شیر شاہ سوری کا تعمیر کردہ قلعہ روہتاس جو پوٹھوہار اور کوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیا گیا۔ اس کے ایک طرف نالہ کس، دوسری طرف نالہ گھان اور تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے۔ شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لئے تعمیر کرایا تھا۔ دراصل گکھڑ مغلوں کو کمک اور بروقت امداد دیتے تھے، جو شیر شاہ سوری کو کسی طور گوارا نہیں تھا۔ جب یہ قلعہ کسی حد تک مکمل ہوگیا تو شیر شاہ سوری نے کہا کہ آج میں نے گکھڑوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ اس قلعے کے عین سامنے شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی جرنیلی سڑک گزرتی تھی، (جو وقت کے ساتھ ساتھ یہاں سے پانچ کلومیٹر دور ہٹ چکی ہے.)
دوسرے قلعوں سے ہٹ کر قلعہ روہتاس کی تعمیر چھوٹی اینٹ کی بجائے دیو ہیکل پتھروں سے کی گئی ہے۔ ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس قلعے کی تعمیر میں عام مزدروں کے علاوہ بے شمار بزرگانِ دین نے بھی اپنی جسمانی اور روحانی قوتوں سمیت حصہ لیا۔ ان روایات کو اس امر سے تقویت ملتی ہے کہ قلعے کے ہر دروازے کے ساتھ کسی نہ کسی بزرگ کا مقبرہ موجود ہے، جب کہ قلعہ کے اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور روایت ہے کہ یہاں قلعے کی تعمیر سے پہلے ایک بہت بڑا جنگل تھا۔ شیر شاہ سوری کا جب یہاں گزر ہوا تو یہاں پر رہنے والے ایک فقیر نے شیر شاہ سوری کو یہاں قلعہ تعمیر کرنے کی ہدایت دی۔
ایک روایت کے مطابق ٹوڈرمل نے اس قلعے کی تعمیر شروع ہونے والے دن مزدروں کو فی سلیب (پتھر) ایک سرخ اشرفی بطور معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ گو قلعہ کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات کا درست اندازا نہیں لگایا جاسکتا تاہم ایک روایت کے مطابق اس پر 34 لاکھ 25 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ واقعات جہانگیری کے مطابق یہ اخراجات ایک پتھر پر کندہ کئے گئے تھے، جو ایک زمانے میں قلعے کی کسی دروازے پر نصب تھا۔ قلعے کی تعمیر میں 3 لاکھ مزدوروں نے بیک وقت حصہ لیا اور یہ 4 سال، 7 ماہ اور 21 دن میں مکمل ہوا۔
یہ قلعہ چار سو ایکٹر پر محیط ہے، جب کہ بعض کتابوں میں اس کا قطر 4 کلومیٹر بیان کیا گیا ہے۔ قلعے کی فصیل کو ان چٹانوں کی مدد سے ترتیب و تشکیل دینے کی کوشش کی گئی جن پر یہ تعمیر کیا گیا۔
قلعہ اندرونی طور پر دو حصوں میں تقسیم تھا، جس کے لیے ایک 1750 فٹ طویل دیوار تعمیر کی گئی، جو قلعے کے دفاعی حصے کو عام حصے سے جدا کرتی تھی۔ یہ ان قدیم روایتوں کا تسلسل تھا، جن کے تحت فوجوں کی رہائش شہروں سے علیحدہ رکھی جاتی تھی۔ قلعے کے جنگی حصے کی وسعت کا اندازا اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ عہد شیر شاہ میں توپ خانے کے علاوہ 40 ہزار پیدل اور 30 ہزار سوار فوج مع ساز و سامان یہاں قیام کرتی تھی۔ قلعے میں 86 بڑے بڑے برج یا ٹاور تعمیر کیے گئے۔ پانی کی فراہمی میں خود کفالت کے لیے تین باؤلیاں (سیڑھیوں والے کنویں) بنائی گئیں تھیں، ان میں سے ایک فوجی حصے میں اور باقی دونوں پانی کی پانچ ذخیرہ گاہوں سمیت قلعے کے دوسرے حصے میں واقع تھیں۔
قلعے کے بارہ دروازے ہیں، جن کی تعمیر جنگی حکمت علمی کو مدنظر رکھ کر کی گئی تھی۔ یہ دروازے فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ ان دروازوں میں
1۔ ہزار خوانی دروازہ،
2۔ خواص خوانی دروازہ،
3۔ موری دروازہ،
4۔ شاہ چانن والی دروازہ،
5۔ طلاقی دروازہ،
6۔ شیشی دروازہ،
7۔ لنگرخوانی دروازہ،
8۔ کابلی (یا بادشاہی) دروازہ،
9۔ گٹیالی دروازہ،
10۔سوہل (یا سہیل) دروازہ،
11۔ پیپل والا دروازہ اور
12۔ گڑھے والا دروازہ
شامل ہیں۔
قلعے کے مختلف حصوں میں اس کے دروازوں کو بے حد اہمیت حاصل تھی اور ہر دروازے کا اپنا مقصد تھا اور اس کی خاص وجہ تسمیہ بھی تھی۔ ہزار خوانی صدر دروازہ تھا۔ طلاقی دروازے سے شیر شاہ کے دور میں ہاتھی داخل ہوتے تھے۔ طلاقی دروازے کو منحوس دروازہ سمجھا جاتا تھا۔ شیشی دروازے کو شیشوں اور چمکتی ٹائلوں (چمکتے چوکوں) سے تیار کیا گیا تھا۔ لنگرخوانی لنگر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ کابلی دروازے کا رخ چونکہ کابل کی طرف تھا اس لیے اس کو کابلی دروازہ کہا جاتا تھا۔ سوہل دروازہ زحل کی وجہ سے سوہل کہلایا۔ جب کہ اس کو سہیل دروازہ بھی کہا جاتا تھا کیوں کہ حضرت سہیل غازی کا مزار یہیں واقع تھا۔ گٹیالی دروازے کا رخ چوں کہ گٹیال پتن کی طرف تھا اس لیے اسے یہ نام دیا گیا۔ اس طرح مختلف دروازوں کے مقاصد مختلف تھے اور ان کو مختلف کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ بارہ دروازوں میں سے ایک یعنی لنگرخوانی دروازہ براہ راست جنگی علاقے میں کھلتا تھا اور یہ دشمن کی فوجوں کے لیے ایک طرح کا جال تھا۔ اس دروازے سے گزر کر اندر آنے والا شخص فصیل کی برجیوں پر مامور محافظوں کے براہ راست نشانے پر آ جاتا تھا۔ اسی طرح خواص خوانی دروازہ دہرا بنایا گیا تھا۔ مغربی سمت ایک چھوٹی سی ’’ریاست‘‘ علیحدہ بنائی گئی تھی، جو چاروں جانب سے دفاعی حصار میں تھی۔ اس کے اندر جانے کا صرف ایک دروازہ تھا۔ اس چھوٹی سی ریاست کے بلند ترین مقام پر راجا مان سنگھ کی حویلی تھی، جو مغل شہنشاہ اکبر اعظم کا سسر اور اس کی فوج کا جرنیل تھا۔
فصیل:
قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید، عالی شان اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے۔ اس پر 68 برج، 184 برجیاں، 6881 کنگرے اور 8556 سیڑھیاں ہیں، جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ اس کے برج صرف فصیل کی خوب صورتی ہی میں اضافہ نہیں کرتے بلکہ یہ قلعے کے مضبوط ترین دفاعی حصار میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فصیل کی چوڑائی سب سے زیادہ ہے۔ فصیل کے چبوترے سیڑھیوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے۔ فصیل تین منزلوں میں دو یا سہ قطاری تعمیر کی گئی تھی۔ سب سے بلند ترین حصہ کنگروں کی صورت میں تعمیر کیا گیا۔ چبوتروں کی چوڑائی تین فٹ سے زیادہ ہے اور یہ تیر اندازوں اور توپچیوں کے لیے استعمال کئے جاتے تھے۔ ان کی بلندی مختلف تھی، جو 8 فٹ سے 11 فٹ کے درمیان تھی۔ یہ کنگرے صرف شاہی فوجوں کو دشمن سے تحفظ ہی فراہم نہیں کرتے تھے بلکہ ان سے دشمنوں پر پگھلا ہوا سیسہ اور کھولتا ہوا پانی بھی انڈیلا جاتا تھا۔ درمیانی چبوترے درحقیقت فوجیوں کے کھڑے ہونے کی جگہ تھے اور ان کی چوڑائی ساڑھے چار فٹ سے 7 فٹ کے درمیان تھی، جب کہ چبوتروں کی آخری قطار کی چوڑائی ساڑھے چھ فٹ سے ساڑھے آٹھ فٹ کے درمیان تھی۔
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اتنے بڑے قلعے میں محض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں۔ قلعے کی عمارتوں میں سے ایک عمارت کو شاہی مسجد کہا جاتا ہے اور چند باؤلیاں بھی بنائی گئی تھیں۔ بعد ازاں ایک حویلی تعمیر کی گئی، جسے راجا مان سنگھ نے بنوایا تھا۔ محلات کے نہ ہونے کے باعث مغل شہنشاہ اس قلعے میں آ کر خیموں میں رہا کرتے تھے۔ یہ قلعہ صرف دفاعی حکمت علمی کے تحت بنایا گیا تھا، اس لیے شیر شاہ سوری کے بعد بھی بر سر اقتدار آنے والوں نے اپنے ٹھہرنے کے لیے یہاں کسی پر تعیش رہائش گاہ کا اہتمام نہیں کیا۔
شاہی مسجد:
شاہی مسجد چھوٹی لیکن خوب صورت مسجد ہے۔ یہ مسجد کابلی دروازے کے نزدیک واقع ہے اور اسی وجہ سے کابلی دروازے کو بادشاہی دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد صرف ایک کمرے اور صحن پر مشتمل ہے۔ مسجد کا مرکزی ہال 63 فٹ طویل اور 24 فٹ چوڑا ہے۔ اسے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مرکزی ہال کی اندرونی چھت مسطح ہے، البتہ اوپر گنبد بنے ہوئے ہیں، لیکن اس کے باہر کوئی مینار یا گنبد نہیں۔ بیرونی دفاعی دیوار اس کی پشت پر واقع ہے۔ یہ مسجد سوری عہد کی چند انمول اور قابل دید تعمیرات میں سے ایک ہے۔
حویلی مان سنگھ:
حویلی مان سنگھ مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے وفادار جرنیل راجہ مان سنگھ کے نام سے موسوم ہے ، جس کا انتقال 1614ء میں ہوا۔ یہ محل قلعہ روہتاس کی سب سے بلند ترین چٹان پر تعمیر ہوا اور اس کا طرز تعمیر کافی حد تک عربی، ایرانی اور افغانی کے بجائے ہندوانہ تھا۔ 25 بیگھا زمین پر سطح سمندر سے 2260 فٹ کی بلندی پر تعمیر ہونے والا یہ محل سفید رنگ کا تھا۔ اکبر اعظم نے اس گنبد نما محل کو مزید خوب صورتی بخشنے کے لیے اس کے اردگرد مزید عمارات بھی تعمیر کرائی تھیں۔ اس کی چھتوں، دروازوں اور جھروکوں وغیرہ میں آج تک نفیس نقش و نگار اور پچی کاری موجود ہے۔
رانی محل:
رانی محل حویلی مان سنگھ سے تین سو گز کے فاصلے پر شمال کی جانب موجود ہے۔ اس میں راجا مان سنگھ کی بیوہ بہن شریمتی روپ کماری رہتی تھی۔ یہ محل چوں کہ اپنا اصل رنگ و روپ کھو چکا ہے اس لیے لوگ اب اسے کالا محل کہتے ہیں۔ اسے بھربھرے پتھر سے ایک مینار کی صورت میں بنایا گیا تھا، جس کی بلندی 80 فٹ ہے۔ اس محل کی مغربی جانب ایک کھلا پلیٹ فارم (چبوترا) ہے جو درحقیقت زیر زمین کمرے کی چھت ہے۔ محل میں پہرے داروں کے کمرے اور دونوں محلوں کا ملانے کے لیے راستہ بنایا گیا تھا۔
بڑی باؤلی اور ست باؤلی نامی دونوں کنوؤں سے قلعہ کے مکین اپنی ضرورت کے لیے پانی حاصل کیا کرتے تھے۔
بڑی باؤلی میں آج بھی پانی موجود ہے، تاہم اب اسے استعمال نہیں کیا جاتا۔ موری گیٹ (دروازہ) کے قریب واقع یہ باؤلی 270 فٹ گہری ہے اور اس میں اترنے کے لیے 300 سیڑھیاں بنائی گئی تھیں، جو آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ اس کی چار محرابیں ہیں، جو 40 فٹ چوڑی ہیں۔ ہر دس پندرہ سیڑھیوں کے بعد ایک وسیع سیڑھی چوڑائی میں بنی ہوئی ہے، تاکہ پانی لانے والے آرام کر سکیں۔
ست باؤلی کابلی گیٹ (دروازہ) کے پاس شاہی مسجد کے عقبی حصے میں بنا ہوا شاہی حمام ہے۔ سطح زمین سے 60 سیڑھیاں نیچے اترنے پر سات چھوٹے چھوٹے غسل خانے اور ان کے درمیان میں ایک کنواں بنایا گیا ہے۔ غالباً انہی سات غسل خانوں کی وجہ سے اسے ست باؤلی کہا جاتا ہے۔ حمام کے ایک طرف کے حصے میں اونچی جگہ سے پانی رس رس کر حمام کے اندر داخل ہوتا رہتا ہے، مگر اب یہ جگہ ویران ہے۔
قلعے کے جنوبی حصے میں شہر کے لیے پانی جمع کرنے کی غرض سے ایک شاہی تالاب بھی بنایا گیا تھا، جس کے وسط میں مرکزی چٹان پر عیدگاہ تعمیر کی گئی تھی۔ عہد سوری میں لوگ عیدگاہ تک جانے کے لیے کشتیاں استعمال کرتے تھے۔ عید گاہ تک پہنچنے کے لیے ایک خفیہ راستہ بھی موجود تھا، جو سکھوں کے عہد میں کھول دیا گیا اور لوگ سوہل دروازے کے راستے عیدگاہ تک جانے لگے۔
لنگرخانہ تکیہ خیر النساء:
لنگرخانہ تکیہ خیر النساء قلعہ کی حدود سے باہر شمال کی جانب بنی ہوئی ایک چھوٹی سی عمارت ہے۔ یہ درحقیقت خیر النساء کا مقبرہ ہے، جو شیر شاہ سوری کے وزیر خوراک کی بیٹی تھی۔ خیر النساء اپنے وقت کی شہرت یافتہ بہادر فوجی عورت تھی۔ اس نے شیر شاہ سوری کے ہمراہ چونسہ اور قنوج کی لڑائیوں میں حصہ بھی لیا تھا۔
پھانسی گھاٹ:
قلعے کا پھانسی گھاٹ سفید محل سے دو سو فٹ کے فاصلے پر جنوب مغربی سمت میں نہایت بلندی پر ایک چار منزلہ عمارت میں واقع ہے۔ اس عمارت کی چھت کے وسط میں اڑھائی فٹ قطر کا ایک سوراخ ہے۔ اس کے اردگرد بانسوں کو قائم رکھنے کے لیے انہیں باندھنے کی جگہیں تھیں۔ پھانسی خانے کا سوراخ گول ہے، جس پر تختہ دار رکھا جاتا تھا اور بانسوں کے ذریعے مجرم کی گردن میں رسوں کے حلقے ڈالے جاتے تھے۔ جب تختہ کھینچا جاتا تو مجرم سوراخ سے نیچے لٹک جاتا۔ جب اس کا سانس رک جاتا تو رسے ڈھیلے کر دیئے جاتے تھے، جس سے لاش زمین پر جا پہنچتی اور ورثاء دروازے کے راستے اسے اٹھا کر لے جاتے۔
قلعہ روہتاس دیکھنے والوں کو ایک بے ترتیب سا تعمیری ڈھانچا نظر آتا ہے حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ شیر شاہ سوری نے اسے تعمیر کرتے ہوئے نقش نگاری اور خوب صورتی کے تصور کو فراموش نہیں کیا تھا۔ قلعے کے دروازے اور بادشاہی مسجد میں کی جانے والی میناکاری اس کا واضح ثبوت ہے۔ ہندوانہ طرز تعمیر کی پہچان قوسین قلعے میں جابجا دکھائی دیتی ہیں، جن کی بہترین مثال سوہل گیٹ (دروازہ) ہے۔ اسی طرح بھربھرے پتھر اور سنگ مرمر کی سلوں پر کندہ مختلف مذہبی عبارات والے کتبے خطاطی کے نادر نمونوں میں شمار ہوتے ہیں، جو خط نسخ میں تحریر کیے گئے ہیں۔ خواص خوانی دروازے کے اندرونی حصے میں دو سلیں نصب ہیں، جن میں سے ایک پر قل شریف اور دوسری پر مختلف قرآنی آیات کندہ ہیں۔ شیشی دروازے پر نصب سلیب پر فارسی میں قلعے کی تعمیر کا سال 948ھ کندہ کیا گیا ہے۔
قلعہ روہتاس کی تباہی کا آغاز اس دن ہوا جب ہمایوں (جو شیر شاہ سوری سے شکست کھا کرایران چلا گیا تھا) دوبارہ شہنشاہ ہندوستان بن کر اس قلعے میں داخل ہوا۔ وہ اس عظیم قلعے کو دیکھ کر دنگ رہ گیا اور جب اسے معلوم ہوا کہ یہ قلعہ تو اس کے دشمن شیر شاہ نے بنوایا تھا تو اس نے غصے کی حالت میں اسے مسمار کا حکم دیا۔ بادشاہ کے معتمد خاص بیرم خاں نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اب یہ اسلامی ورثہ ہے اور اس پر قوم کا کافی پیسہ خرچ ہوا ہے، اس لیے اسے مسمار نہ کیا جائے۔ ہاں اپنے حکم کی شان برقرار رکھنے کی خاطر اس کا کچھ حصہ گرا دیں۔ چنانچہ سوہل دروازے کے پانچ کنگرے گرا دیئے گئے، جو بعد میں دوبارہ تعمیر کرائے گئے۔
قلعے کی اصل تباہی سکھوں کے ہاتھوں ہوئی، جو شاہی عمارات کے اندر سے قیمتی پتھر اکھاڑ کر ساتھ لے گئے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ بھی طویل عرصے یہاں مقیم رہا، تاہم قعلے کے بنیادی ڈھانچے اور عمارتوں کو اس نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔
قلعہ روہتاس جی ٹی روڈ دینہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ قلعہ کے قریب واقع نالہ گھان پر پل تعمیر کر دیا گیا ہے۔ اس پل کی تعمیر سے پہلے نالہ گھان میں سے گزرنا پڑتا تھا اور برسات کے موسم میں آمد و رفت منقطع ہو جاتی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دروان استعمال کی جانے والی نیلام شدہ گاڑیاں قلعہ روہتاس کے لیے بطور پبلک ٹرانسپورٹ چلائی جاتی ہیں۔
قلعے کے اندر مکمل شہر آباد ہے اور ایک ہائی اسکول بھی قائم ہے۔ مقامی لوگوں نے قلعے کے پتھر اکھاڑ اکھاڑ کر مکان بنا لیے ہیں۔ قلعے کے اندر کی زمین کی فروخت منع ہے۔ اس وقت سطح زمین سے اوسط تین سو فٹ بلند ہے۔ اس وقت چند دروازوں، مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے سسر راجا مان سنگھ کے محل اور بڑے پھانسی گھاٹ کے سوا قلعہ کا بیشتر حصہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ نے قلعے کے باہر کی آبادی کو قلعہ کے اندر منتقل ہونے کی اجازت دے دی تھی۔ اس آبادی کی منتقلی کے بعد جو بستی وجود میں آئی اب اسے ”روہتاس گاؤں” کہتے ہیں۔ سلیم شاہ کا خیال تھا کہ آبادی ہونے کے باعث قلعہ موسمی اثرات اور حوادثِ زمانہ سے محفوظ رہے گا، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور آج اپنے وقت کا یہ مضبوط ترین قلعہ بکھری ہوئی اینٹوں کی صورت اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔
(مسافر شوق)