ڈاکٹر اکرم خاور ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں. ان کی علمی ادبی اور تحقیقی کتابوں کی فہرست دیکھی جائے تو یقین کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ ایک شخص اس قدر مختلف النوع شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں اتنی اعلیٰ کتابیں آخر کیسے تصنیف کر سکتا ہے؟ ان کی طب، تحقیق، فکشن اور شاعری کی کتابیں دیکھ کر یہ استعجاب مزید گہرا ہو جاتا ہے. مولانا حالی اپنی مشہور کتاب ”مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ:
”شاعری اکتساب سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ جس میں شاعری کا مادہ ہوتا ہے وہی شاعر بنتا ہے. شاعری کی سب سے پہلی علامت موزونی طبع سمجھی جاتی ہے.‘‘
ڈاکٹر اکرم خاور بنیادی طور پر ایسے شاعر ہیں جو اظہارِ ذات کے لیے شاعری کو بطور واحد وسیلہ نہیں اپناتے بلکہ جہاں اور جس طرح سہولت میسر آجائے اپنے خیالات، جذبات و احساسات کو قاری کے سامنے پیش کر دیتے ہیں. چاہے وہ نثر کی صورت میں ہو یا پھر اشعار کے جامے میں. ان کے حال ہی میں منظر عام پر آنے والا مجموعہ کلام ”دریچہ‘‘، غزلیات اور نظموں کا دل آویز مرقع ہے. ان کی یہ کتاب 78 غزلوں اور 29 نظموں پر مشتمل ہے.
ڈاکٹر اکرم خاور کے ہاں مضامین و خیالات کا بڑا تنوع دکھائی دیتا ہے. کہیں رنج و غم سے لبریز اشعار ہیں تو کہیں شادمانی اور فرحت کا گہرا اظہار کہیں ناامیدی و یاسیت ہے تو کہیں اچھے وقت کی تمنا.
تیر نظروں کے چلائے ہیں جدا
دل میں جو بھالا اتارا اور ہے
اب ذرا امید کا عکس بھی دیکھیے:
اور کچھ لمحے میں رستہ دیکھ لوں
کہکشاں میں ایک تارا اور ہے.
ان کی شاعری میں یاسیت کا انداز بھی توجہ کے لائق ہے:
جانے کب ہوگی برسات خاور
دل کی دھڑکن رکی جا رہی ہے
ایک اور مقام پر مزید کہتے ہیں:
اب زندگی میں صبر اور ہمت نہیں رہے
برداشت کر رہا ہوں یہ دن رات آج کل
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی شاعری غمِ جاناں سے عبارت ہے. البتہ وہ اس غم کے حصار سے باہر امید کا دامن تھامے، آرزو کے چراغ جلائے بھی دکھائی دیتے ہیں:
مسرت کوئی بھی آتی نہیں ہے اپنے حصے میں
تمنا دل میں لے کر بارہا گھر سے نکلتے ہیں
ڈاکٹر اکرم خاور اپنے احساسات و خیالات کے ابلاغ کے لیے جب اشعار کا سہارا لیتے ہیں تو ان کا جوہر سخن سرائی و سخن دانی اور زیادہ نکھر کر سامنے آتا ہے. ایک مقام پر کہتے ہیں:
جانے جینے کا ڈھنگ کب آتا
تو نے جینے کی راہ بتلائی
آپ کی شاعری میں فطرت کے بے شمار رنگ بکھرے پڑے ہیں. قدرتی نظاروں کی منظر کشی پر انہیں خوب ملکہ حاصل ہے:
میں کھڑا ہوں ندی کے کنارے
بھیگی بھیگی ہوا کے سہارے
میری آنکھوں میں بینائی کم ہے
اور وادی کے دلکش نظارے
ڈاکٹر صاحب فطرت کے حسین رنگوں کو جب اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں تو ان کے فنی رسوخ کے مزید زاویے نگاہوں کے سامنے آ جاتے ہیں اور ایک ایک شعر ان کی سخن سازی کا گواہ بنتا چلا جاتا ہے، جیسے کہ:
محبت ہے مجھے فطرت کے رنگین ابر پاروں سے
یا پھر دھرتی کے ان محنت کشوں سے کوہساروں سے
کبھی گلشن کبھی صحرا کبھی جنگل سے گزروں میں
مگر دل شاد ہوتا ہے فقط برکھا بہاروں سے
انہوں نے داخلی و خارجی کیفیات کو شعری گرفت میں لے کر نہایت عمدگی سے اشعار کی صورت دی ہے. ان کی شاعری میں رجائیت، رمز شناسی، شگفتگی اور رعنائی خیال کا پر اثر رنگ نظر آتا ہے.
اکرم خاور کے پہلے مجموعہ کلام کی اشاعت، بلوچستان کے شعری منظر نامے پر ایک خوبصورت اضافہ ہے. آپ کا شعری اسلوب لطیف پیرایہ اظہار کی صورت جلوہ نما ہوتا ہے اور ماحول کو سحر انگیز کرتا چلا جاتا ہے. ڈاکٹر اکرم خاور کو پہلے مجموعہ کلام پر مبارکباد دینے کے ساتھ اس امر کی توقع بھی رکھتا ہوں کہ ان کے شعری محاسن مزید مجموعہ ہائے کلام کی شکل میں ہمارے سامنے آتے رہیں گے.