راتوں میں گھوما کرتا تھا۔ تن تنہا ایک مختصر سی کوٹھڑی میں رہائش رکھتا تھا اور یہ اس کا زرخیز تخیل تھا اور اندلس کے مورش عہد کے رومان کی سرمستی تھی کہ اسے راتوں میں الحمرا سے رخصت ہو جانے والے موروںکی آہیں سنائی دیتیں۔ کبھی عرب شہزادے چاندنی راتوں میں ’’شیروں کے صحن‘‘ میں چہل قدمی کرتے دکھائی دیتے۔ کبھی چہروں کو حجاب سے پوشیدہ کیے متناسب بدنوں والیاں مور شہزادیاں ’’جنت العارفین‘‘ کے فواروں میں بھیگتی نظر آتیں تو واشنگٹن ارونگ نے تخیل رومان اور تاریخ کی آمیزش سے ’’الحمرا کی کہانیاں‘‘ لکھیں جن کا اردو میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے اور پورا مغرب الحمرا کے سحر میں گرفتار ہو گیا۔ سیاحوں نے یلغار کر دی۔ اگر آج قصر الحمرا دنیا بھر کی تاریخی عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ نمایاں ہوتا ہے تو یہ صرف واشنگٹن ارونگ کی ’’ٹیلز آف الحمرا‘‘ کی اثر انگیزی کا کمال ہے۔ غرناطہ اور الحمرا میں جو دن گزرے۔ ان میں ایک دن ایسا تھا کہ میں اس مختصر کمرے میں داخل ہوا جس کے باہر ایک تختی آویزاں تھی’’واشنگٹن ارونگ‘‘ اس کوٹھڑی میں قیام پذیر ہوا۔ اس کمرے یا کوٹھڑی میں کچھ بھی نہ تھا خالی پڑی تھی اور مجھے ہول آیا کہ واشنگٹن کیا خبطی شخص تھا جو یہاں آباد ہوا۔ اگرچہ خبط کی مجھ میں بھی چنداں کمی نہ تھی کہ بعدازاں میں نے بھی الحمرا کے ایک ویران چمگادڑوں کے بسیرے برج میں کچھ رات بسر کی تھی غرناطہ سے چلتے ہیں۔ دریائے ہڈسن کے کنارے اس خبطی واشنگٹن ارونگ کی قدیم رہائش گاہ میں پہنچتے ہیں۔ برآمدے میں دریائے ہڈسن کے روبرو ایک آرام کرسی ہے جس پر واشنگٹن بیٹھا کرتا تھا تو میں بھی اسی کرسی پر کچھ دیر بیٹھا اور ہڈسن کے نظارے کرتا رہا۔ بعدازاں میں سرشام ٹیری ٹائون کے عجب ہولناک قبرستان میں گیا جہاں کئی راک فیلر اور الزبتھ آرڈن دفن تھی۔ بہت مشکل سے قبرستان میں بھٹکتے ہوئے میں واشنگٹن ارونگ کی قبر تک پہنچا۔ اس کی مغفرت کی دعا کی کہ اے اللہ یہ وہ شخص ہے جس نے ’’ٹیلز آف الحمرا‘‘ لکھ کر الحمرا کے کھنڈروں کو آباد کر دیا۔ جس قصر کو تیرے چاہنے والوں نے تعمیر کیا اس کی کہانیاں لکھیں تو اس کافر امریکی کا کچھ خیال رکھنا۔ اندلس کے بارے میں تحقیق اور تاریخ کے ڈھیر لگ گئے ۔ ایک ہزار سے زائد اورق پر میری عرق ریزی کے گیلے نقش ثبت تھے تو مجھے تب یہ خیال آیا کہ اگر میں انہیں اپنے سفر نامہ اندلس میں مدغم کروں گا تو کچھ چرچا نہ ہو گا کہ لوگ آج تو سفر نامے کی صنف کو نہ ادب میں شمار کرتے ہیں اور نہ ہی سنجیدگی سے لیتے ہیں تو کیوں نہ ان تحقیقی نوٹس پر مبنی اندلس کی تاریخ پر ایک مسبوط بیانیہ تحریر کر دوں۔ بہت دن اسی شش و پنج میں مبتلا رہا اور پھر اپنے آپ سے مخاطب ہو کر اقرار کیا کہ اے حضرت تاریخ اور تحقیق قلمبند کرنے والے نہایت سرد مزاج اور کھٹور دل ہوتے ہیں کچھ لحاظ نہیں کرتے کہ ان کے تحقیقی قلم کے سامنے کس کا سر آتا ہے جبکہ اے حضرت آپ قدرے جذباتی اور آوارہ مزاج ہیں ۔ایک جانے والوں میں سے ہیں تو بہتر یہی ہے کہ اس تحقیق کو سفر نامے کے روپ میں ہی تحریر کر جائیں۔ ’’اندلس میں اجنبی‘‘ کو اس کی اشاعت کے برس یونیسکو کی جانب سے پاکستان میں شائع ہونے والی سب سے اہم اور پسندیدہ کتاب قرار دیا گیا۔ آئندہ زمانوں میں بہت اور بے شمار لوگ اس سفر نامے کے سحر میں گرفتار اندلس گئے اور میری نشانیاں ڈھونڈتے پھرے۔ بلکہ دو برس پیشتر میری بیگم میمونہ ایک انٹرنیشنل وومن گروپ کے ہمراہ ہسپانیہ گئیں تو اس گروپ میں شامل کم ازکم چار خواتین ایسی تھیں جو ہمہ وقت ’’اندلس میں اجنبی‘‘ کی ورق گردانی کرتے ہوئے دیگر خواتین کو آگاہ کرتی تھیں کہ دیکھو تارڑ نے مسجد قرطبہ کے ستونوں کے بارے میں کیا لکھا ہے الحمرا کے قصر کو بارش میں بھیگ کر اپنے رنگ بدلتے کیسے دیکھا ہے اور وہ خواتین آگاہ نہ تھیں کہ یہ جو سفید بالوں والی عورت ہے اسی تارڑ کی منکوحہ ہے تو ان میں سے ایک نے پوچھا میمونہ‘ کیا آپ نے اس تارڑ کی ’’اندلس میں اجنبی‘‘ پڑھی ہے تو میمونہ بیگم نے ناک چڑھا کر کہا تھا۔ میرا خاوند ہے اور اس نے زبردستی مجھے یہ پوری کتاب پڑھ کر سنائی تھی۔ یہاں تک کہ میرے کانوں کے پردوں کے پانی سوکھ گئے اور میں قدرے بہری ہو گئی۔
(92 نیوز)