محترمہ نسیم سلیمان کی یادوں کا مجموعہ، ”دیپ بِکھری یادوں کے‘‘ – محمد اکبر خان اکبر

یادیں انسانی زندگی کا اہم حصہ ہیں. جوں جوں انسان کی عمر بڑھتی چلی جاتی ہے، یادیں ایک قیمتی اثاثے کا روپ ڈھال لیتی ہیں. ایامِ رفتہ سے ناتا توڑنا فطرتِ انسانی کے خلاف ہی نہیں بلکہ سب کے لیے یہ ایک ناممکن سی بات ہے. تلخ و شیریں لمحات کی یاد تا عمر انسان کے ساتھ ہی رہتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ تلخ یادوں سے گبھرا کر ایک شاعر کو یہ کہنا پڑا:

یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

گئے دنوں کی یادوں کو نوک خامہ پر لانا اور پھر قرطاس ابیض پر منتقل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں. یہ وہ بھاری پتھر ہے جسے اٹھانا بہت دشوار ہوا کرتا ہے. محترمہ نسیم سلیمان کا کمال ہے کہ وہ اپنی یادوں کو ضبط تحریر میں لانے کا فن جانتی ہیں. اولین تصنیف ”یادوں کی الماری‘‘ کے بعد دوسری دلچسپ تصنیف ”دیپ بِکھری یادوں کے‘‘ قارئین کو ایک نئے ذائقے سے روشناس کرواتی ہے.
مصنفہ کا اسلوبِ نگارش سادہ، رواں اور تصنع و مبالغے سے پاک ہے. وہ عام فہم زبان میں اپنے تجرباتِ زیست تحریر کرتی چلیں جاتی ہیں. اپنی اس تصنیف میں انہوں نے کئی عنوانات کے تحت یادوں کو مجتمع کیا ہے. ان کے قلم کا کمال ہے کہ انھوں نے پر اثر انداز میں یادوں کا تذکرہ کیا ہے جسے پڑھتے ہوئے قاری کئی کیفیات سے گزرتا ہے. کبھی اس کی آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں تو کبھی خوب صورت وادیوں کی کھوج میں جانے کی خواہش بیدار ہوجاتی ہے. محترمہ کی اس کتاب کے مطالعے سے پڑھنے والے کے اردگرد اس کی اپنی بکھری یادوں کے دیے روشن ہونے لگتے ہیں اور ایک یہ آرزو جنم لیتی ہے کہ کسی طرح وہ بھی اپنی بکھری یادوں کو جمع کر لے.
نسیم سلیمان صاحبہ کا طرزِ تحریر متوجہ کرنے والا اور لطف انگیز ہے. یہ بات یقین سی کہی جا سکتی ہے کہ مصنفہ کی پہلی کتاب نے جس طرح کتب بین طبقے میں پذیرائی حاصل کی، اسی طرح ان کی یہ کتاب بھی ادب کے مداحین میں مقبول ہوگی، انشاءاللہ.
نسیم سلیمان صاحبہ کی یہ کتاب دراصل ان کی پہلی سوانحی کتاب کا تسلسل ہے. وہ طویل عرصے تک درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں اور یقیناً انہوں نے بے شمار طالبات کو علم کے زیور سے آراستہ کیا ہے. بہت سے تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دی ہیں اور بہت سے تعلیمی و تفریحی دورے بھی کیے ہوں گے، اس لیے ان کے پاس اور بھی بہت سی دلچسپ یادوں کا ذخیرہ یقینی طور پر موجود ہوگا. امید ہے کہ وہ قلم یونہی تھامے رہیں گی اور مزید گہر پارے ان کے قلم سے نکل کر ادبی افق کو روشن کرتے رہیں گے.
چند انتہائی غم انگیز واقعات بھی نسیم سلیمان صاحبہ کی کتاب کا حصہ ہیں. جیسے دریائے جہلم میں اہل خانہ کے سامنے ایک ریٹائرڈ فوجی کے ڈوبنے کا بہت دلدوز واقعہ ”اور طوطی لوٹ آئی‘‘ میں معصوم بچی کے گم ہونے کا واقعہ ”وہ تو بہار چمن تھی‘‘ جیسا پر الم ماجرا وغیرہ وغیرہ
اس کے علاوہ ان کی کتاب میں چند خوب صورت تفریحی مقامات کا بھی تذکرہ ہے جیسے کہراٹا آبشار، دو چھمبری، دیوی گلی، تولی پیر اور تتہ پانی وغیرہ گویا ان کی یادوں کا سلسلہ آزاد کشمیر کی خوب صورت وادیوں تک پھیلا ہوا ہے جو قاری کو ان فرحت بخش علاقوں کی سیر کرواتا ہے اور ان کے جذبہ سیاحت کو بڑھاتا ہے.
ان کی یہ کتاب پڑھنے والا سبق اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا. زندگی کے اتار چڑھاؤ، رنج و خوشی اور اس کے مختلف رنگوں سے آشنا بھی ہو جاتا ہے اور ہرطرح کے حالات کا مقابلہ کرنا بھی سیکھتا ہے.
مجموعی طور پر نسیم سلیمان صاحبہ کی یہ تصنیف پڑھنے کے لائق ہے. اسے خصوصاً ہر اہم تعلیمی ادارے کے کتب خانے کا حصہ ضرور ہونا چاہیے.