میبل اور میں – پطرس بخاری

میبل لڑکیوں کے کالج میں تھی لیکن ہم دونوں کیمبرج یونیورسٹی میں ایک ہی مضمون پڑھتے تھے اس ليے اکثر لکچروں میں ملاقات ہوجاتی تھی۔ اس کےعلاوہ ہم دوست بھی تھے۔ کئی دلچسپیوں میں ایک دوسرے کے شریک ہوتے تھے۔ تصویروں اور موسیقی کا شوق اسے بھی تھا، میں بھی ہمہ دانی کا دعوے دار۔ اکثر گیلریوں یا کانسرٹوں میں اکھٹے جایا کرتے تھے۔ دونوں انگریزی ادب کے طالب علم تھے۔ کتابوں کے متعلق باہم بحث مباحثے رہتے۔ ہم میں سے اگر ایک کوئی نئی کتاب یا نیا مصنف دریافت کرتا تو دوسرے کو ضرورآگاہ کردیتا۔ اور پھر دونوں مل کر اس پر اچھے برے کا حکم صادر کرتے۔
لیکن اس تمام یک جہتی اور ہم آہنگی میں ایک خلش ضرور تھی۔ ہم دونوں نے بیسویں صدی میں پرورش پائی تھی۔ عورت اور مرد کی مساوات کے قائل تو ضرور تھے تاہم اپنے خیالات میں اور بعض اوقات اپنے رویے میں ہم کبھی نہ کبھی اس کی تکذیب ضرور کردیتے تھے۔ بعض حالات کے ماتحت میبل ایسی رعایات کو اپنا حق سمجھتی جو صرف صنف ضعیف ہی کے ایک فرد کو ملنی چاہئیں اور بعض اوقات میں تحکم اور رہنمائی کا رویہ اختیار کرلیتا، جس کا مطلب یہ تھا کہ گویا ایک مرد ہونے کی حیثیت سے میرا فرض یہی ہے۔ خصوصاً مجھے یہ احساس بہت زیادہ تکلیف دیتا تھا کہ میبل کا مطالعہ مجھ سے بہت وسیع ہے۔ اس سے میرے مردانہ وقار کو صدمہ پہنچتا تھا۔ کبھی کبھی میرے جسم کے اندر میرے ایشیائی آباؤاجداد کا خون جوش مارتا اور میرا دل جدید تہذیب سے باغی ہو کر مجھ سے کہتا، کہ مرد اشرف المخلوقات ہے۔ اس طرح میبل عورت مرد کی مساوات کا اظہار مبالغہ کے ساتھ کرتی تھی۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ عورتوں کو کائنات کی رہبر اور مردوں کو حشرات الارض سمجھتی ہے۔
لیکن اس بات کو میں کیوں کر نظرانداز کرتا کہ میبل ایک دن دس بارہ کتابیں خریدتی اور ہفتہ بھر کے بعد انہیں میرے کمرے میں پھینک کر چلی جاتی اور ساتھ ہی کہہ جاتی، کہ میں انہیں پڑھ چکی ہوں۔ تم بھی پڑھ چکو گے تو ان کے متعلق باتیں کریں گے۔
اول تو میرے ليے ایک ہفتہ میں دس بارہ کتابیں ختم کرنا محال تھا، لیکن فرض کیجیے مردوں کی لاج رکھنے کے ليے راتوں کی نیند حرام کرکے ان سب کو پڑھ ڈالنا ممکن بھی ہوتا توان میں دو یا تین کتابیں فلسفے یا تنقید کی ضرورایسی ہوتیں کہ ان کو سمجھنے کے ليے مجھے کافی عرصہ درکار ہوتا۔ چنانچہ ہفتے بھر کی جاں فشانی کے بعد ایک عورت کے سامنے اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا کہ میں اس دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ جب تک وہ میرے کمرے میں بیٹھی رہتی، میں کچھ کھسیانا سا ہو کر اس کی باتیں سنتا رہتا اور وہ نہایت عالمانہ انداز میں بھنویں اوپر کو چڑھا چڑھا کر باتیں کرتی۔ جب میں اس کے ليے دروازہ کھولتا یا اس کے سگریٹ کے ليے دیا سلائی جلاتا یا اپنی سب سے زیادہ آرام دہ کرسی اس کے ليے خالی کردیتا تو وہ میری خدمات کو حق نسوانیت نہیں بلکہ حق استادی سمجھ کر قبول کرتی۔
میبل کے چلے جانے کے بعد ندامت بتدریج غصے میں تبدیل ہوجاتی۔ جان یا مال کا ایثار سہل ہے، لیکن آن کی خاطر نیک سے نیک انسان بھی ایک نہ ایک دفعہ تو ضرور ناجائز ذرائع کے استعمال پر اتر آتا ہے۔ اسے میری اخلاقی پستی سمجھیےلیکن یہی حالت میری بھی ہو گئی۔ اگلی دفعہ جب میبل سے ملاقات ہوئی تو جو کتابیں میں نےنہیں پڑھی تھیں ان پر بھی میں نے رائے زنی شروع کردی لیکن جو کچھ کہتا سنبھل سنبھل کر کہتا تھا۔ تفصیلات کے متعلق کوئی بات منہ سے نہ نکالتا تھا۔ سرسری طور پر تنقید کرتا تھا اور بڑی ہوشیاری اور دانائی کے ساتھ اپنی رائے کو جدت کا رنگ دیتا تھا۔
کسی ناول کے متعلق میبل نے مجھ سے پوچھا تو جواب میں نہایت لاابالیانہ کہا: ”ہاں (کتاب) اچھی ہے، لیکن ایسی اچھی بھی نہیں۔ مصنف سے دور جدید کا نقطہ نظر کچھ نبھ نہ سکالیکن پھر بھی بعض نکتے نرالے ہیں۔ بری نہیں بری نہیں۔‘‘ کنکھیوں سے میبل کی طرف دیکھتا گیا لیکن اسے میری ریاکاری بالکل معلوم نہ ہونے پائی۔ ڈرامے کے متعلق کہا کرتا تھا: ”ہاں پڑھا تو ہے لیکن ابھی تک میں یہ فیصلہ نہیں کرسکا کہ جو کچھ پڑھنے والے کو محسوس ہوتا ہے ، وہ اسٹیج پر جا کر بھی باقی رہے گا یا نہیں؟ تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
اور اس طرح سے اپنی آن بھی قائم رہتی اور گفتگو کا بار بھی میبل کے کندھوں پر ڈال دیتا۔ تنقید کی کتابوں کے بارے میں فرماتا:
”اس نقاد پر اٹھارہویں صدی کے نقادوں کا کچھ کچھ اثر معلوم ہوتا ہے لیکن یوں ہی نامعلوم سا کہیں کہیں۔ بالکل ہلکا سا اور شاعری کے متعلق اس کا رویہ دلچسپ ہے- بہت دلچسپ- بہت دلچسپ۔‘‘ رفتہ رفتہ مجھے اس فن پر کمال حاصل ہوگیا۔ جس روانی اور نفاست کے ساتھ میں ناخواندہ کتابوں پر گفتگو کرسکتا تھا اور اس پر میں خود حیران رہ جاتا تھا۔ اس سے جذبات کو ایک آسودگی نصیب ہوئی۔
اب میں میبل سے نہ دبتا تھا۔ اسے بھی میرے علم وفضل کا متعارف ہونا پڑا۔ وہ اگر ہفتے میں دس کتابیں پڑھتی تھی تو میں صرف دو دن کے بعد ان سب کتابوں پر رائے زنی کرسکتا تھا۔ اب اس کے سامنے ندامت کا کوئی موقع نہ تھا۔ میری مردانہ روح میں اس احسان فتح مندی سے بالیدگی سی آگئی تھی۔ اب میں اس کے ليے کرسی خالی کرتا یا دیا سلائی جلاتا تو عظمت وبرتری کے احساس کے ساتھ جیسے ایک تجربہ کار تنومند نوجوان ایک نادان کمزور بچی کی حفاظت کر رہا ہو۔
صراط مستقیم پر چلنے والے انسان میرے اس فریب کو نہ سراہیں تو نہ سراہیں لیکن میں کم از کم مردوں کے طبقے سے اس کی داد ضرور چاہتا ہوں۔ خواتین میری اس حرکت کے ليے مجھ پر دہری دہری لعنتیں بھیجیں گی، کہ ایک تو میں نے مکاری اور جھوٹ سے کام لیا اور دوسرے ایک عورت کو دھوکا دیا۔ ان کی تسلی کے ليے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ یقین مانیے کئی دفعہ تنہائی میں میں نے اپنے آپ کو برا بھلا کہا۔ بعض اوقات اپنے آپ سے نفرت ہونے لگتی۔ ساتھ ہی اس بات کا بھلانا بھی مشکل ہوگیا کہ میں بغیر پڑھے ہی علمیت جتاتا رہتا ہوں ۔ میبل تو یہ سب کتابیں پڑھ چکنے کے بعد گفتگو کرتی ہے تو بہرحال اس کو مجھ پر تفوق تو ضرور حاصل ہے۔ میں اپنی کم علمی ظاہر نہیں ہونے دیتا، لیکن حقیقت تو یہی ہے نا کہ میں وہ کتابیں نہیں پڑھتا۔ میری جہالت اس کے نزدیک نہ سہی میرے اپنے نزدیک تو مسلَم ہے۔ اس خیال سے اطمینان قلب پھر مفقود ہوجاتا اور اپنا آپ ایک عورت کے مقابلے میں پھر حقیر نظر آنے لگتا۔ پہلے تو میبل کو صرف ذی علم سمجھتا تھا۔ اب وہ اپنے مقابلے میں پاکیزگی اور راست بازی کی دیوی بھی معلوم ہونے لگی۔
علالت کے دوران میرا دل زیادہ نرم ہوجاتا ہے۔ بخار کی حالت میں کوئی بازاری سا ناول پڑھتے وقت بھی بعض اوقات میری آنکھوں سےآنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ صحت یاب ہو کر مجھے اپنی اس کمزوری پر ہنسی آتی ہے لیکن اُس وقت اپنی کمزوری کا احساس نہیں ہوتا۔ میری بدقسمتی کہ ان ہی دنوں مجھے خفیف سا انفلوئنزا ہوا، مہلک نہ تھا۔ بہت تکلیف دہ بھی نہ تھا، تاہم گزشتہ زندگی کے تمام چھوٹے چھوٹے گناہ گناہ کبیرہ بن کر نظر آنے لگے۔ میبل کا خیال آیا تو ضمیر نے سخت ملامت کی اور میں بہت دیر تک بستر پر پیچ وتاب کھاتا رہا۔ شام کے وقت میبل کچھ پھول لے کر آئی۔ خیریت پوچھی، دوا پلائی، ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ میرے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ میں نے کہا، (میری آواز بھرائی ہوئی تھی) ”میبل مجھے خدا کے ليے معاف کر دو۔‘‘ اس کے بعد میں نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا اور اپنے آپ کو سزا دینے کے ليے میں نے اپنی مکاری کی ہر ایک تفصیل بیان کردی۔ ہر اس کتاب کا نام لیاجس پر میں نے بغیر پڑھے لمبی لمبی فاضلانہ تقریریں کی تھیں۔ میں نے کہا ”میبل، پچھلے ہفتے جو تین کتابیں تم مجھے دے گئی تھیں ان کے متعلق میں تم سے کتنی بحث کرتا رہا ہوں۔ لیکن میں نے ان کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھا، میں نے کوئی نہ کوئی بات ایسی ضرور کہی ہوگی، جس سے میرا پول تم پر کھل گیا ہوگا۔‘‘
کہنے لگی: ”نہیں تو۔‘‘ میں نے کہا۔ ”مثلاً ناول تو میں نے پڑھا ہی نہ تھا۔ کیرکٹروں کے متعلق جو کچھ بک رہا تھا وہ سب من گھڑت تھا۔‘‘
کہنے لگی: ”کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔‘‘
میں نے کہا: ”پلاٹ کے متعلق میں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ذرا ڈھیلا ہے۔ یہ بھی ٹھیک تھا؟‘‘
کہنے لگی: ”ہاں، پلاٹ کہیں کہیں ڈھیلا ضرور ہے۔‘‘ اس کے بعد میری گزشتہ فریب کاری پر وہ اور میں دونوں ہنستے رہے۔ میبل رخصت ہونے لگی تو بولی۔ ”تو وہ کتابیں میں لیتی جاؤں؟‘‘
میں نے کہا: ”ایک تائب انسان کو اپنی اصلاح کا موقع تو دو، میں نے ان کتابوں کو اب تک نہیں پڑھا لیکن اب انہیں پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ انہیں یہیں رہنے دو۔ تم تو انہیں پڑھ چکی ہو۔‘‘
کہنے لگی: ”ہاں میں تو پڑھ چکی ہوں۔ اچھا میں یہیں چھوڑ جاتی ہوں۔‘‘ اس کے چلے جانے کے بعد میں نے ان کتابوں کو پہلی دفعہ کھولا، تینوں میں سے کسی کے ورق تک نہ کٹے تھے۔ میبل نے بھی انہیں ابھی تک نہ پڑھا تھا۔ مجھے مرد اور عورت دونوں کی برابری میں کوئی شک باقی نہ رہا۔