اردو ادب میں افسانہ نگاری معروف اور بہت زیادہ پسند کی جانے والی صنف ادب ہے. البتہ افسانہ نویسی کے رموز ولوازمات کو بروئے کار لا کرایک ادبی فن پارہ تخلیق کرنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں. صبیح الحسن کا اولین افسانوی مجموعہ ”جہنم کا کیوبیکل نمبر 7‘‘ اپنے منفرد اور چونکا دینے والے نام کے ساتھ اشاعت پذیر ہوا ہے اس افسانوی مجموعے کا محض نام ہی چونکا دینے والا نہیں بلکہ اس میں شامل اکثر افسانے بھی قاری کو چونکا دینے کی خاصیت کے حامل ہیں.
مصنف کی اس کتاب میں چودہ افسانے اور اکیس افسانچے ہیں. ان کے افسانوں کا بہ نظر غائر مطالعہ ان کے اسلوبِ تحریر سے روشناس کرتا ہے. وہ عام فہم روز مرہ کی بول چال میں افسانے لکھتے ہیں. ان کے افسانوں اہم بات جو قاری کی دلچسپی کو بڑھاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، وہ افسانوں کے منفرد اور متحیر کرنے والے عنوانات ہیں.
گھڑی میں ٹھہرا لمحہ، زندگی کی موت، تشموگول، سیاہ کمرے کے مکین، کندھوں پر دھری لاش، اور جہنم کا کیوبیکل نمبر7، قارئین کے تجسس میں اضافے کا سبب بنتے ہیں. ان کی تحریر رعنائیوں، جمالیاتی تصوراتی اور ندرت خیال کی حامل ہے.
صبیح الحسن کے افسانوں اور افسانچوں میں کوئی نہ کوئی سبق اندوزی کا پیغام بھی موجود ہوتا ہے جو تطہیر معاشرت کے لیے ان کی کاوشوں کو سامنے لاتا ہے. مصنف کے کئی افسانوں میں تحیر خیزی اور تجسس کا عنصر نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے البتہ یکسانیت کے بجائے موضوعات کاتنوع اور کہانی کا عمدہ کرافٹ انہیں صفِ اول کے افسانہ نگاروں میں شامل کرتا ہے.
ان کے مجموعے میں شامل افسانہ ”پتلے‘‘، مذہبی لبادے میں عقل و شعور کا گلا گھونٹنے والوں کو بے نقاب کرتا ہے اور ان کی سعی لاحاصل کی بے اثری بیان کرتا ہے. حب الوطنی کے جذبات سے لبریز افسانہ ”نوروز‘‘، ترقی و کامرانی کے مناظر سے روشناس کرواتا ہے.
مصنف سماجی استفادے سے کام لیتے ہوئے داخلی و خارجی کیفیات اور الفاظ کے معنی خیز استعمال سے خوب آگاہ ہیں. ان کا قلم رواں اور جاندار ہے جس کی جھلکیاں ان کی تحریر میں جابجا دکھائی دیتی ہیں.
افسانہ نگار معاشرے میں پائی جانے والی اونچ نیچ اور سماجی تفاوت سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے، نہ صرف اس کا مشاہدہ گہرا ہوتا ہے بلکہ اس کی شخصیت میں حساسیت کا عنصر بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے. اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے قلم کے ذریعے ان تمام حقائق و مشاہدات کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر رقم کرنے کے فن میں طاق بھی ہوتا ہے. صبیح الحسن ان تمام خوبیوں کے مالک ہیں. یہی وجہ ہے کہ ان کا یہ افسانوی مجموعہ قارئین کی توجہ کا مرکز ہے. صبیح الحسن نے علامتی انداز اپناتے ہوئے تزکیہ معاشرت کی کاوش کی ہے. ان کی تحریر میں خیال آفرینی، چاشنی اور رعنائی عمومی طور پر جلوہ نما ہے.
اچھا افسانوی ادب وہی کہلاتا ہے جو تخلیق کار کے مشاہدات، احساسات، محسوسات اور معاشرتی حقائق خصوصاً سماج کے محروم طبقات کی ترجمانی احسن انداز میں پیش کرسکے. صبیح الحسن افسانوی ادب کے اجزائے تشکیلی اور افسانوی محاسن کو بروئے کار لانے کے فن سے خوب واقف ہیں. امید ہے کہ ان کا سلسلہ تحریر جاری رہے گا.
تعلیم، تجارت اور خدمتِ ادب: کتاب فروش آن لائن بُک سٹور – حذیفہ محمد اسحٰق
”مشاہیرِ بلوچستان“، پروفیسر سید خورشید افروزؔ کی متاثر کن تحقیق – محمد اکبر خان اکبر
”حسنِ مصر“ سے آشنائی – محمد اکبر خان اکبر
سلمان باسط اور ”ناسٹیلجیا“ کا پہلا پڑاؤ – محمد اکبر خان اکبر
اُردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نویس، منشی پریم چند – آمنہ سعید
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعر اور ادیب، اکرم خاورؔ کی شاعری – آصف اکبر
ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار، فوزیہ تاج کی کی ایک اعلٰی افسانوی تصنیف، ”جل پری‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
نامور کالم نگار و افسر تعلقات عامہ محترمہ تابندہ سلیم کی کتاب، ”لفظ بولتے ہیں“ – محمد اکبر خان اکبر
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع