ہے ہماری یہ وادی، نام جس کا ہے سکھر – شمائل تُرک

کھجوروں کے فرش بچھے ہوئے ہیں
محنت کشوں کی محنت سے سجے ہوئے ہیں

شاہراہِ قدیمی

پہاڑوں کے دامن میں بسی بستی کا سفر
ہے ہماری یہ وادی، نام جس کا ہے سکھر

پہاڑوں کے دامن میں بسی ایک سادہ اور قدیمی اقوام کی بستی جو وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ کئی روپ اپناتی، کروٹیں بدلتی ہوئی تہذیبوں کو اپنائے
آج ایک شہر کے روپ میں دریائے سندھ کے کنارے آباد ہوا شہر سکھر (سقر). دلچسپ بات کہ سکھر کو یہ نام اس کے وارثوں نے نہیں بلکہ دینِ اسلام کے فروغ کی غرض سے یہاں آنے والےعرب قافلوں نے عطا کیا. بوجہ شدت درجہ حرارت عربوں نے اس زمیں کو ”سقر‘‘ کے لقب سے پکارا جس کے معنی موسم کی شدت کے ہیں، اب چاہے وہ گرم ہو کہ سرد، اسی سقر لفظ کو علاقائی بولی اور لہجوں نے تبدیل کر کے ”سکھر‘‘ بنا دیا.
سکھر شہر کئی زبانوں کا مرکز ہے جہاں اول تو سندھی زبان اور دوئم خاص کر اُردو کا راج ہے. ثقافتی طور سے دیکھا جائے تو سندھی ثقافت کے کئی حسین رنگ یہاں نکھرے ملیں گے اور اُردو کی دور بین سے دیکھا جائے تو سکھر میں ایک الگ ہی منفرد روپ دکھائی دیتا ہے. کبھی یہاں کے لذیز پکوان کی صورت تو کبھی علم و معرفت اور رواج و انداز… الغرض یہاں ہر زبان کے لوگ آباد ہیں جو بِنا تعصب کے، محبت اور احترام کے ساتھ اپنی اپنی آبائی روایات کی خوبصورتی کو اپنائے اس شہر میں آباد ہیں. ان سب کے باہمی معاشرتی تعلقات اس شہر کو الگ ہی حسن بخشتے ہیں.

یہاں کی آب و ہوا سے چاہے آپ کو ہزار شکایتیں ہوں مگر سکھر شہر کے میزبانوں کے مہمان بن کر کبھی آپ کو مایوسی نہیں ہوگی. سکھر اپنے آنے والے مہمانوں کو یہاں کی سوغات سے بِنا نوازے رخصت نہیں کیا کرتا.
”شہر کی شاہراہ پر سفر کر کے جب ہم دریا کو پار کرتے ہیں
سنگم ہے صدیوں سے رابطوں کا، گر ہم تاریخ پر نظر کرتے ہیں‘‘

صدیوں پہلے یہاں دریا صنعت و تجارت کی درآمدات و بر آمدات کا مصر تک کا مرکز رہا ہے. کشتی سازی کا اہم مرکز دریائے سندھ کا کنارہ جہاں دیدہ ذیب رنگوں سے سجی کشتیاں یوں دریا میں تیرتی دکھائی دیتی ہیں جیسے رنگین ملبوسات میں تیرتی ہوئی پریاں!

دریائے سندھ جو دریاؤں کا بادشاہ کہلاتا ہے، اپنے سینے پر آہنی تاج سجائے کسی عظیم ریاست کا گماں ظاہر ہوتا ہے. کہیں جزیرہء بیلا اپنے حسن کے ساتھ پانی کی سطح پر کسی محل سا جو اپنی ہی شاندار تاریخ رکھتا ہے تو دوسری طرف 7 سہیلیوں کی داستان جو ان کی پاک بازی کی تا قیامت رہنے والی ایک عظیم الشان داستان، وہ سات سہیلیاں جو باپردہ اور دین دار گذری اپنی عصمتوں کو بچانے کے لیے دریا کے کنارے بلند پہاڑی پر چڑھ جب اللہ کو پکارتی ہیں تو…
رب العزت اپنے جلال کے ذریعے اس پہاڑ کو چاک کرکے اس پہاڑی کو ہی آغوش بنا کر ان پیاری شہزادیوں کو میٹھی نیند سلا دیتا ہے. اللہ اکبر کبیرا
”آج بھی فضاؤں میں گونجتی ہے سات سہیلیوں کی پاک بازی
ان کے اعلٰی کردار کو اِکرام دیتی دریا کی چوٹی‘‘

سکھر صرف اپنے موسموں کی شدت سے ہی نہیں جانا جاتا، اپنی تاریخی عمارات کی خوب صورتی اور بناوٹ سے اور گورنرِ وقت نظام الدین میر معصوم شاہ کے ذوق کو بھی ظاہر کرتا ہے. میر معصوم شاہ کا مینار ایک تاریخی مینار ہے جو اپنی بناوٹ کے اعتبار سے پورے سکھر شہر سے دکھائی دینے والا نظارہ ہے.

شہر کے قریب محبوب گوٹھ میں واقع صحابہ کرامؓ کی قبور مبارکہ بھی دریافت ہوئیں. ان تین صحابہ کرامؓ میں حضرت عمر و بن عبسہ ؓ جو کہ امیر جماعت تھے، دوسرے صحابی حضرت معاذ بن جہنی ؓ اور حضرت عمر بن اخطب ؓ شامل ہیں. ان صحابہ کرامؓ کے مزارات پر وہ نور اور سرور برستا ہے کہ انسان کا وہاں سے واپس آنے کو جی نہیں چاہتا.

سکھر میں اس کے علاوہ کئی برگزیدہ اولیاء کے بھی جا بجا مزارات، آبادی اور رہائشی علاقوں کے درمیان موجود ہیں، جن میں سب سے مشہور مزار نو گزا پیر کا ہے جن کا قد 9 گز تھا اور انھیں قدیم قوم کا باشندہ بتایا جاتا ہے. الغرض اس شہر میں ہر موڑ پر آپ کو مشاہدے اور مطالعے کے لیے ایک نئی ہی داستان ملے گی.

اپنا تبصرہ بھیجیں