”یاروں کے دم سے چمن میں بہار‘‘ – عارف مجید عارف

بہترین ادیب، مترجم اور کتاب دوست ابراہیم جمالی سے ملاقات کا احوال۔

”اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔۔۔‘‘
”ملا کی دوڑ مسجد تک۔۔۔‘‘
”شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے۔۔۔‘‘
یہ ضرب الامثال اور محاورے آپ سب نے سن بھی رکھے ہوں گے اور ان کے برمحل استعمال سے آگاہ بھی ہوں گے۔ ہم نے بھی اپنی کراچی کی حالیہ مختصر یاترا کے موقع پر ان سے بھر پور استعفادہ کیا ہے۔ آج بروز پیر ہمارا ابنِ سینا ہسپتال، کراچی میں ماہر امراضِ ناک کان و حلق سے معائنے کے لیےدن بارہ بجے کا وقت طے تھا۔ سو اسی غرض سے ہم حیدرآباد سے اتوار کی شام مغرب کے کچھ دیر بعد کراچی پہنچ گئے۔ اس بار ہمارا قیام ہماری چھوٹی بہن کے گھر پر تھا جو نارتھ کراچی میں نیو کراچی تھانے کے سامنے رہائش پزیر ہیں۔ وہاں پہنچ کر محسوس ہوا کہ عشا کی نماز اور کھانے میں کچھ وقت تھا۔ اسی کچھ وقت کو ہم نے اپنے لیے یادگار بنا لیا۔ قریب ہی بھائی ابراہیم جمالی کی نثار لائبریری واقع ہے۔گزشتہ کراچی یاترا میں ان سے ملاقات نہ ہوسکی تھی لیکن اس بار یہ حسین ملاقات ہو ہی گئی۔ ہم کتابی کیڑے ہیں اور کتابوں سے اور کتاب دوستوں سے عشق کرتے ہیں۔ ابراہیم جمالی ایک بے مثال خزانے کے مالک ہیں. ان کے ہر طرف کتابیں ہی کتابیں ہیں۔ وہ ایک اچھے ادیب اور بہترین مترجم ہیں جو سندھی زبان سے بہترین تراجم کرچکے ہیں لیکن ان سب سے بھی زیادہ وہ ایک اچھے انسان ہیں۔ ہم زندگی میں پہلی بار ان سے مل رہے تھے لیکن وہ اتنی محبت اور اپنائیت سے ملے کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ ان کی لائبریری تو ہمارے لیے ہفت اقلیم سے بھی بڑھ کر حیثیت رکھتی ہے۔ دل چارہا تھا کہ کوئی ہمیں کم از کم ایک ماہ کے لیے ان کتابوں کے ساتھ قید کردے۔

ابراہیم بھائی سے جبار توقیر، ایم اے راحت ، نواب صاحب، احمد اقبال، الف صدیقی، محمود احمد مودی، طاہر جاوید مغل، کاشف زبیر اور دیگر مصنفین کی مختلف سلسلے وار کہانیوں پر گفتگو ہوتی رہی۔ وہ اس معاملے میں انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ انہوں نے ہمیں اچھی سی چائے بھی پلائی۔ اس دوران نوشاد عادل سے فون پر گفتگو بھی ہوتی رہی۔ ہماری آمد سے کچھ دیر قبل ہی محترم عبدالرب بھٹی صاحب بھی وہاں سے ہوکر گئے تھے۔ان سے ملاقات نہ ہونے کا افسوس ہے۔ اسی وقت ابراہیم بھائی نے ہمیں سرگزشت کا تازہ شمارہ بھی دکھایا جس میں ہماری تحریر کردہ کہانی بھی موجود تھی۔ سرگزشت کے حوالے سے محترم پرویز بلگرامی صاحب کا ذکر خیر بھی ہوا۔ جمالی بھائی کے مطابق وہ بھی کچھ مرتبہ یہاں رونق افروز ہو چکے ہیں۔ابراہیم بھائی نے ان کی بہت تعریفیں کیں۔ اب ہم بلگرامی صاحب سے بھی ملنے کے متمنی ہیں۔ کتابوں کی گفتگو میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔

وقتِ رخصت انہوں نے ہمیں انوار احسن صدیقی کا ناول ”ٹوٹے تارے‘‘ بھی تحفتاً پیش کیا۔ ان کی محبتوں کا شکریہ۔ ان کی کتابوں سے محبت کے لیے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ اللہ تعالی انہیں ہمیشہ شاد آباد رکھے، آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں