ڈاکٹر اکرم خاورؔ کی شاعری ایک ایسے باغ کی مانند ہے جہاں کلاسیکی رچاؤ کے مختلف النوع پھول کھلے ہیں جن کی خوشبو ہر طرف بسی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے تین شعری مجموعے ”دریچہ‘‘، ”دھندلی شام‘‘ اور ”بام و در کا سناٹا‘‘ میں جس گہرے ادبی ذوق اور فکری گیرائی و گہرائی کا اظہار ہوا تھا، وہی کیفیت اب ان کے نئے مجموعہ ”لمس‘‘ میں بھی جلوہ نما ہے۔ اس مجموعے میں غزل، نظم اور دوہے کی ہئیت میں اشعار پیش کیے گئے ہیں. یہ سخنوری ایک ایسے شاعر کے دل کی دھڑکنوں کی صدا ہے جو روایت سے مکالمہ کرتے ہوئے بھی اپنی منفرد شناخت قائم رکھتا ہے۔ ان کی غزلوں میں گہرا جذباتی اور فکری عنصر پایا جاتا ہے۔ اشعار میں ہجر کی تلخی، وصال کی شیرینی اور زندگی کی قنوطیت و رجائیت ایک ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ مثلاً ”دل سے تمام واہمے نکلے نہیں ابھی‘‘ جیسے اشعار میں محبت کی ناکامی اور امید کے الجھے ہوئے دھاگے صاف محسوس ہوتے ہیں. وہیں ”وہ اج پھر اسی انکار پر بضد ٹھہرا‘‘ جیسے مصرعے میں عشق کی سچائی اور اس کے کرشموں کی داستان بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں محبت صرف ایک جذبہ ہی نہیں، بلکہ ایک فلسفہ ہے جسے وہ سرعام سجانے اور دنیا کو بتانے پر یقین رکھتے ہیں۔ نظموں میں ڈاکٹر اکرم خاورؔ کا لہجہ زیادہ مترنم اور موسیقیت و غنائیت سے بھرپور ہو جاتا ہے۔ ”وہ ٹھنڈی گنگناتی شام‘‘ جیسی نظمیں وقت کے گزر جانے کے بعد بھی یادوں کے زندہ رہنے کی داستان سناتی ہیں۔ ان کے ہاں سادگی اور گہرائی کا معنی خیز امتزاج ملتا ہے، جیسے ”مجھے دل ربا نہ کہنا‘‘ میں ایک سیدھی سی خواہش کو بڑی شاعرانہ نفاست کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
دوہے ان کے کلام کا ایک اور روشن پہلو ہیں، جہاں وہ شاعری کی روایت کو آگے بڑھاتے معلوم ہوتے ہیں۔ ”دھیرے دھیرے پریم کی اگنی من کو جلاتی جائے‘‘ جیسے اشعار میں محبت کی تپش اور اس کی بے زبانی کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کے دوہے صرف روایتی انداز تک محدود نہیں، بلکہ جدید حسیت سے بھرپور ہیں۔
ڈاکٹر اکرم خاورؔ کی شاعری میں جمال پسندی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔ وہ الفاظ کے ذریعے منظر کشی کرتے ہیں اور قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ ان کے ہاں اداسی اور امید، درد اور خوشی، ہجر اور وصال سبھی ایک دوسرے سے اس طرح باہم مدغم ہو جاتے ہیں کہ زندگی کی مکمل تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ ”لمس‘‘ کا ہر شعر ایک الگ جہاں آباد کرتا ہے، جہاں شاعر کا قلم جذبوں کو الفاظ کا روپ دے کر ہمارے سامنے آتا ہے ۔ مجھے امید ہے کہ یہ کتاب ان کے سفرِ شعر و سخن میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی اور ادب کے شائقین کے دلوں کو چھو لے گی۔
